پانامہ کیس کے فیصلے میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم نواز
شریف کی نا اہلی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے سب بڑے
انصاف فراہم کرنے والے ادارے سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا تو
اپوزیشن جماعتوں اور خاص کر مخالف فریقین عمران خان، شیخ رشید اور سراج
الحق کی نے خوب جشن منایا۔ پانامہ کیس کے فیصلے پر فوری عوامی رد عمل اور
حکمران جماعت (ن) لیگ کے جیالوں کی لعن طعن بعید نہیں تھی۔ فیصلے کی اصل
روح اور متن کو سمجھے بغیر فوری طور پر قانونی ماہرین، میڈیا، صحافیوں ،
سیاستدانوں ، تجزیہ نگاروں اور عام پاکستانیوں نے اپنی رائے کا اظہار کرنا
شروع کر دیا جس کا حق انہیں حاصل ہے مگر اس کا نتیجہ آگے چل کر فیصلے کی
روح کو مسخ کر دینے کا شاخسانہ ہوگا۔معروف سینئر قانون دان عاصمہ جہانگیر
نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دیا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے والے ججز کے
بنچ میں سے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ہوا ہے اور وہ خود 62,63 کی
شق پر پورا نہیں اترتے، محترمہ عاصمہ جہانگیر سے گزارش ہے کہ یہ بات آپ کو
اسی وقت کیوں نظر آئی جب نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا؟ پہلے آپ کہاں
محوِ استراحت تھیں اور قانون و آئین کی بالادستی کیلئے اس معاملے کو کیوں
نہیں اٹھایا گیا؟ لوگوں کی اکثریت کا فیصلہ کے حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ
جی فلاں بھی کرپٹ ہے، فلاں بھی ہے ، اس کو بھی پکڑیں، وہ کہاں گیا؟ مشرف،
پاشا، زرداری، رحمان ملک وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کا راگ الاپنے والوں سے بھی
مودبانہ گزارش ہے کہ عقل و فہم سے کام لیں اور ذی شعور ہونے کا ثبوت دیتے
ہوئے معاملہ فہمی کریں۔ سپریم کورٹ میں وزر اعظم کی نا اہلی کیلئے کیس دائر
کیا گیا ہے تو معزز عدالت نے اس کے گرد ہی گھومنا ہے اوراس ایک کیس جڑے
تمام حقائق، ثبوت اور بیانات کو مد نظر رکھنا ہے نا کہ کارروائی کو 1947 ء
سے شروع کرنا۔ جس کیخلاف سپریم کورٹ میں کیس جائے گا، آئین و قانون کے
مطابق اس پر فیصلہ ہوگا۔ان تمام کرپٹ لوگوں کا احتساب کروانا ہے تو انہیں
احتسابی اداروں ،نیب اور سپریم کورٹ میں لایا جائے ، جس طرح نواز شریف کو
عمران خان، شیخ رشیداور سراج الحق کٹہرے میں لائے ہیں ، دوسری جانب عمران
خان، جہانگیر ترین وغیرہ کیخلاف حنیف عباسی و دیگر کا کیس ہے جس کا فیصلہ
بھی جلد متوقع ہے۔
راقم الحروف نے پانامہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد بھی یہی کہا تھا کہ
پہلے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا جاری کردہ فیصلہ پڑھ لیا جائے بلکہ
کیا ہی بہتر ہو کہ اس کا اردو آسان ترجمہ کرکے پڑھ لیا جائے۔ پانامہ کیس کا
گزشتہ فیصلہ جس میں جے آئی ٹی کی تشکیل ہونا قرار پائی تھی اس کے بعد بھی
فیصلے کی اصل روح کو سمجھے بغیر تمام فریقین نے مٹھائیاں بانٹیں اور خوشیوں
کا اظہار کیا لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ اور پانامہ عملدرآمد کیس کا حتمی
فیصلہ آنے کے بعد مٹھائیاں بانٹنے والوں میں ہی صف ماتم بچھ گئی۔ کیس فیصلے
پر مزید رقمطراز ہونے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ اگر ان
عالمی رہنماؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے (جنہوں نے پانامہ میں اپنا نام آنے پر
اخلاقاََ استعفیٰ دیا تھا) اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاتے اور خود کو احتساب
کیلئے پیش کردیتے تو یہ عمل ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا باعث بنتا
اور عالمی سطح پر بھی ایک مثبت تاثر جاتا ۔ صرف پاکستانی وزیر اعظم (جو اب
سابق ہو چکے) ان کا نام پانامہ پیپرز میں نہیں آیا بلکہ دنیا کی کن اہم
شخصیات کے نام پاناما پیپرز کا حصہ رہے۔اپریل 2016 میں جرمن اخبار نے
پاناما پیپرزکے بارے ایک رپورٹ جاری کی جس کے بعد پوری دنیا میں پاناما
لیکس اور آف شور کمپنیز کا جن بوتل سے باہرگیا،ان پیپرز نے دنیا بھر کی کئی
اہم شخصیات کی نیندیں اڑا دی اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاسی افق پر
بڑے پیمانے پر ہلچل دیکھنے میں آئی۔ اس شائع کردہ رپورٹ میں کئی عالمی
سربراہان مملکت، معروف کھلاڑیوں اور سیاستدانوں سمیت اہم شخصیات کی آف شور
کمپنیز سامنے آئیں، جن میں پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف کے تین بچوں حسین
نواز، حسن نواز اور مریم نواز کا نام اس رپورٹ میں سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی
سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور پیپلز پارٹی
کی ہی سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹوکا نام بھی اس فہرست کا حصہ
بنا۔عالمی سربراہان میں ملائشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق، یوکرائن کے صدر
پیٹروپوروشینکو اس کے علاوہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان اور سابق امیر
قطر حماد بن خلیفہ کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں اور تو اور صدر متحدہ
عرب امارات اور ابوظہبی کے خلیفہ بن زید بھی اس دوڑ میں شامل ہیں، برطانوی
وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی اس لیکس میں نام ہونے کی وجہ سے اپنی وزارت سے
ہاتھ دھونا پڑا۔دنیا بھر کے اداکاروں میں بھارتی اداکار امیتابھ بچن اور ان
کی بہو ایشوریہ رائے بچن اور عالمی شہرت یافتہ چائنیز اداکار جیکی چن بھی
آف شور کمپنی کے مالک نکلے، کھلاڑیوں میں معروف فٹبالر لیو میسی کا نام بھی
اس فہرست میں شامل ہے۔
انہی پانامہ پیپرز میں نام آنے پر مہذب قوم کے نمائندے کا ثبوت دیتے ہوئے
آئس لینڈ کے وزیراعظم سگمندرگن لاگسن پرعوام نے پارلیمنٹ ہاؤس کاگھیراؤ
کیا۔پانچ اپریل دوہزار سولہ کو انہیں کرسی چھوڑنی پڑی۔چھ اپریل کو فیفا
کمیٹی کے رکن جوآن پیڈروعہدے سے ہاتھ دھو بیٹھے۔سات اپریل کوآسٹریا کے
علاقائی بینک کے سربراہ مائیکل گراہمرکو استعفی دیا پڑا۔نواپریل کوڈیوڈ
کیمرون کیخلاف ٹین ڈاننگ اسٹریٹ کے باہر مظاہرہ ہوااورعوام نے استعفی
کامطالبہ کیاتواس وقت کے برطانوی وزیراعظم کواپنے اوربیگم کیاثاثہ جات کی
وضاحت دینا پڑی اور بعد ازاں وہ عہدے سے محروم ہوئے۔پندرہ اپریل کواسپین کے
وزیر صنعت جوز مینویل پر پانامہ لیکس بھاری پڑیں۔انھیں وزارت ہی نہیں پارٹی
عہدے سے بھی علیحدہ ہونا پڑا۔پاناما لیکس میں نام آنے اوراپوزیشن کے دبا
ؤکے باعث یوکرینی وزیراعظم آرسنی نے دس اپریل کومستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
مالٹا کے وزیر اعظم جوزف مسکت نے اپنی اہلیہ کا نام آنے پر وزارت عظمیٰ سے
استعفیٰ دیا۔ اس کے علاوہ دیگر سربراہان مملکت اور طاقتور شخصیات کے خلاف
اپنے اپنے قوانین کے مطابق ضابطے کی کارروائی بھی جاری ہے جس کا نتیجہ جلد
ہی پوری دنیا کے سامنے آ جائے گا۔ متذکرہ بالا شخصیات کی طرح اگر میاں نواز
شریف اپنے خوشامدی درباریوں کے غلط مشوروں پر کان دھرنے کی بجائے اخلاقی
طور پر مستعفی ہو کر خود کو عوامی عدالت میں پیش کر دیتے تو آج انہیں یہ دن
نہ دیکھنا پڑتا۔
موضوع چونکہ انتہائی اہم ، حساس اور پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا
ہے اس لئے عین انصاف اور رائے قائم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے
فیصلے کا عمیق نگاہی سے مطالعہ کر لیا جائے ،ایک اور ابہام جسے دور ہونا
چاہئے وہ یہ کہ نواز شریف کی نا اہلی اب تک اصلاََ پانامہ کیس کی ضمنی
پٹیشن جو کہ شیخ رشید کی جانب سے دائر کی گئی تھی اس کی وجہ سے ہوئی ہے
یعنی وزیر اعظم کو صادق اور امین نہیں پایا گیا اس لئے نا اہل کر دیا گیا،
پانامہ کے حوالے سے مزید کارروائی کیلئے معاملہ نیب کو بھیجا گیا ہے اور
اسے سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج سپروائز کریں گے، یہ بھی یاد رہے کہ نیب اب
پہلے والا نیب نہیں بلکہ پانامہ کی تحقیقات کیلئے براہ راست سپریم کورٹ کے
فاضل جج کی نگرانی میں کام کرے گا۔
میں یہاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانامہ کیس میں پانچ فاضل ججز کے فیصلے
کا پیرا نمبر 13سے 17 تک نقل کروں گا جس کے مطابق ’’اس بات کی تردید نہیں
کی گئی ہے کہ مدعاعلیہ نمبر 1کیپٹل ایف زیڈ ای کا چیئرمین تھا اور وہ
تنخواہ کا حقدار تھا، چاہے وہ تنخواہ نکلوائی گئی یا نہیں۔ اگر وہ تنخواہ
نہیں بھی نکلوائی گئی تو بھی وہ اثاثہ ہی قرار پاتی ہے۔ چنانچہ نہ وصول کی
جانے والی تنخواہ کو بطور راثاثہ 2013 کے انتخابی کاغذات میں ظاہر کرنا
ضروری تھا۔ لیکن جب مدعاعلیہ نمبر 1 نے ایسا نہیں کیا تو اْنھوں نے کاغذات
ِ نامزدگی میں غلط بیانی سے کام لیا۔ چنانچہ وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے
سیکشن 99(1)(f) اور آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت ایماندار تصور نہیں ہوں گے۔
14۔اس موضوع کا تسلسل پیراگراف نمبر 7 سے لے کر 11 میں اس طرح کیا ہے :(i)
اس فیصلے کی تاریخ سے چھے ہفتوں کے اندر نیب جے آئی ٹی کی رپورٹ میں موجود
مواد ، اور ایف آئی اے اور نیب اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے مواد
بشمول وہ موادجو میوچل لیگل اسسٹنس کے ذریعے حاصل کیا گیا، کی بنیاد پر
راولپنڈی ، اسلام آباد کی احتساب عدالت کے سامنے ریفرنس فائل کرے گا۔ (a)
مدعاعلیہ نمبر 1 میاں محمد نواز شریف ، مدعاعلیہ نمبر 6 مریم نواز
شریف(مریم صفدر)، مدعاعلیہ نمبر 7 حسین نواز شریف، مدعاعلیہ نمبر 8 حسن
نواز شریف اور مدعاعلیہ نمبر 9 کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایون فیلڈ
جائیدادپارک لین لندن کے حوالے سے ریفرنس فائل کیا جائے گا۔ اس ریفرنس کی
تیار ی میں نیب پہلے سے دستیاب مواد کو بھی سامنے رکھے گا۔ (b) مدعاعلیہ
نمبر 8,7,1 کے خلاف عزیزیہ سٹیل مل کمپنی اور ہل میٹل اسٹبلشمنٹ کا ریفرنس
بھی فائل کیا جائے گا۔ (c) مدعاعلیہ نمبر 8,7,1 کے خلاف پیراگراف نمبر 9
میں درج کمپنیوں پر بھی ریفرنس فائل کیا جائے گا۔ (d) مدعاعلیہ نمبر 10 کے
خلاف آمدن سے زیادہ اثاثے جمع کرنے (جن کا ذکر پیرگراف 9 میں کیا گیا ہے )
پر ریفرنس فائل کیا جائے گا۔ (e) نیب شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف
مسعودقاضی، جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی کارروائی کرے گا کیونکہ
اْنھوں نے مدعاعلیہ نمبر 10,8,7,6,1 کی اثاثے بنانے میں براہ راست یا
بلواسطہ طور پر مدد کی۔ (f)نیب اضافی ریفرنس بھی فائل کرسکتا ہے اگر اور جب
ان کے دیگر اثاثہ جات کا علم ہو۔ (g)احتساب عدالت ان ریفرنس کا فیصلہ چھے
ماہ میں سنائے گی۔ (h)اگر احتساب عدالت کسی دستاویز یا معاہدے یا حلف نامے
کو جعلی ، من گھڑت یا جھوٹا پائے تو وہ اس میں ملوث افراد کے خلاف مناسب
ایکشن لے۔ 15۔ پیراگراف نمبر 13 کے تسلسل کا موضوع اس طرح ہے :(i) یہ فیصلہ
کیا جاتا ہے کہ کیپٹل ایف زیڈ ای جبل علی یواے ای سے قابل وصول تنخواہ ،جو
کہ اثاثے میں شمار ہوتی ہے ، کو 2013 کے انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں
ظاہر نہ کرتے ہوئے مدعاعلیہ نمبر 1 میاں محمد نواز شریف نے عوامی نمائندگی
ایکٹ 1976 کے سیکشن 99(1)(f) اور آرٹیکل 62(1)(f)کے تحت ایماندار نہیں رہے
، اس لیے وہ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ ) کی نمائندگی سے نااہل قرار دیے جاتے
ہیں۔ (ii) الیکشن کمیشن آف پاکستان مدعاعلیہ نمبر 1 میاں محمد نواز شریف کی
نااہلی کا نوٹی فیکشن فوری طور پر جاری کرے ، چنانچہ وہ پاکستان کے وزیر
ِاعظم نہیں رہیں گے ، اور (iii) صدر پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آئین
کے مطابق جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے تمام ضروری اقدمات اٹھائیں گے۔
16۔ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعا ہے کہ وہ اس عدالت کے کسی فاضل جج
کو اس فیصلے پر کارروائی کی نگرانی کرنے کے مقرر کریں۔ 17۔ عدالت جے آئی ٹی
اور تمام معاون سٹاف کی خدمات کو سراہتی ہے جنہوں نے اتنی مفصل رپورٹ تیار
کی۔ ان کی ملازمت کا تحفظ کیا جائے گااور اْنہیں ہر قسم کے دباؤ سے بچایا
جائے گا۔ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کے نامزد کردہ جج صاحب کو علم میں لائے
بغیر ان کی پوسٹنگ یا ٹرانسفر نہیں کی جائے گی۔ 18۔ ہم فاضل وکلا کی سعی کو
بھی سراہتے ہیں جنہوں نے عدالت کی راہنمائی کی‘‘۔
پانامہ کیس کے فیصلہ پیرا نمبر 13 کے مطابق نواز شریف کیپیٹل ایف زیڈ ای
نامی کمپنی کے چیئرمین ہوتے ہوئے تنخواہ لینے کے حقدار تھے چاہے وہ تنخواہ
لی گئی یا نہیں لی گئی، یعنی وہ آمدہ اثاثہ جات میں لازمی شامل ہوتی ہے اور
اس کا 2013 ء کے انتخابی کاغذات میں ظاہر کیا جانا بھی لازمی تھا۔ وہ
تنخواہ انتخابی کاغذات میں ظاہر نہیں کی گئی جس کی وجہ سے نواز شریف جھوٹے
اور غیر امانت دار ثابت ہو گئے اور وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے سیکشن
99(1)(f) اور آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت ایماندار تصور نہیں ہوں گے۔ یہ وہ
نکتہ تھا جس کی بنیاد پر نواز شریف کو نا اہل کیا گیا ۔ بہت سے لوگ یہ سوال
اٹھا رہے ہیں کہ اصل معاملہ ’’پانامہ پیپرز‘‘ جوں کا توں رہا اور ایک نئی
اور بہت چھوٹی سی چیز پر نواز شریف کو نا اہل کر دیا گیا یہ زیادتی ہے جبکہ
حقیقت اس کے بر عکس ہے، پانامہ معاملہ جوں کا توں نہیں بلکہ مزید آگے بڑھ
گیا ہے جبکہ نا اہلی جھوٹ اور غیر امانت داری پر ہوئی۔ معاملہ یہیں ختم
نہیں ہوا اگر پانامہ کی نیب میں مزید تحقیقات کے بعد نواز شریف مجرم ثابت
ہو جاتے ہیں تو وہ سزاوار ٹہریں گے ۔ یعنی نواز شریف ابھی صرف نا اہل ہوئے
، آگے جیل بھی جا سکتے ہیں۔
قوم کے منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کروانے میں سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو
دھمکیاں دینے والے نواز شریف کے ہمنوا و قریبی ساتھیوں کا بھرپور کردار ہے
اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر سطح پر نواز شریف کو مزاحمت کا مشورہ دیتے رہے
ہیں۔ پانامہ کیس کے فیصلے کی صورت میں نواز شریف کی نا اہلی پر ہی اس بے
رحمانہ احتساب کا اختتام نہیں ہونا بلکہ اگلا نمبر پی ٹی آئی چیئرمین عمران
خان ، جہانگیر ترین، زرداری و رحمان ملک سمیت دیگر کا ہے، بلکہ عمران خان
بھی اپنے کیس میں نا اہل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ان کے بعد تحریک انصاف
کی قیادت اسد عمر سنبھالیں گے۔ اس احتسابی عمل کو خوش آمدید کہتے ہوئے کھلے
دل سے تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نواز شریف کی نا
اہلی کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پرماضی کی طرح ایک بار پھر عدالت
عظمیٰ کے معزز ججز کے خلاف ایک ہوا چل پڑی ہیں جس میں انہیں گالیوں سمیت
غدار اور یہودی ایجنٹ کے القاب سے نواز جا رہا ہے ۔ (ن) لیگ محاذ آرائی کی
سیاست کو ہوا دے رہی اور اس کا ایک ثبوت خواجہ سعد رفیق کی گزشتہ روز کی
پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئینی و قانونی
اصول و ضوابط کی پامالی قرار دیا ہے۔ گویا پاکستان کا سب سے بڑا انصاف
فراہم کرنے والا ادارہ ہی آئین و قانون کو پامال کر رہا ہے؟ یہ وہی سعد
رفیق ہیں جو انہی ججز کے گزشتہ جے آئی ٹی کے قیام والے فیصلے پر مٹھائیاں
کھاتے پھر رہے تھے۔ اب فیصلہ بر عکس آنے پر وہی فاضل جج صاحبان یہودی
ایجنٹ، سازش میں شامل، غدار اور نجانے کیا کیا ہو گئے۔سپریم کورٹ پر یہاں
تک بھی الزام عائد کر دیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سے ملے
ہوئے ہیں اور وہی فیصلہ سناتے ہیں یاکرتے ہیں جو عمران خان کہتے ہیں۔ گویا
ایک ایسا شخص جو کبھی اقتدار میں نہیں آیا وہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ
کے ایک ساتھ5 ججز کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے؟ جبکہ ججز کو خریدنے کا ماضی
موجودہ حکمران جماعت کا رہا ہے۔ جسٹس (ر)ملک قیوم کا معاملہ پوری قوم کے
سامنے ہے اور یہ موصوف جج ان دو ججز میں سے ایک ہیں جن کا نام پانامہ پیپرز
میں شامل ہے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا موقف احتساب کے حوالے سے واضح ہے اور میں یہ
سمجھتا ہوں کہ نواز شریف
کی نا اہلی ایک ابتدا ہے جس کے بعد تمام کرپٹ اور جھوٹے ، غیر امانت دار
سیاستدانوں ، ججز، بیوروکریٹس، صحافیوں، جرنیلوں کا نمبر آنے والا ہے۔ نواز
شریف کے قریبی عزیز اسحاق ڈار کی طرح عمران خان اور ان کی ’’اے ٹی ایم ‘‘
مشینیں، زرداری اور ان کے ’’انویسٹرز‘‘ اور دیگر کرپٹ لوگ بھی الزام ثابت
ہونے پر نشان عبرت بن جائیں گے۔ خوش آئند بات یہ کہ (ن) لیگ کی جانب سے
سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور (ن) لیگ کے
اس اقدام کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ بحیثیت ووٹرز (ن) لیگی سپورٹرز کی
جذباتی طور پر ناراضی اگرچہ سمجھ میں آتی ہے لیکن بلا جواز تنقید برائے
تنقید اور گالم گلوچ و فاضل جج صاحبان کو غدار یا یہودی ایجنٹ قرار دینا
سمجھ سے سے بالاتر ہے۔ اس حوالے سے لیگی کارکنوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔
کارکنوں کی تربیت کا فقدان (ن) لیگ اور تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت
میں ہے لیکن حالات کے تناظر میں تحریکی و لیگی کارکنان کا تصادم توجہ کا
مرکز بنا ہوا ہے ، اوئے توئے کی سیاست سے اجتناب کیا جانا چاہئے اور ملک و
قوم کو آگے بڑھانے اور بے رحمانہ احتسابی عمل کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک
پہنچانے کیلئے ہمیں اپنے انفرادی سیاسی، مالی و معاشی مفادات سے مبرا ہونا
ہوگا ۔ اﷲ رب العزت سے ملک و قوم کی بہتری ، قومی سلامتی ، پاکستان کی ترقی
اور صحیح فیصلے کرنے کی توفیق کے ساتھ انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے ذمہ
داران کی جان و مال کی سلامتی کی دعا ہے۔ وقت ثابت کر دے گا کہ سپریم کورٹ
کا مذکورہ فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جو پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
آخر میں ایک شعر کہ
صبح کے تخت نشیں، شام کو مجرم ٹھہرے!!
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا |