عدلیہ اور جمہوریت

ججوں نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔اب میرے لئے بڑی مشکل ہو گئی ہے۔میں رہا پرانا خاندانی آدمی۔ اہل اقتدار کی خدمت میری گھٹی میں پڑی ہے۔میرے دادا ،پڑدادا بھی حکومت کے خدمتگار تھے۔ میرے والد نے بھی ساری زندگی اسی درویشانہ انداز میں گزاری۔خوامخواہ کسی سی الجھنا، کوئی جھگڑا فساد کرناہمارے خاندان میں ایسی کوئی روایت ہی نہیں۔حد تو یہ ہے کہ ہم سکھوں کے بھی خدمتگار رہے ہیں۔ ہمارے ڈرائنگ روم میں لگی بڑے لوگوں کے ساتھ میرے بزرگوں کی تصویریں ہماری خاندانی وجاہت، عظمت اور وفاداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اپنے بزرگوں کی تقلید میں ہمیشہ میں بھی ہوا کے رخ پر چلتا ہوں مگر مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اب موجودہ حالات میں ہوا کا رخ کیسے جانوں۔میرے لیڈر کے حامی کچھ کہتے ہیں اور مخالف کچھ اور۔سبھی ساون کے اندھے ہیں اور انہیں ہر چیز اپنی اپنی سوچ کے مطابق ہری ہی نظر آتی ہے۔میرے محبوب لیڈر کے دائیں بائیں موجود خاندانی ڈھولچی تو یقین دلاتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے مگر ججوں کے تیور کچھ اور کہہ رہے ہیں ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ یہ جج بہت مختلف ہیں، انہوں نے امانت اور دیانت کا معیار نہیں بدلا۔ اس معیار کو اپنے سانچے میں نہیں ڈھالا۔اس لئے لگتا ہے کہ مجھے اپنے محبوب اور اپنی محبوبی کو خیر باد کہنا پڑے گا۔مگر پھر بھی ڈر لگتا ہے۔ میرے محبوب وزیراعظم کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ ابھی تک کوئی لیڈر اس قدر فرعون نہیں گزرا جتنا میرے موجودہ لیڈر ہیں۔میں نے چند وزیروں کے انداز اور لہجے سے اندازلگایا ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں تکبر کی اس بلندی تک پہنچ چکے جہاں فطری طور پر پاتال منہ کھولے ایسے لوگوں کا منتظر ہوتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ انہیں چیزوں کو اپنے مطابق ڈھالنا آتا ہے۔ یہ جاتے جاتے کو ئی کمال نہ دکھا دیں۔ جانے محفوظ فیصلے نے اب مجھے کتنے دن غیر محفوظ رکھنا ہے ۔

پاکستان میں آج تک جتنی بھی قیادتیں گزریں ، نواز شریف بلا شبہ ان سب سے طاقتور سمجھے جاتے ہیں اور ہیں بھی ،انہوں نے اس ملک کے تمام اداروں کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھالا اور تیار کر لیا ہے۔بڑے بڑے بیوروکریٹ ان کی مرضی کے سوا کچھ کرنے کا نہ سوچتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں۔ عدلیہ میں بھی ان کا بہت اثر ہے اور یہ عام طور پر عدلیہ کے فیصلوں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ ان سے پہلے وہ جو کمزور لیڈر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے عدلیہ سے مل کر جو کھیل کھیلے ہیں وہ آج تک عدلیہ کے ماتھے پر چمک چمک کر عدلیہ کی بدنامی کا باعث ہیں۔ اب یہ جو بہت طاقتور جانے جاتے ہیں ان سے توکچھ بعید نہیں۔ اﷲ نہ کرے اب کوئی ایسی بات ہو مگر کیا کروں دل ڈر جاتا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جسٹس سر عبدالرشید کے بعد جسٹس محمد منیر 1954 میں پاکستان کے دوسرے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔جسٹس منیر نے مولوی تمیزالدین کیس میں حکومت کے حق میں نظریہ ضرورت کا فیصلہ دیا اور اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے کر آئندہ آنے والے آمروں کے لئے ایک غلط راہ ہموار کر دی ۔یہ فیصلہ آج تک عدلیہ کا سب سے متنازعہ فیصلہ تصور کیا جاتا ہے جس کو حوالے کے لئے بھی استعمال کرنا وکلا باعث شرم سمجھتے ہیں۔اس فیصلے پر لوگ اپنے اپنے انداز میں لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ہو سکتا ہے بعد میں جسٹس منیر کو بھی غلطی کا احساس ہوگیا ہو اور وہ قبر میں شرمندہ شرمندہ لیٹے ہوں مگر اب شرمندگی کا کیا فائدہ ،قوم کو جو بھگتنا تھا وہ بھگت چکی۔

7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے چیف جسٹس ، جناب جسٹس شہاب ا لدین نے اس وقت کے صدر سکندر مرزا کے مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ پندرہ دن بھی نہ گزرے بھے کہ آرمی چیف جنرل ایوب خان کے ہاتھوں سکندر مرزا فارغ ہو گئے۔ جسٹس شہاب الدین اس قدر معصوم، سادہ اور بھلے آدمی تھے کہ انہوں نے جنرل ایوب خان کے نئے مارشل لا کو بھی قانونی بیساکھیاں فراہم کر دیں اور ایوب خان اپنی تمام خامیوں کے باوجود زندہ باد ہو گئے۔

1978 میں ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جسٹس مولوی مشتاق کی سر براہی میں ہائیکورٹ کے چار رکنی بنچ کا فیصلہ آج بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں ۔ لوگوں کے خیال میں یہ فیصلہ حکومتی دباؤمیں کیا گیا،جو قانون کے مطابق نہیں بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا۔آج بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ سات ماہ بعد بھٹو کی اپیل پر سپریم کورٹ کا جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں کیا گیافیصلہ بھی حکومتی دباؤ ہی کا نتیجہ تھا۔58 ٹو بی کے استعمال پر عدلیہ کے مختلف فیصلو ں نے اس کی ساکھ کو مجروح کیا۔ایسے فیصلوں پر قوم ہمیشہ عد لیہ سے شاکی رہی۔ایسے فیصلوں نے عوام کے عدلیہ پر اعتماد اور عدلیہ کے وقار کو بے پناہ ٹھیس پہنچائی۔وقت کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے خود ہی اپنی غلطیوں کا ازالہ بھی کیا۔ 2009 میں عدلیہ نے خود نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا۔

اب حالات بدل چکے۔ اس وقت میڈیا بھی آزاد نہیں تھا۔ لوگ کہتے تھے جھوٹ کی تین قسمیں ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری میڈیا۔اب میڈیا آزاد ہی نہیں ضرورت سے زیادہ آزاد ہے۔ کسی پابندی اور جبر کی پرواہ کئے بغیر وہ ہر سچ کو سامنے لے آتا ہے۔ پہلے کی نسبت لوگوں میں تعلیم اور شعور کی صورت حال بھی بہت بہتر ہے۔اب شاید کوئی دباؤ کسی جگہ کام نہ آسکے۔ کیونکہ کیس خود بولتا ہے اور عام لوگوں کو مکمل نہ سہی لیکن کسی حد تک فیصلے کا اندازہ ہوتا ہے۔ آج کے ججوں کو بھی اپنی عزت اور وقارکا پورا احساس ہے۔ بعض لوگ عدلیہ اور جمہوریت کو آپس میں گڈ مڈ کرکے پرانے کیسوں کے غلط حوالے دے کر اپنے مذموم ارادے کی تکمیل کے لئے جمہوریت کی بقا کی بات کرتے ہیں۔ مگر عدلیہ کو جمہوریت سے کیا سروکار۔ عدلیہ کا کام انصاف کرنا ہے اور انصاف کی راہ میں کوئی بھی چیز رکاوٹ نہیں ہوتی۔عدلیہ کے کسی فیصلے کے نتیجے میں اگر جمہوریت کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار جمہوریت کے چمپیےئن ہونگے کہ فیصلہ ان کی کرتوتوں کا ثمر ہو گا۔ عدلیہ کو تو فیصلے میرٹ پر کرنا ہیں کیونکہ فیصلے جب تک میرٹ پر نہ ہوں گے عدلیہ اپنا وقاربحال نہیں کر سکے گی۔ مجھے یقین ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ جہاں عدلیہ کی قدرومنزلت میں اضافے کا باعث ہو گا وہاں میرے جیسے کمزور لوگوں کے لئے بھی حوصلے اور اطمینان کا باعث ہو گا۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500910 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More