جب بھٹو کی حکومت ختم کی گئی تھی ۔تو شاید ضیاء الحق
واقعی کسی نوے دن کے ایجنڈے پر مطمئن ہونگے ۔مگر پھر جوں جوں وقت بدلا ان
کی نیت بھی بدلتی چلی گئی۔پہلے اپنے غیر آئنی اقدام کے مضمرات کو دور کرنا
ترجیح رہی ۔ان کا خیال تھاکہ بھٹو حالات سے سمجھوتا کرلیں گے۔اپنا لہجہ نرم
رکھیں گے۔اور اگلے الیکشن کی راہ کھلے گی۔ایسا نہ ہوپایا۔ بھٹو صاحب کی
انتقامی اور تضحیک آمیز بیان بازی نے ضیاء کو کچھ خوف اور قدرے غصے سے نوے
دنوں کے ایجنڈے طویل کرنے پر مجبور کردیا۔بات اگر بھٹو کی پھانسی کے بعد
ختم ہوجاتی تو شاید ضیاء کاکردارزیادہ داغدار نہ ہو پاتا۔مگر قدرت نے ادلے
کا بدلہ دینے کا جو نظام قائم کررکھا ہے۔وہ اٹل نظام ضیاء الحق کو ایسی
راہوں کی طرف لے گیا۔جوبعد میں اس کے لیے بدنامی ۔ناکامی اور ذلالت کاسبب
بن گئیں۔امیر المومنین بننے کی خواہش تو شاید ہر حکمران پالتاہے۔مگر جس طرح
کی پرفیکٹ شخصیت خود ضیاء صاحب نے خو د میں محسوس کی وہ اپنی مثال آپ
تھی۔آپ امیر المومنین بننے کی پلاننگ سوچنے لگے۔ان کے مصنوعی دربار و منبر
ان کی راہ میں حائل ہوئے۔اور دنیا دار مشیران آپ کے عبرت ناک انجام کا موجب
بنے۔آپ بھٹو کا نام و نشان مٹانے کے چکر میں تھے۔مگر بھٹو کی نالائقیاں
واضح کرنے کی بجائے ۔اسے شیطان ثابت کرنے کی غلطی کرڈالی۔ایک اور کوتاہی یہ
ہوئی کہ خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی حماقت بھی کرڈالی ۔اس بے تکی تدبیر نے
یہ رنگ دکھایا کہ ا نہ آپ فرشتہ قر ار پائے نہ بھٹو کو شیطان تسلیم کروانے
میں کامیابی ہوئی۔الٹا آپ کی مصنوعی پرہیز گاری کے مضرات آمریت کو عوام میں
متنفر کرگئے۔جس کے بعد لوگوں نے بھٹو کی کوتاہیوں اور کرتوتوں کو نظر انداز
کرتے ہوئے اس کی بیٹی کو وزارت عظمی پرجا بٹھایا۔“
پانامہ کیس کے کمزور فیصلے کے بعد تحریک انصاف اور دیگران کے لیے نئی مشکل
آن کھڑی ہے۔اگر چہ اس گروہ میں عام آدمی پہلے ہی سے ناپید تھے۔صرف واقفان
حال ہی بچے تھے۔یہ بچا کھچا ہجوم بخوبی جانتا تھا۔کہ یہ گروہ کس نے پیداکیا
ہے۔کون اسے چلا رہا ہے۔اور اس کی ذمہ داری کیا تفویض کی گئی ہے۔عام آدمی تو
جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد پہلے ذرا سا ٹھٹھکا اور پھر بعد میں ایسے
حالات و واقعات دیکھنے کے بعد جو مخدوم جاوید ہاشمی کے انکشافات کی تصدیق
بنے ۔اس انقلابی گروہ سے الگ ہوگیا۔اب صرف واقفان حال بچے تھے۔پامانہ کیس
کے فیصلے نے ان واقفان حال کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کردی ہے۔ان لوگوں کو
بتایا گیاتھاکہ تم صرف ہلہ گلہ کرتے رہو ۔نواز شریف کو ننگا ہم کریں
گے۔واقفان حال سمجھتے تھے۔کہ اگر شریف فیملی کی کرپشن ثابت ہوگئی۔تو روٹھی
عوام ایک بار پھر اس دھڑے کو انقلابی تسلیم کرلے گی۔مگر ایسا نہیں
ہوسکا۔شریف فیملی کے خلاف بیسیوں بڑے بڑے الزام لگائے گئے تھے۔سپریم کورٹ ۔جے
آئی ٹی اور اس فیصلے کے دیگر متعلقین اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ان
بیسیوں بڑے بڑے الزامات میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہ کرپائے۔وزیر اعظم نواز
شریف کو اگر نااہل کیا گیا۔تو وہ بھی ا ن کے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ
لینے کے جرم میں ۔سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا۔کہ وزیراعظم تنخواہ لینے کا بیان
حلفی نہیں دے پائے۔وہ صادق و امین نہیں رہے۔اسی بنیاد پر ان کی نااہلی
ہوئی۔مطلب یہی کہ نہ انہیں لندن فلیٹ میں کسی قسم کے ناجائز اور غیر قانونی
کام کام کامرتکب ٹھہرایا گیا۔نہ کسی حکومتی عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا
قصور وار قراردیا گیا۔جہاں تک شریف فیملی کے دیگر افرادکا تعلق ہے ۔ان کا
معاملہ بھی نیب کو منتقل کر کے ایک طرح سے اسے سرد خانے میں ڈالنے کا راستہ
ڈھونڈا گیا۔بھلا ایک معاملہ جو ایک سال کے قریب سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی
اپنی تمام تر کوشش کے بعد نہیں نبٹاپائی اسے ان سے کئی گناکم اختیارات
اوروسائل کی مالک نیب کسی طرح نبٹاپائے گی۔
“
واقفان حال پریشان ہیں۔وہ شریف فیملی کے عبرت ناک انجام کو کیش کروانے کے
چکر میں تھے۔مگر بات نہ بن سکی۔اس فیصلے سے قبل خود لیگی ورکر اور سپورٹر
بھی ڈبل مائنڈڈ تھے۔شاید یہ ذہن بن رہے تھے۔کہ اگر شریف فیملی گناہ گار
ثابت ہوگئی تو تسلیم کرلیں گے۔یقیناًکئی ایک عمران خاں کو نجات دہندہ قبول
کرنے کا فیصلہ بھی کرچکے تھے۔اس فیصلے نے ساری فضا ڈالی۔میڈیا کی تیزی اور
طراری جو کل کو شریف فیملی کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا ہتھیارتھی۔شریف
فیملی کے لیے ایک نعمت غیر مترکبہ بن گئی۔اسی میڈیا نے بچے بچے کو سپریم
کورٹ کے فیصلے کی حقیقت سمجھادی۔ملک کے طول وعرض میں یہ آگاہی ہوگئی کہ
سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہے۔کون سا الزام تھا۔اور سزا کس الزام پر ملی ۔میڈیا
نے جو شعور شریف فیملی کو چور اور ان کے مخالفین کو ساد ثابت کرنے سے متعلق
بانٹا تھا۔وہ گیم پلٹا گیا۔کہاں تو یہ کہ مسلم لیگ ن کے اندر سے بے چینی
بڑھ رہی تھی۔لوگ شریف فیملی سے متعلق مخالفین کا زہریلا پراپیگنڈاسن سن کر
بڑی حد تک یقین کرنے لگے تھے۔اس فیصلے کے بعد وہ سنبھل گئے ۔شریف فیملی کے
ساتھ ان کی وابستگی اور مضبو ط ہوئی ۔دوسری طرف غیر جانبدار طبقہ جو عمران
خان سے جاوید ہاشمی انکشافات کے سچے ثابت ہونے پر ناراض تھا۔بجائے یہ کہ
واقفان حال ان کی حمایت پاتے۔یہ طبقہ اس بنارسی ٹھگ ٹولے سے مذید بدظن
ہوا۔ضیاء الحق نے اپنی بد تدبیر ی سے بھٹو کی خربیوں کو فراموش کرنے کا
راستہ کھولا۔اس نے بھٹو کو ایک نالائق اور بد کردار لیڈر ثابت کرنے کی
بجائے اسے شیطان ثابت کروانے کے چکر میں اپنی کامیابی گنوائی ۔اب پانامہ
فیصلہ دلوانے والے بھی اسی بد تدبیری کے شکارہوئے۔کچھ لوگ نوازشریف کو
مٹانا چاہتے تھے۔مگر ان کے بھونڈے طریقے نے نوازشریف کو مذید مضبوط
کردیا۔انہیں ناکامی ہوئی۔چلے تھے شیر کو مارنے مگر بڈھے شیر کو ان کی بد
تدبیر ی نئی جوانی دے گئی۔ |