روس: دوبارہ ابھرتی ہوئی ایک سپر پاور

گزشتہ چند برسوں سے عالمی تناظر میں روس نہ صرف اچھاخاصہ متحرک دکھائی دے رہا ہے بلکہ بزورِطاقت امریکہ اوریورپی ممالک کی پالیسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہوئے بھی نظر آرہا ہے۔حالیہ دنوں میں مریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی روسی ہم منصب ولادی میرپیوٹن سے ملاقات کے بعد ، اس امریکی اعلان نے دنیا کوورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ اب امریکی خفیہ ادارہ سی آی اے شامی با غیوں کی امدادنہیں کرے گا۔واضح رہے کہ روس بشارالاسدکی حکومت بچانے کے لئے شامی افواج کی بھرپورحمایت اور فوجی تعاون کرتا آرہا ہے جبکہ امریکہ حکومت مخالف شامی باغیوں کو مسلح کرتارہا ہے۔انھی شامی باغیوں کے بچاؤ کے لئے امریکہ نے گزشتہ ماہ ایک حملہ آور شامی جنگی جہاز مار گرایا تھا۔اس واقعہ کے بعد روس نے دھمکی دی تھی کہ اب وہ بھی امریکی جہازوں کو نشانہ بنائے گا۔

اسی طرح تھوڑا پیچھے جا کر دیکھا جائے تو نومبر ۲۰۱۵ میں جب ترک فضائیہ کے ایک ایف ۔۱۶ نے ترکی اور شام کی سرحد پر ایک روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھا تو روس نے خاموشی کی بجائے انتہائی شدید ردِعمل دکھایا اور اعلان کر دیا کہ اب وہ زیادہ جدید جہاز شام بھجوائے گا۔روس کے مدِمقابل ترکی کو مناسب امریکی اور یورپی حمایت نہ ملی اور بالآخر ترکی کو روس سے معافی مانگنا پڑ ی تھی۔

مارچ ۲۰۱۴ میں روس کی یوکرائن کے علاقے کرائمیا پر چڑھائی ،قبضے اور مستقل طور پر کرائمیا کو روس کا حصہ بنانے پر بھی عالمی طاقتوں نے تھوڑے شوروغوغا کے بعد عافیت چپ سادھنے میں ہی جانی۔ اس کے علاوہ ان برسوں میں متعددمواقع پر روسی اور نیٹو کے جنگی جہازوں کا خطرناک حد تک آمناسامنا بھی ہو چکا ہے۔

ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس نے اپنے نظریات اور حکمت عملی میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ جن کی وجہ سے اب روس دوبارہ ایک سپر پاور کے طور پر نمودار ہو رہا ہے۔ روس کی موجودہ حکمت علی اور نظریات کا بغور مطالعہ کرنے پر انتہائی حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ موجودہ نظریات تقریباََہر اس چیز کے مخالف نظر آتے ہیں جس کے لئے کمیونسٹ ماضی میں لڑتے رہے ہیں۔روس کی موجودہ پالیسیوں کو زیادہ تر روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا مرحونِ منت سمجھا جاتا ہے۔ ولادی میر پیوٹن ۲۰۰۰ء سے اب تک تین بار روس کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔

موجودہ روس مارکسزم کے پرانے کمیونسٹ نظریات کو ترک کر کے نئے تبدیل شدہ نظریات کی پیروی کر رہا ہے۔ روس نے کم از کم فی الحال توسیع پسندانہ عزائم کو بھی بالائے طاق رکھا ہوا ہے۔ کرائمیا جیسے چھوٹے خطے پر قبضے کے علاوہ روس کسی بڑے ملک پر چڑھائی کرتا بھی نظر نہیں آرہا جیسا کہ وہ سرد جنگ کے زمانے میں افغانستان پرکر چکا ہے۔پرانے ملحدنظریات کی جگہ روسی آرتھوڈوکس چرچ لے رہی ہے۔سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی روسی اسلحہ عالمی طور پر امریکہ کے بعد سب سے اچھا سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ سالوں میں روسی اسلحہ اور ٹیکنالوجی امریکہ کے ہم پلہ سمجھے جا رہے ہیں۔ روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے مستقبل میں عالمی معاملات میں امریکی اجارہ داری کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اس بار امریکہ عالمی معاملات میں روس کے ساتھ مقابلہ بازی کی بجائے اجارہ داری کو شراکت داری میں تبدیل کرنے میں بہتری سمجھ رہا ہے۔

مصنف بین الاقوامی معاملات کے تجزیہ نگار ہیں۔مصنف نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔
 

Jawad Akram
About the Author: Jawad Akram Read More Articles by Jawad Akram: 15 Articles with 15937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.