پانچواں باب: دو سہیلیاں
ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں کھڑ ے تھے ۔ بچوں سے متعلق ناعمہ کا سوال
میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’میں اپنے ان دونوں بچو ں سے ملنا چاہتا ہوں جو یہاں موجود ہیں ۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ تم ذہنی طور پر ان دونوں سے ان کے برے حال میں ملنے کے
لیے تیار ہو چکے ہو۔‘‘
’’ہاں شاید میں پہلے خود میں یہ حوصلہ نہیں پا رہا تھا۔ میرے لیے تو اپنے
استاد کا صدمہ بہت تھا۔ پھر اپنی بہو ھما کو اس حال میں دیکھ کر میرے اوسان
خطا ہوگئے ۔ مگر اب مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ ناگزیر کا سامنا کرنے کا وقت
آ گیا ہے ۔‘‘
’’ہاں ابھی حشر کا دن ہے ۔ یہ صرف جنت میں جانے کے بعد ہی ہو گا کہ انسان
کے لیے ہر صدمہ اور ہرخوف و حزن ختم ہوجائے گا۔‘‘، صالح نے مجھ پر طاری
ہونے والے غم کی توجیہ کی۔
’’یہی تعبیر قرآن پاک میں جنت کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔ وہ جگہ جہاں ماضی
کا کوئی پچھتاوہ ہے اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔‘‘، میں نے اس کی تائید
میں قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا۔ جواب میں صالح نے ایک اور بہت اہم
بات کو واضح کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں جنت ایسی ہی جگہ ہے ۔ حساب جب شروع ہو گا تو جنت و جہنم کو قریب لے
آیا جائے گا۔ ہر شخص کی جنت یا جہنم کا جب فیصلہ ہو گا تو اسی وقت اس کو یہ
بھی بتادیا جائے گا کہ اسے کیا نہیں ملا۔ یعنی اسے کس عذاب سے بچالیا گیا
یا کس نعمت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘، میری آنکھوں میں تفصیل جاننے کی خواہش تھی۔
’’مطلب یہ کہ ایک شخص کے بارے میں اگر جنت کا فیصلہ ہوا تو اسی وقت اسے یہ
بھی بتایا جائے گا کہ جہنم میں اس شخص کا ممکنہ ٹھکانہ کیا تھا، جس سے اسے
بچالیا گیا ہے ۔ اسی طرح فیصلہ اگر جہنم کا ہوا تو اس مجرم کو یہ بھی
بتادیا جائے گا کہ جنت میں اس کا ممکنہ طور پر کیا مقام محفوظ تھا جو اس نے
اپنی بداعمالیوں سے ضائع کر دیا۔‘‘
’’یہ تو خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑ ا عذاب ہو گا۔‘‘
’’ہاں اہل جنت کے لیے سب سے بڑ ی اور پہلی خوشی اس جہنم سے بچنا ہو گی اور
اہل جہنم کے لیے سب سے پہلا عذاب یہ پچھتاوہ کہ کس اعلیٰ نعمت اور عظیم
درجے سے وہ ابدی طور پر محروم ہو چکے ہیں ۔ تمھیں کچھ دیر قبل بیان کردہ
میری یہ بات یاد ہو گی کہ جس انسان نے روز ازل اپنے لیے جنت میں ترقی کا
جتنا بڑ ا امکان چاہا، اس نے جہنم کے بھی اتنے ہی زیادہ پست مقام کا خطرہ
مول لے لیا تھا۔ سو آج اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنت میں اعلیٰ مقام ملنے
کی مسرت کے ہمراہ جہنم میں سخت ترین عذاب سے بچنے کی نوید بھی ملے گی اور
جہنم میں پست ترین مقام کی مصیبت کے ساتھ جنت کے اعلیٰ ترین درجات سے
محرومی کی حسرت بھی اسی تناسب سے زیادہ ہو گی۔‘‘
’’میرے خدایا! ‘‘، میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
ہم یہ گفتگو کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ چلتے جا رہے تھے ۔ حشر کے احوال
ابھی تک وہی تھے یا شاید کچھ سخت تر ہو چکے تھے ۔ وہی رونا پیٹنا۔ وہی
پریشانی و بدحالی۔ وہی حسرت و ندامت۔ وہی اضطراب و بے چینی۔ وہی حزن و
مایوسی۔ ہر چہرے پر سوال تھا، مگر جواب کہیں نہیں تھا۔ ہر چہرے پر اضمحلال
تھا، مگر سکون کہیں نہیں تھا۔ میں نے دل میں سوچا پتہ نہیں میری بیٹی اور
بیٹے پر کیا بیت رہی ہو گی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اسی میدان میں ایک جگہ دو لڑ کیاں پتھریلی زمین پر بے یار و مددگار بیٹھی
ہوئی تھیں ۔ دونوں کی آنکھیں بری طرح سوج رہی تھیں ۔ صاف لگ رہا تھا کہ
روتے روتے ان کی یہ حالت ہو چکی ہے ۔ نڈھال جسم، پریشان چہرہ اور پژمردہ
آنکھیں ۔ ان کے دکھ کی کہانی ان کے چہرے پر دور سے پڑھی جا سکتی تھی۔ ان
میں سے ایک زیادہ بدحال لڑکی دوسری سے کہنے لگی: ’’لیلیٰ! مجھے یقین نہیں آ
رہا کہ یہ سب کچھ سچ ہے ۔ انسان موت کے بعد دوبارہ اس طرح زندہ ہو سکتے ہیں
۔ دنیا کی زندگی کے بعد ایک نئی دنیا شروع ہو سکتی ہے ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ مجھے
یقین نہیں آتا۔ کاش یہ ایک بھیانک خواب ہو۔ کاش میری آنکھ کھلے اور میں
اپنے ٹھنڈے ائیر کنڈیشنڈ بیڈ روم کے نرم و نازک بستر پر لیٹی ہوئی ہوں ۔
اور پھر کالج آ کر میں تمھیں بتاؤں کہ میں نے آج ایک بہت بھیانک خواب دیکھا
ہے ۔ ۔ ۔ کاش یہ خواب ہو۔ کاش یہ خواب ہو۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وہ بلک بلک کر رونے لگی۔
لیلیٰ نے روتی ہوئی عاصمہ سے کہا: ’’یقین کرنے نہ کرنے سے اب کیا فرق پڑ تا
ہے ۔ یہ خواب نہیں حقیقت ہے ۔ خواب تو وہ تھا جو ہم پچھلی دنیا میں دیکھ
رہے تھے ۔ آنکھ تو اب کھلی ہے عاصمہ! آنکھ تو اب کھلی ہے ۔ مگر اب آنکھ
کھلنے کا کیا فائدہ؟‘‘
کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر لیلیٰ حسرت کے ساتھ عاصمہ سے بولی:
’’کاش میری تم سے دوستی نہ ہوتی! کاش میں تمھارے راستے پر نہ چلتی!‘‘
’’ہاں ۔ ۔ ۔ کاش میں تمھارے راستے پر چلتی تو ہم دونوں کا یہ حال نہ ہوتا۔
پتہ نہیں اب آگے کیا ہو گا۔‘‘، عاصمہ کا لہجہ بھی افسردہ تھا۔
خاموشی کے ایک وقفے کے بعد عاصمہ نے لیلیٰ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’لیلیٰ یہ تو بتاؤ دنیا میں ہم کتنے دن رہے تھے ۔‘‘
’’پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ایک دن۔ ۔ ۔ یا دس دن۔ یا شاید بس ایک پہر۔ اس وقت تو یوں
لگتا تھا کہ زندگی کبھی ختم نہ ہو گی۔ مگر اب تو سب کچھ بس ایک خواب لگتا
ہے ۔‘‘
’’مجھے تو اب اس خواب کی کوئی جھلک بھی یاد نہیں آ رہی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے عاصمہ ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئی۔ شاید وہ ماضی کے ورق الٹ
کر کوئی ایسا پہر ڈھونڈ رہی تھی جس کی یاد آج تسلی کا کچھ سہارا بن جاتی۔
مگر اس کی یاداشت میں کوئی ایسا پہر نہیں آیا۔ جو کچھ یاد آیا وہ خود ایک
فرد قراردادِ جرم کی حیثیت رکھتا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٓاپ سے التجا ہے کہ اس مضمون کو آگے ضرور
پھیلائیں۔۔۔۔۔۔ |