پیپلزپارٹی جیسی کرپٹ ترین پارٹی جو الزامات اور خوربرد
کے کیسز میں ریکارڈ یافتہ بلکہ سند یافتہ ہے، کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
آصف علی زرداری نے اپنی پارٹی کیساتھ ساتھ اپنے والد حاکم زرداری کا نام
بھی خراب کیا ۔ آصف زرداری پر بیسیوں کیسز مختلف تھانوں، ایف آئی اے اور
نیب وغیرہ میں رجسٹرڈ ہیں اورجنرل مشرف کے چلے جانے کے بعد معیشت کی جو
ابتر صورتحال ان کے دور میں ہوئی وہ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی ۔زرداری
صاحب تو ایسے بے مروت اور مطلب پرست شوہر نکلے کہ اپنی چاند سی خوبصورت اور
پہاڑوں سے بلند حوصلہ رکھنے والی بیوی کو بھی نہ سنبھال سکے اور ڈھٹائی
ایسی کہ آج تک عوام اوراداروں کے بھرپور اصرار کے باجود بھی بے نظیرقتل کیس
کی تفتیش کیلئے راضی نہ ہوئے ۔ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے معتدل سیاست کی قائل
جماعت اسلامی کو عملی سیاست کے تین عظیم شاہسواروں قاضی حسین احمد ، سید
منور حسن اور اب سراج الحق کی سربراہی ملی ہے ۔ یہ بات کہنے میں مجھے کوئی
عار نہیں ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے نظریات ، منشور، دستور اور اسلامی
نظام کے نفاذ کیلئے کسی بھی موڑ پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی علی الاعلان
کسی غیر آئینی و غیر قانونی اور نظام اسلام سے متصادم کسی تحریک یا فرد کا
ساتھ دیا۔لیکن جماعت اسلامی 70سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سٹریٹ
پاور سے آگے نہ بڑھ سکی اور لوگ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی
وکٹ کے دونوں اطراف میں کھیلتی ہے اور ایک خاص قسم کے’’ خول‘‘ سے باہر نہیں
نکلنا چاہتی ، کہ جس خول سے ماضی میں احسن اقبال، سعد رفیق، جاوید ہاشمی،
حنیف عباسی،عارف علوی ، فیاض الحسن چوہان اور بے شمار سیاسی لیڈرز تائب ہو
کر پارٹی کو داغِ مفارقت دے چکے ہیں ۔
جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کی کوتاہیوں پر چپ کیوں ہے ؟
جماعت اسلامی پانامہ کے چکر میں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی کرپشن پر پردہ
ڈال کر درمیانی راہ پر کیوں گامزن ہے ؟ کیا یہ طرز سیاست جماعت اسلامی کے
مفاد میں ہے کہ جمہوریت کا راگ بھی گائے اور حکمرانوں کی ٹانگیں بھی کھینچے؟۔
فی الوقت پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی میں کوئی واضح
فرق محسوس نہیں ہوتا۔ اگرچے پیپلزپارٹی نے سیاسی منظرنامے میں گرتی ہوئی
دیوار کو دھکا لگانے کے بجائے پیچھے رہ کر عدل وانصاف کا نعرہ بلند کیا ہے
۔سب ے پہلے کرپشن کے خلاف آوازہ بلند کرنے والی پارٹی جماعت اسلامی نے کیس
کو مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی طرح بھرپور انداز میں فائٹ نہیں کیا بلکہ
جماعت اسلامی پانامہ کیس میںMain Stream سے کوسوں دور نظر آئی اور پانامہ
اور جے آئی ٹی میں شیخ رشید (ون مین شو) ہوتے ہوئے بھی جماعت اسلامی سے
زیادہ میڈیا کوریج اور شہ سرخیوں کا مستحق ٹھہرا۔ یا د رہے سید ابو الاعلیٰ
مودودیؒ نے جماعت اسلامی کے ارکان کو ایک بات بڑے واضح طریقے سے سمجھائی
تھی کہ جب تک ہم ایوانوں میں نہیں بیٹھیں گے تب تک ہم نہ انسانیت کی خدمت
کرسکتے ہیں اور نہ دین اسلام کی ۔اس لیے جماعت کو اپنی پالیسیوں اور اداؤں
دونوں پر غو ر کرنا ہوگا اور اپنی پرانی روش ــ’’سارے جہاں کا درد ہمارے
جگر میں ہے‘‘ کو ترک کر کے سیاسی محاذوں پر خوب ڈٹ کر لڑنا ہو گا ، وگرنہ
اگلے بیسیوں سال بھی اقتدار کی مسندوں پر بیٹھنا خواب ہو گا۔تگڑی اپوزیشن
تو کسی بھی جمہوری مینڈیٹ کا زیور اور حسن کی دیوی ہوا کرتی ہے لیکن موجودہ
حقیقی اپوزیشن تو خدا کسی دشمن کو بھی نصیب نہ کرے جو دوسروں پر الزام
لگاتے وقت اپنے کھاتے چیک نہیں کرتی اور عمران خان کی کاؤنٹی کرکٹ کی
تفصیلات دیتے وقت معصوم و مغفور بن جاتی ہے۔
35سالہ قیمتی رفاقت کو چھوڑ کر چوہدری نثار علی خان کہیں نہیں جاتے، کیوں
کہ کوئی بھی دوسری پارٹی اس لائق نہیں جس میں یہ جاسکیں۔ ہاں چوہدری نثار
تحریک انصاف میں جاسکتے تھے اگر وہاں جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی نہ
ہوتے ۔ اگر نااہلی کا فیصلہ آیا تو حکمران کہتے ہیں کہ ہم قانونی و آئینی
آپشنز استعمال کریں گے جو کہ مکمل جھوٹ ہے ۔ جہاں تک قیاس آرائیوں کا
معاملہ ہے کہ نواز شریف ڈیڑھ دوماہ تک نا اہل ہو گئے تو عبوری سیٹ اپ کے
بعد چوہدری نثار، شہباز شریف، احسن اقبال یا شاہد خاقان عباسی میں سے کسی
کو مستقل وزیر اعظم بنایا جائے گا ۔راقم کی رائے کے مطابق نواز شریف نااہل
نہیں ہوں گے ، جب کہ اپوزیشن کے دباؤ ، جے آئی ٹی رپورٹس، ججز کے تابک توڑ
حملوں اور خود نواز شریف اینڈ فیملی کی تقاریر، بیانات، دلائل اور جواب
الجواب میں تضادات کے باعث سپریم کورٹ کو کچھ نہ کچھ عوامی فیصلہ سنانا
ہوگا جس سے عدلیہ کی ساخت بحال رہے، یعنی سانپ بھی مرجائے اورلاٹھی بھی نہ
ٹوٹے ۔ اس ضمن میں مختلف الخیال ذرائع کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کے بجائے ان
کے بیٹوں میں سے کسی کی نااہلی وغیرہ کا فیصلہ سامنے آسکتا ہے اور وزیر
اعظم اور باقی ماندہ پورے کیس کو نیب یا کسی بھی ٹرائل کورٹ کے ذمہ کر کے
جے آئی ٹی کی طرح ’’ٹائم فریم ‘‘بھی دیا جاسکتا ہے کہ فلاں مدت تک تحقیقات
کر کے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے ، جو کہ ایک بے سود کوشش ہو گی۔
عمرا ن خان کی شہرت کا گراف وزیر اعظم کی نااہلی کی خبر پر ضرور بڑھ رہا ہے
لیکن اس سے پنجاب کی سیاست پر دور دور تک کوئی فرق پڑھتا دیکھائی نہیں دے
رہا ۔اگلا الیکشن بھی وہی پارٹی جیتے گی جو پنجاب کو بچا لے گی ، جو پنجاب
کو بچا لے گا وہ بلوچستان کیساتھ ساتھ خیبر پختون خواہ میں بھی اپنے
اتحادیوں کے ذریعے اچھا پرفارم کرنے کی کوشش کریگا اور فیڈریشن میں بیٹھ کر
حکومت چلائے گا۔ اگر وزیر اعظم نااہل نہ ہوئے تو پھر خان صا حب کچھ عرصے
بعد اسی سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور نئے ٹرائل کورٹ کو کوسنا شروع کردیں گے
، کیوں کہ یہ انکی سیاسی مجبوری بھی ہے اور ذہنی تسکین کا باعث بھی ۔
|