اسرائیل کی سلامتی کابینہ کے فیصلے کے مطابق مسجد اقصی ٰ
کے دروازوں پر لگائے گئے میٹل ڈیٹیکٹروں کو اکھاڑنے کے بعد پولیس نے
دروازوں پر لگے فولادی حفاظتی باڑ کو بھی ہٹا دیا ہے جب کہ باڑ ہٹانے کے
بعدالقدس کی عوام نے مسجد اقصیٰ کے بابِ اسبات پر جمع ہو کر خوشی کا اظہار
کیا۔یادرہے کہ 14 جولائی بروز جمعہ اسرائیلی پولیس نے 3 فلسطینی نمازیوں کو
شہید کر کے اسرائیلی فورسز نے مسجد اقصیٰ کو عبادت کے لئے بند کر دیا
تھا،فلسطین سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کے شدید احتجاج پر اسرائیل نے مسجد
اقصٰی 16 جولائی کو عبادت کے لئے کھول کر مسجد کےداخلی دروازوں پر میٹل
ڈیٹیکٹر نصب کر دئیے گئے تھے،جس کے ردعمل میں فلسطینی نوجوانوں نے مسجد
اقصیٰ کے دروازوں پر جمع ہو کر نماز ادا کرنا شروع کردی تھی،جب کہ 26
جولائی کو اسرائیل کی سلامتی کابینہ کے فیصلے پر مسجد اقصیٰ کے دروازوں پر
نصب میٹل ڈیٹیکٹروں کو ہٹا دیا گیا ،جب کہ فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ کے گرد
نئے اسرائیلی سیکیورٹی اقدامات کو مسترد کرکے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ
کیا ہے، فلسطینی مظاہرین کا اصرار ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ میں اس وقت تک داخل
نہیں ہوں گے جب تک مسجد اقصیٰ کے باہر سے تمام رکاوٹیں ختم نہیں کردی جاتی
ہیں ،اس میں دورائے نہیں ہے کہ پاکستان اور ترکی نے قائدانہ کردار ادا کرتے
ہوئے مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فورسز کی جانب سے بندش اور قبلہ اول میں
مسلمانوں کو مذہبی مناسک کی ادائیگی سے روکنے پر شدید درعمل اورامت مسلمہ
کی آواز اور پورے عالم اسلام خصوصاً فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار
کیاہے جب کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان بالکل بر وقت ہے کہ حکومت
پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑی ہے،دوسری جانب ترکی کے صدر نے بھی اپنے
عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد اقصیٰ تمام مسلمانوں کی آنکھ کا
تارا ہے،جب کہ اسرائیلی فوج کو قوانین کا احترام کرنا چاہئے اور وہ
مسلمانوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے نہ روکے۔حیران کن امر یہ ہے کہ خود
یہودیوں کے اسرائیل مخالف آرتھوڈوکس گروپ نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کی
مذمت کرتے ہوئے نیویارک میں اس کے خلاف مظاہرہ کیا ہے،یاد رہے کہ مسجد اقصیٰ
کی بندش کا واقعہ کوئی نئی بات نہیں ،اسرائیلی فوج کو جب بھی آزاد فلسطین
کے قیام کے حوالے سے فلسطینیوں جدوجہد اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو
اس کے ردعمل میں اپنا غصہ مسلمانوں کے متبرک مقامات کی بے حرمتی کی صورت
ظاہر کرتا ہے جس کی دنیا کا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو اجازت نہیں دیتا
ہے ،بلاشبہ ترکی اور پاکستان نے القدس کے حق میں آواز سے آواز ملا کر دو
ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے تمام عالم اسلام کو یہ پیغام دیا ہے کہ س وقت
مسلم ممالک کو فلسطینی حکومت کا مکمل ساتھ دینا چاہئے جب کہ اقوام متحدہ کو
فلسطین کے مسئلہ پر سرد مہری ختم کرتے ہوئے اسرائیل کے جارحانہ اور غیر
مہذب اقدامات کا نوٹس لے کر اس کے توسیع پسندانہ اقدام کی روک تھام کرے ۔ |