داتا اللہ ہے - ٢

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ آرٹیکل اس کا جواب ہے جو میرے آرٹیکل کے جواب میں لکھا گیا ہے۔ جناب بابر صاحب حد ہو گئی آپ کے جذبات کی؛ آپ کی مخالفت کی؛ آپ کے طعنوں کی؛ آپ کی گستاخیوں کی؛ آپ کے زہر آلود واروں کی؛ آپ کی حماقت کی؛ آپ کی جہالت کی؛ آپ کی لاعلمی کی۔۔۔۔۔ جناب۔۔۔ آپ کا پہلا سوال آپ نے خود ہی کیا اور خود ہی جواب دے دیا۔ آپ کا دوسرا سوال۔۔۔ مخلوق کو سب کچھ دینے والی ذات اللہ کی ہے یا اس داتا کی جو مر کر قبر میں جا چکا۔ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔۔۔الخ۔۔

جواب: جناب۔۔۔ بالکل برحق ہے۔۔۔ مخلوق کو سب کچھ دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے بلاشبہ، کوئی شک نہیں۔ اس کے سوا کوئی بھی ذات کچھ بھی عطا نہیں کر سکتی مگر اللہ کی عطا سے۔ بیشک بیٹے اللہ عطا فرماتا ہے بیٹیاں اللہ عطا فرماتا ہے کسی کو بیٹے اور کسی کو بیٹیاں اللہ ہی عطا فرماتا ہے اور کسی کو اولاد نہیں بھی دیتا۔ بلاشبہ یہ برحق ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت مریم علیھا السلام کے پاس آئے اور فرمایا: میں تمہیں ایک بیٹا دینے آیا ہوں۔ لاھب لک غلما زکیا۔۔۔ سورہ مریم: آیت نمبر ١٩

حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ کیوں کہا، کہ میں تمہیں بیٹا دینے آیا ہوں؟ یہ کیوں نہ کہا کہ اللہ نے تمہیں بیٹا عطا فرمانا ہے جیسا کہ دوسری آیات میں مذکور ہے۔ آپ کوئی بھی جواب دیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نےایک دفعہ بھی یہ کیوں کہا کہ میں بیٹا دینے آیا ہوں؟ اور اللہ تعالٰی نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو کیوں نہ پکڑا؟ بلکہ قرآن میں ذکر کر دیا پھر بھی یہ نہیں کہا کہ یہاں جبرائیل نے اپنی طرف نسبت کی ہے جو کہ کرنی نہیں چاہئے تھی۔

صاف ظاہر ہے کہ اللہ نے حضرت جبرائیل کو بیٹا عطا کر کے بھیجا اور حضرت جبرائیل اللہ ہی کی عطا سے حضرت مریم علیھا السلام کو بیٹا ھبہ کرنے آئے۔ معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر دینے والی ذات اللہ ہی کی ذات ہے اور مخلوق میں سے اگر کوئی کچھ عطا کرتا ہے تو وہ اللہ ہی کی عطا سے دیتا ہے۔ اس کی عطا کے بغیر کوئی بندہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ سب اللہ کے محتاج ہیں۔

قارئینِ کرام: آپ کوئی چیز لکھتے ہیں دوسرا آدمی آ کر اس کو دیکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ بھائی کتنا پیارا لکھا ہے کتنی خوبصورت تحریر ہے آپ جی ہی جی میں خوش ہوں گے۔ ذرا غور فرمائیں تعریف تو لکھے ہوئے کی ہو رہی ہے آپ خوش کیوں ہو رہے ہیں؟

ایک آدمی ایک چیز بناتا ہے بڑے اطمینان سے تیار کرتا ہے اس چیز میں جتنی خوبیاں ہوں گی اتنا ہی زیادہ بنانے والے کے کمالات کو ظاہر کریں گی۔ آپ دیکھیں ہمارے بڑے اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبیاں تلاش کرتے ہیں اور وہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں خامیاں ڈھونڈتے ہیں۔ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں خوبیاں بتانے سے کون سی توحید میں دراڑیں پڑتی ہیں یا کون سے توحید کے قلعے گرجاتے ہیں؟ بلکہ توحید تو اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ جس خدا کے بنائے ہوئے بندے اتنی خوبیوں اور کمالات کے مالک ہیں تواس خدا کی خوبیوں اور کمالات کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟

قارئینِ کرام: اللہ تعالٰی تو اپنے بندوں کے کئے ہوئے کاموں کوبھی اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت مریم علیھا السلام کے ساتھ گفتگو فرمانے کے بعد آپ کے گریبان میں پھونکا۔ اللہ نے فرمایا: فنفخنا فیہ (ہم نے مریم کے گریبان میں پھونکا) سورہ: تحریم، آیت نمبر: ١٢

اسی طرح اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو بھی اپنی طرف منسوب کیا۔
وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی۔۔۔۔۔سورہ: الانفال، آیت نمبر: ١٧
ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ۔۔۔۔ سورہ: الفتح، آیت نمبر: ١٠

بابر صاحب اب آئیے اسی سوال کی طرف جس کا میں جواب دے رہا تھا۔ آپ نے اسی سوال میں کہا “وہ داتا جو مر کر قبر میں جا چکا وہ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا“ بھئی ہمارے تو زندہ ہیں۔ اور ہمارے تو ماں باپ بھی قبر میں زندہ ھوتے ہیں اور ہفتہ بھر کے ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ اچھے اعمال دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر برے اعمال ہوں تو ان سے سوال ہوتا ہے کہ کیا تم دنیا میں اپنی اولاد کی یہ تربیت کر کے آئے ہو؟ جب ہمارے ماں باپ قبر میں زندہ ہیں تو ہمارے پیر و مرشد کیوں نہ زندہ ہوں گے؟

میت کو دفنانے کے بعد جب لوگ واپس پلٹتے ہیں تو قبر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اس کو اٹھاتے ہیں روح بدن میں واپس لوٹا دی جاتی ہے اور وہ فرشتے اس سے تین سوال کرتے ہیں جب مومن صحیح جواب دے دیتا ہے پھر وہ کہتے ہیں کہ سو جا جیسے پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔ اب دوبارہ موت کہاں پر ہے؟

ہر مرنے والا قبر میں زندہ ہے دوسرے لفظوں میں سمجھا دوں کہ روح کا اپنے بدن کے ساتھ تعلق ہوتا ہے جنابِ والا! غور کریں سورج مشرق سے نکلتا ہے مغرب میں غروب ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم علیہ الصلوہ السلام نے اپنے صحابہ سے پوچھا کہ بتاؤ سورج غروب ہونے کے بعد کہاں جاتا ہے؟ تو صحابہ نے عرض کی اللہ ورسولہ اعلم ۔ آپ نے فرمایا کہ سورج اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتا ہے اور مشرق سے نکلنے کی اجازت مانگتا ہے۔ اللہ اسے اجازت دیتا ہے وہ مشرق سے نکل آتا ہے۔ ایک دن اس کو اجازت نہیں ملے گی بلکہ کہا جائے گا کہ وہیں پہ لوٹ جا جدھر سے آیا ہے۔ تو وہ مغرب سے طلوع ہو جائے گا۔

آپ جانتے ہیں کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں پر رات ہوتی ہے لیکن دوسرے علاقوں میں سورج نکلا ہوتا ہے۔ پاکستان کے لحاظ سے کسی ملک میں چھے گھنٹے پہلے سورج ہوتا ہے اور کسی ملک میں چھے گھنٹے بعد ہوتا ہے۔ اور ایک علاقہ تو ایسا ہے جہاں پر چھے ماہ کا دن ہوتا ہے اور چھے ماہ کی رات۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سورج تو چوبیس گھنٹے کہیں نہ کہیں نکلا ہوا ہے وہ غروب کب ہوا اور اللہ کی بارگاہ میں کب گیا؟ عرش معلٰی کے نیچے کب پہنچا اور سجدہ ریز کب ھوا اور اجازت کب مانگی؟ اور حدیث شریف یقیناً سچی ہے۔ محدثین فرماتے ہیں کہ ایک ہے سورج کا جسم اور ایک ہے اس کی روح۔ اس کی روح ہر لمحہ، ہر آن اللہ کی بارگاہ میں عرشِ معلٰی کے نیچے سجدہ ریز ہے اور اللہ سے اجازت مانگتی رہتی ہے اور اللہ تعالٰی اسے اجازت دیتا ہے۔ اب غور فرمائیں اسلامی نقطہ نظر سے سورج پہلے آسمان سے نیچے ہے اور عرشِ معلٰی ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے اور ایک آسمان کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ہر آسمان کے درمیان مسافت بھی پانچ سو سال ہے۔ سورج کی روح ساتوں آسمانوں کے اوپر سجدہ ریز ہونے کے باوجود اپنے جسم کو کنٹرول کیے ہوئے ہےاور اس کو اپنے مرکز کے درمیان حرکت میں رکھے ہوئے ہے۔ جب سورج کی روح اپنے بدن کو اتنی مسافت سے کنٹرول کر سکتی ہے تو ایک انسان جو اشرف المخلوقات ہے اسکی روح کا تعلق اس کے بدن کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتا؟

دوسری بات سمجھنے والی یہ بھی ہے اگر روح کا تعلق جسم کے ساتھ نہ ہو تو بری حرکتوں کی وجہ سے جو قبر میں عذاب ملتا ہے وہ صرف بدن کو ہو گا اور وہ روح عیش میں ہو اس کو کوئی عذاب نہ ہو۔

بابر صاحب آپ نے کہا “کہ کہنے والا کہے گا کہ وہ ہمارے سفارشی ہیں اور یہ عقیدہ بت پرستوں کا ہے۔ وہ بتوں کو اللہ کے دربار میں اپنا سفارشی سمجھتے ہیں۔“ اس پر محترم حافظ جمیل صاحب بڑی وضاحت کے ساتھ لکھ چکے ہیں لیکن آپ کی کھوپڑی میں نہیں بیٹھتا۔ بہر حال میں آپ تشفی کیلئے پھر عرض کیے دیتا ہوں جناب وہ بتوں کو سفارشی سمجھتے تھے اللہ کی طرح مستقل خدا اور معبود مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے اللہ بڑا خدا ہے اور یہ چھوٹے خدا ہیں۔ ہم ان کو سفارشی سمجھتے ہیں اس حیثیت سے نہیں کہ وہ خدا یا معبود ہیں۔ ہم تو نبی پاک کی عبادت نہیں کرتے اولیا کی کس طرح کریں گے؟ کیا آپ نے نہیں پڑھا: من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ۔۔۔۔ہمارا یہ بھی ایمان ہے اللہ چاہے گا تو یہ ہماری سفارش کریں گے ورنہ نہیں کر سکتے۔

بابر صاحب آپ کا اگلا اعتراض کہ “ہم اللہ کی صفات کا تقابل مخلوق کی صفات سے کرنے کی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں“ جناب آپ کی غلط فہمی ہے کہ ہم اللہ کی صفات کا تقابل مخلوق کی صفات سے کرتے ہیں۔ جناب آپ لاعلمی اور جہالت کا شکار ہیں۔

آپ نے آخر میں رحیم اور الرحیم کی بات کی۔ جناب آپ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے محبوب کو رحیم کہا مگر وہ خود الرحیم ہے مجھے تو آپ کی اس بات پر حماقت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ قرآن پاک کھولیں جگہ جگہ پر اللہ نے اپنے آپ کو رحیم فرمایا ہے۔ بغیر ‘الف لام‘ کے۔ اسی طرح آپ کو اور بھی اسمائے حسنٰی نظر آئیں گےجن پر ‘الف لام‘ نہیں ہے۔ جیسے سمیع، علیم، غفور وغیرہ۔۔۔۔ اب آپ نے اس بحث کر چھیڑ ہی دیا ہے تو میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچاناچاہتا ہوں۔ آپ سے چند سوالات ہیں۔
١۔ رحیم اور الرحیم نحو کی گرامر میں کونسے الفاظ ہیں؟
٢۔ الرحیم پر ‘الف لام‘ کونسا ہے؟
٣۔ اللہ کے اسمائی حسنٰی پر ‘الف لام‘ کیوں آتا ہے؟
آپ کے جواب کا منتظر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم ورسولہ بالصواب
Muhammad Muddasir
About the Author: Muhammad Muddasir Read More Articles by Muhammad Muddasir: 3 Articles with 13555 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.