کوئی غم وغصے سے بے حال ہے، تو کوئی خوشی سے نہال۔
بہت سے پریشان ہیں، کہ اب کیا ہوگا؟ بہت سے خوش ہیں کہ کوئی کام تو شروع
ہوا۔ زیرعتاب آنے والے احتساب سے مطمئن نہیں، فیصلہ غلط ہے، دوسرے کہتے ہیں
کہ فیصلہ درست ہے۔ ہر کسی کے اپنے دلائل ہیں، ہر کوئی اپنے جذبات رکھتا ہے۔
مگر عدم برداشت والا معاملہ سب سے پریشان کن ہے، ہر مخالف دوسرے کو مار ہی
دینا چاہتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گلیاں ویران ہوں اور ان میں صرف مرزا یار
ہی پھراکرے، مگر ایسی خواہشیں کہاں پوری ہوا کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن بلا شبہ
ایک بڑے صدمے سے دو چار ہے، جس فرد کے نام پر پارٹی ہے وہ نااہل ہوچکا۔ وہ
اکیلا کیا اس کا ذاتی خاندان بھی گیا، بھائی بند بچ گئے، اب وہ تخت
سنبھالیں گے۔ اگرچہ معاملہ کسی حد تک گھر میں ہی رہ جائے گا، تاہم ایک
بااختیار اور مقبول وزیر اعظم اور پارٹی قائد کو اب سرکاری پروٹوکول دستیاب
نہیں ہوگا، وہ سرکاری طور پر غیر ملکی دورے بھی نہیں کرسکیں گے۔ یہ الگ بات
ہے کہ ملک کے اندر چونکہ ابھی انہی کی پارٹی کی حکومت ہے، اس لئے یہ
پروٹوکول وغیرہ کا ایشو ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، برادرِ خورد حکم
جاری کردیں گے۔ فیصلہ غلط ہے یا درست، کہا جارہا ہے کہ اس فیصلے کا فیصلہ
تاریخ کرے گی۔ تاہم یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں، کہ فیصلہ غلط ہے، اسے
تسلیم کرنے سے بھی انکار ہے، مگر اس پر عملدرآمد کردیا گیا ہے۔ اب ایک
ہنگامہ ضرور برپا رہے گا، کیونکہ قومی الیکشن کو بھی زیادہ دیر نہیں۔
ایسے فیصلوں کے موقع پر مخالفین کو بھی حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے،
یہ ستم اپنے ہاں عام الیکشن میں بھی کارفرما رہتا ہے، کہ الیکشن میں
کامیابی حاصل کرنے والے صاحب فوری طور پر ایک ریلی کا اہتمام کرتے ہیں، اور
اپنے حلقے میں چکر لگاتے ہیں۔ مخالف کے گھر کے باہر جا کر نعرہ بازی بھی کر
دی جاتی ہے۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہارنے والے کا دل شکست کی وجہ سے
کتنا دکھی ہوگا، حتیٰ کہ ہار جانے کی کسی حد تک بے عزتی کا بھی بہت احساس
ہوتا ہے۔ ایسے میں اس کے دل پر مرہم رکھنے کی بجائے اسے مزید خراب اور
پریشان کرنا بے حسی کی علامت ہی ہے۔ اب اگر میاں نواز شریف کو الیکشن وغیرہ
کے لئے نااہل قرار دیا گیا ہے، تو مخالفین کو جشن منانے کی بجائے غور وفکر
کرنا چاہیے تھا، کہ آج اگر عدالت نے ان کو نااہل کیا ہے، تو کوئی وقت ایسا
بھی آسکتا ہے، جب یہی عدالت کسی اور کے بارے میں اسی قسم کا فیصلہ صادر
کردے۔ بے حسی کی ان روایات کا مستقل خاتمہ ہونا ضروری ہے، جو اہل نہیں رہے،
وہ اب اپنی منصوبہ بندی کریں گے، حکومت ابھی انہی کی ہے، آنے والے وقت میں
عوام کیا فیصلہ کریں گے کوئی نہیں جانتا۔ اگر عوام نے تاج پھر انہی کے سر
پر سجا دیا، تو جشن منانے والوں کے پلے کیا رہے گا؟
ایک بہت بڑا مسئلہ غرور بھی ہے، عوام چونکہ اپنے لیڈروں پر جان چھڑکتے ہیں،
ان کا واسطہ کم پڑتا ہے، مگر جن لوگوں سے اُن کا رابطہ وغیرہ ہوتا ہے، یا
جو پارٹی کے عہدیداران ہیں، انہیں بہت سی باتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بعض
اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ مقامی لیڈر کسی مصلحت کی بنا پر اپنے قائدین
سے چمٹے رہتے ہیں، کیونکہ انہیں الیکشن میں ٹکٹ کی ضرورت ہوتی ہے، مقبول
پارٹی کی ٹکٹ کے لئے کچھ پیسہ یا تھوڑی بہت بے عزتی کوئی معانی نہیں رکھتی۔
میاں نواز شریف (حتیٰ کہ میاں شہباز شریف ) پر یہ الزامات عام ہیں کہ وہ
اپنے مقامی قائدین کی بات نہیں سنتے، ان کا رویہ مناسب نہیں ہوتا۔ مگر جب
حکومت کسی بحران وغیرہ سے دو چار ہوتی ہے، تو پھر پارٹی ارکان سے ملاقاتیں
بھی ہو جاتی ہیں، اسمبلیوں کے اجلاس میں حاضری بھی ممکن ہو جاتی ہے۔ عمران
خان کے بارے میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ بھی سیدھے منہ بات نہیں سنتے۔
بہرحال دونوں پارٹیاں عوام میں مقبول ہیں،ا ب دیکھیں آنے والے الیکشن میں
عوام کی ترازو کا پلڑا کس کی طرف جھکتا ہے؟ اس عدالتی فیصلے کے بعد رائے
عامہ اس بارے میں یکسو ہے ، کہ حکومت کرنے والوں میں اب کوئی بھی خائن یا
جھوٹا یا کمزور کردار والا آگے نہیں آنا چاہیے۔ تو کیوں نہ بے رحم احتساب
کا سلسلہ جاری رکھا جائے، اس کی زد میں کوئی بھی آئے، سب برداشت کریں،مگر
یہ کام رکنا نہیں چاہیے۔ |