کہا جاتاہے کہ کسی ایک فرد کو کرپشن کرنے پر عبرت کا
نشانہ بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اورنظام میں تبدیلی ممکن نہیں ۔ یہ
ایک حلقے کی رائے ہے ، جبکہ دوسرا حلقہ مُصر ہے کہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ
ڈالنے سے چھوٹی مچھلیاں خود ہی راہ راست پر آجائیں گی اور عوام کو راہ نجات
مل جائے گی ۔ان آرا سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے۔ ایک زمانے کی بات ہے
کہ ایک ملک میں بادشاہ رہا کرتا تھا۔ مملکت کا نظام خراب ہوچکا تھا ، رشوت
اور اقربا پروری عروج پر تھی ، عوام انصاف نہ ملنے کی وجہ سے متعدد مسائل
کا شکار تھے۔ تنگ آکربادشاہِ وقت نے دربار میں اعلان کیا کہ کیا کوئی ہے جو
مملکت کا نظام درست کرسکے ، اعلان ِ شاہی کے بعد سے ایک وزیر با تدبیر اٹھا
اور اس نے کہا کہ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں ، کہ جو حکم دونگا ، اس پر
عمل بھی ہوگا ، تب ہی مملکت کا نظام درست ہوسکے گا اگر نہ ہوسکے تو جو سزا
دی جائے گی مجھے قبول ہوگی۔ بادشاہ وقت نے اجازت مرحمت کی اور منصف اعلی کے
عہدے سے سرفراز کیا کہ مجھے امید ہے کہ تم دھوکہ نہیں دو گے ۔
نو منتخب منصف اعلی نے ملک کے سب سے بڑے اثر رسوخ کے حامل وزیر کو سزائے
موت دینے کا اعلان کردیا، جس سے عوام نہایت تنگ تھی ،شاہی وزرا ء میں ہل چل
مچ گئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ، انھوں نے منصف اعلی کو سفارش کے لئے ایک اعلی
عہدے دار کو بھیجا کہ انھیں معاف کردیں ، چھوٹی موٹی سزا دے دیں ، انصاف کا
بول بالا بھی ہوگا اور نوکر شاہی بھی بادشاہ ِ وقت اور آپ سے خوش رہے گی ،
منصف اعلی نے اپنے اعلان میں اضافہ کیا کہ اس سفارش کرنے والے کے ہاتھ کاٹ
دو ، وہ اعلی عہدے دار گھبرا گیا اور گڑ گڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ جناب عالی
، میں تو سفارشی رقعہ لیکر نہیں آرہا تھا ، لیکن مجھے تو فلاں فلاں نے
مجبور کیا ، منصف اعلی نے اپنے اعلان میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ جس جس نے
سفارش کے لئے کہا ،سب کی زبان کاٹ دی جائے۔
منصف اعلی کے حکم پر عمل درآمد ہونے سے قبل بادشاہِ وقت کے پاس رحم کی اپیل
آئی تو انھوں نے منصف اعلی سے پوچھا کہ ایک جرم میں اتنے سارے وزرا ء کو
بڑی سزائیں ؟۔منصف اعلی نے کہا اصل مسئلہ یہی ہے کہ جب بھی کسی با اثر فرد
کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی سفارش لیکر آجاتا ہے
۔ یہ وزیر قوم کا مجرم ہے ۔ فساد فی الارض کا مرتکب ہوا ، لہذا اس کے لئے
موت کی سزا ، اس کے لئے سفارشی رقعہ لانے والے کے یاتھ اس لئے کاٹنے کا حکم
دیا کہ اس نے قوم کو عذاب میں مبتلا کرنے والے کیلئے سہولت کار کا کردار
ادا کیا اور جس جس نے اسے بھیجا کہ وہ منصف اعلی تک سفارش پہنچائے ان کی
زبان اس لئے کاٹنے کا حکم دیا کیونکہ ان ہی حرکتوں کی وجہ سے مملکت اس حال
کو پہنچی۔
حکم پر عمل ہوا اور جب چھوٹے بڑے سب نے دیکھا کہ ملک کے اتنے بڑے اثر رسوخ
کے حامل کو ، اس کے سفارشیوں کو نہیں چھوڑا گیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا ۔ یہ
سوچ کر مملکت میں امن ہوا اور کرپشن و اقربا پروری کا خاتمہ ہوا ۔ مثال
اچھی ہے اگر واقعی اس پر عمل درآمد ہو ۔ کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ کہانی کا
دوسرا حصہ کچھ اس طرح ہے کہ جب منصف اعلی کے سخت احکامات سے امن قائم
ہوجاتا اور عوام میں راوی چین ہی چین لکھنے لگا تو کچھ وقت کے لئے راوی چین
ہی چین لکھنے سے رک گیا ۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ منصف اعلی سوچتا ہے کہ دراصل
ان برائیوں کی اصل جڑ تو بادشاہ ِ وقت ہے ، جس کی کمزور حکمرانی کی وجہ سے
یہ سب ہوا ۔ منصف اعلی کچھ سوچ کر بادشاہِ وقت کے خلاف حکم جاری کرتا ہے کہ
مملکت میں یہ خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں ، اگر مملکت اپنی رٹ کو قائم رکھتی ،
کمزور حکمرانی کی وجہ سے مملکت کا تمام انصرام و انتظام متاثر ہوا ، جس کا
ذمے دار بادشاہِ وقت ہے ، لہذا بادشاہ ِ وقت کو زندان میں ڈال دیا جائے۔
کیونکہ اصل خرابی کا ذمے دار بادشاہ ِ وقت ہی ہے ۔ نوکر شاہی ، جو پہلے ہی
بادشاہ ِ وقت کی جانب سے ایسے سخت گیر منصف کی تعیناتی پر چراغ پا تھے ،
موقعے سے فائدہ اٹھایا اور بادشاہ وقت کو گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا
گیا ۔ بادشاہ وقت اب پریشان تھا کہ کیا کیا جائے ، اس نے سفارش کیلئے بڑے
بڑے ناموروں کو کہا لیکن سب نے کہا کہ منصف اعلی بڑا سخت گیر ہے ، وہ ہاتھ
و زبان دونوں کاٹ دیتا ہے ۔ بادشاہ ِ وقت نے اپنا سر پکڑ لیا کہ اب کیا
ہوگا ۔
اب مملکت میں مسئلہ درپیش ہوا کہ نیا حکمران کس کو بنایا جائے۔ نئے حکمراں
کیلئے امیدواروں کی لمبی فہرست تھی لیکن سب ڈرتے تھے کہ منصف اعلی بڑا سخت
ہے ۔ لہذا سب نے فیصلہ کیا کہ منصف اعلی کو ہی حکمراں بنا دیا جائے۔ امرا ء
و وزرا ء کے اصرار پر منصف اعلی کو بادشاہ ِ وقت بنادیا گیا ۔ اب منصف اعلی
، بادشاہ ِ وقت بن چکا تھا ۔ امرا ء اور وزرا ء نے عرض کی کہ کیونکہ اب آپ
بادشاہ وقت بن چکے ہیں تو منصف اعلی کے عہدے پر کسی ایماندار کو فائز کردیا
جائے ۔ نئے بادشاہ ِ وقت نے منصف اعلی کیلئے نام طلب کرلئے۔ فہرست مرتب
ہوئی تو اس میں زندان میں قید بادشاہ کا نام بھی کسی نے شامل کردیا ۔
بادشاہ ِ وقت نے فہرست میں قیدی بادشاہ کا نام پا کر سخت حیرانگی اور
ناراضگی کا اظہار کیا کہ قیدی بادشاہ کا نام کس نے شامل کیا ، لیکن کسی نے
اقرار نہیں کیا۔ بادشاہ ِ وقت نے قیدی بادشاہ کو دربار میں بلا لیا اور سب
کے سامنے پوچھا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ منصف اعلی کیلئے انتخاب ہورہا ہے
اور تم نے اپنا نام کس طرح فہرست میں شامل کرایا ۔ قیدی بادشاہ نے لاعلمی
کا اظہار کیا کہ میں تو دنیا سے بے خبر کال کوٹھری میں ہوں ، مجھے اس کا
علم نہیں ۔آپ کی سخت گیر ی کی وجہ سے وہ اپنا نام ظاہر کرنے سے کترا رہا
ہے۔ بادشاہ ِ وقت نے کچھ لمحے سوچا اور پھر اعلان کیا کہ جس نے بھی اس
فہرست میں قیدی بادشاہ کا نام شامل کیا ہے ، ایسے کچھ نہیں کہا جائے گا ،
وہ ظاہر ہوجائے ۔
شاہی فرمان پر محل کا محافظ آگے بڑھا اور کہا کہ یہ میں شامل کرایاتھا ۔
بادشاہ ِ وقت نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ امور سلطنت سے نئے بادشاہ واقف
نہیں اور تمام تر خامیوں کے باوجود ، نظام کی درستگی کیلئے آپ جیسے دانا کا
انتخاب قیدی بادشاہ نے ہی کیا تھا ، اس لئے امور مملکت میں معاونت کیلئے
قیدی بادشاہ سے دانا شخص کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ۔ بادشاہ ِ وقت نے تجویز
کو پسند کیا اور قیدی بادشاہ کو معاف کرکے منصف اعلی کے عہدے پر فائز کردیا
اور محل کے محافظ کو انعامات سے نوازا۔ اب قیدی بادشاہ منصف اعلی کے عہدے
پر براجمان تھا ۔ عہدے پر فائز ہوتے ہی اس نے حکم جاری کیا کہ بادشاہ وقت
کو گرفتار کرلیا جائے۔سپہ سالار کے سپائیوں نے بادشاہ وقت کو گرفتار کرلیا
۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو منصف اعلی نے کہا کہ آپ نے کوتائیاں کیں۔ مجھے
زندان میں ڈال دیا لیکن میرے جرم کی سزا نہیں دی ، ماضی کے برعکس سفارش
کرنے والے کیلئے معافی کا اعلان کیا ۔ حالاں کہ آپ قید خانے کے کسی بھی
سپاہی سے حقیقت معلوم کرسکتے تھے کہ مجھ سے کون کون ملنے آتا رہا ۔ لیکن آپ
اپنے اصل مقصد کو بھول گئے اور اقتدار کے نشے میں اسی طرح غرق ہوگئے ، جیسے
میں ہوگیا تھا ۔ پھر مجھے سزا دینے کے بجائے انصاف کے اسی ہی بڑے عہدے پر
فائز کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اگر مجھ میں یہ اہلیت ہوتی تو میں آپ کو
کیوں منصف اعلی بناتا ۔ میں نے محافظ کو ساتھ ملا کر لالچ دی کہ اگر میں
بادشاہ ِ وقت بن گیا تو تمھیں وزیر اعظم بنا دونگا ۔ لہذا آپ کے ماضی کے
حکم کو دیکھتے ہوئے فیصلہ دیتا ہوں کہ آپ کے زبان کاٹ دی جائے اور محافظ کے
ہاتھ اور پاؤں ۔ اس کے بعد بادشاہ نے منصف اعلی کا عہدہ ہی ختم کردیا اور
عوام میں منادی کرادی کہ جو مملکت کا حکمراں ہوتا ہے تو یہ اس کے فرائض میں
ہے کہ انصاف بھی خود کرے ، بادشاہ نے تمام سفارشی شاہی وزرا ء کو فارغ کیا۔
عوام سے اہل افراد کا انتخاب کراکے اہل وزیروں کو ان کی صلاحیت کے مطابق
محکمے دیئے کہ عوام تک ان کی قابلیت کے ثمرات پہنچ سکیں ، اہل و قابل وزرا
ء کی شوری سے اہل حکمراں کا انتخاب عمل میں لایا گیا، بادشاہ ِ وقت نے عوام
سے منتخب اہل وزرا ء کا فیصلہ قبول کرکے تخت حکمرانی کو چھوڑ دی ۔بادشاہ کے
اس فیصلے سے عوام خوش ہوجاتی ہے اور پھرروای اس کے بعد چین ہی چین لکھتا
ہے۔ |