عبید اللہ سندھی کے شاگرد پرو فیسر سرور لکھتے ہیں
’’مولانا وحدت انسانی کیا کل کائنات کی وحدت کے قائل ہیں لیکن جس طرح
کائنات کی کثرت صاحب نظر کو پریشان نہیں کرتی اور وہ جانتا ہے کہ ان سب
مختلف شکلوں میں ایک ہی جلوہ عکس ریز ہے۔اسی طرح مولانا کو انسانوں کا
،قوموں گروہوں اور افراد میں بٹا ہونا وحدت انسانیت کے منافی نظر نہیں
آتا،وہ اس تقسیم کو مٹانا غیر فطری سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے ہ یہ کبھی
ہو ہی نہیں سکتا فرد ایک مسقل اکائی ہے جماعت ایک اکائی ہے جو افراد پر
مشتمل ہے اس طرح ایک قوم اپنی جگہ مسقل وجود رکھتی ہے اور انسانیت سب قوموں
کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے ۔فرد کا صالح ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ
جماعت کا اچھا جزو ہو،اچھی جماعت وہ ہے جو قوم سے تضاد نہیں ائتلاف رکھتی
ہو اور اچھی قوم اسے کہیں گے جو کل انسانیت کے لئے جزو صالح کا حکم رکھتی
ہو انفرادیت ان معنوں میں کہ ہر فرد ہر جماعت اور ہر قوم دوسرے
سے برسر نزاع ہو اور کل مل کر ایک مجموعی انسانیت نہ بن سکیں غلط اور مردود
ہے۔‘‘(16)
مولانا عبیداللہ سندھی کے سیاسی افکار ونظریات کی اساس نظریہ اجتماعیت
ہے۔وہ انسانی معاشرے کے اجتماعی مفاد کے لئے معاشرے میں ایک ہمہ گیر تبدیلی
کو ضروری سمجھتے ہیں ۔وہ معاشرے کو اجتماعی نقطہ نظر سے دیکھتے اور تجزیہ
کرتے ہیں اور خاص طور پر ان نظریاتی محرکات مثلاً تاریخ،اور انقلابی فلسفہ
کو اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔آپ کے سیاسی نظریات
کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب کبھی معاشرے کی اجتماعیت کو
نقصان پہنچتا ہے تو اس میں بسنے والے انسان زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتے
ہیں انسانی اجتماعیت کی اسا س خود انسان ہے اور انسانی فطری اور طبعی
تقاضوں کی تکمیل کا عمل اجتماعیت کو مضبوط اور ترقی یافتہ بناتا ہے ۔اگر
انسانی اجتماع کے تما م ادارے بحیثیت مجموعی زوال کا شکار ہو گئے ہوں تو اس
وقت انفرادی عمل معاشرے کو بچا نہیں سکتا اس وقت ضروری ہے کہ اجتماعی جدو
جہد کی جائے ۔فقط اپنی ذات اور انفرادیت کی تکمیل کی بجائے تعاون باہمی کے
اصول پر کل معاشرے کی فلاح کے لئے کمر بستہ ہونا ضروری ہے۔مولانا سندھی یہی
چاہتے تھے وہ انفرادیت کے انکاری نہیں تھے لیکن وہ ایک صالح اجتماعیت کو
اجتماعی تبدیلی کے لئے ضروری قرار دیتے تھے ۔
ایک زوال شدہ سوسائٹی کی کیفیت کیا ہوتی ہے،اگر جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوتا
ہے کہ سماج کے بنیادی ادارے ،یا شعبہ جات ،جس میں معیشت،سیاست،اور عدلیہ
اپنے حقیقی کردار کھو بیٹھیں۔جس کا نتیجہ معاشرے میں یہ سامنے آئے کہ معاشی
طبقاتی نظام سماج میں انسانوں کو معاشی جبر کا شکار کر دے ،نہ کمانے والا
طبقہ کمانے والے طبقے کی کمائی پر قابض ہو جائے،ایک مخصوص طبقہ مال ودولت
اور کل اجتماعی وسائل پر کنٹرول حاصل کر کے اکثریتی طبقے کو محرومی سے
دوچار کر دے ،غربت اور افلاس کا غلبہ ہو ۔معاشی محرومی کی وجہ سے معاشرہ
اخلاقی گراوٹوں میں مبتلا ہو ایک طرف عیاشی ہو اور دوسری طرف بھوک تو یہ
صورت حال سماج کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
اسی طرح سیاسی اداروں میں کرپشن عام ہو اقتدار پر قابض افراد معاشرے کی ہر
طرح کی آزادیوں کو سلب کر کے رکھیں ،قانون سازی صرف ایک مخصوص طبقے کی فلاح
وبہبود کے لئے ہو ،اقتدار کا حصول فقط اپنے ذاتی مفاد اور مال وزر ہو،تو
یقیناً وہ معاشرہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم معاشرہ کہلاتا ہے۔
اور پھر عدلیہ انصاف دلانے میں ناکام ہو یا خود کرپشن میں مبتلا ہو تو اس
صورت حال میں سماج کا اجتماعی وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔یہاں اس نکتے کی
وضاحت ہو گئی کہ اجتماعیت کے قیام میں ان ریاستی اداروں کاکلیدی کردار ہوتا
ہے اگر یہ ادارے فلاح انسانیت کے اصول پر کام کر رہے ہیں تو ٹھیک وگرنہ یہی
ادارے انسانوں کی اجتماعیت کا شیرازہ بکھیرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اب ایسی صورت حال میں جب یہ بنیادی ادارے اپنی حیثیت کھو بیٹھیں اور
انسانوں کے اجتماع کا استحصال کر رہے ہوں ۔بیحیثیت مجموعی معاشرہ زوال سے
ہمکنار ہو رہا ہو تو اس وقت کس طرح کی جدو جہد اور فکر وعمل کی ضرورت پڑتی
ہے اس کو عبید اللہ سندھی نے واضح کیا ہے کہ اب ہر فرد بنیادی طور پر اس
اجتماعی نظام سے متاثر ہے اب اس سے چھٹکارے کے لئے اجتماعی جدو جہد ہی کار
آمد ہو گی انفرادی کاوشیں بغیر مضبوط جتماعیت کے ناکام ہو جاتی ہیں ۔
اب اجتماعی زوال کو اجتماعی جدو جہد ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے لہذا آپ سب
سے پہلے سماجی تبدیلی یا سیاسی جدو جہد کے لئے اجتماع کو ضروری قرار دیتے
ہیں۔اس کے لئے وہ جماعت کی تشکیل ضروری سمجھتے ہیں۔مولانا سندھی معاشرے کا
تجزیہ کرتے ہوئے اجتماعیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
’’سیاست اجتماع سے پیدا ہوتی ہے اور عرب شعوب وقبائل میں متفرق ہیں۔ایک
قبیلے کی اجتماعیت اپنے ہی اندر محصور ہے۔بین القبائل کوئی اجتماعیت نہیں
ہے جو جماعت اس قسم کی محدود اجتماعیت رکھتی ہے وہ رفتہ رفتہ تفرقہ اور
انفرادیت میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ہر گھر دوسرے گھر سے الگ ہو جاتا ہے۔اور
اپنے مصالح میں منہمک ہو کر رہ جاتا ہے اس کے بعد یہ منزل آتی ہے کہ خود اس
گھر کے اندر کی اجتماعیت میں تفرق وتشتت پیدا ہونے لگتا ہے اور افراد خانہ
میں انفرادیت آ جاتی ہے اس طرح فطرت انسانیہ جو اجتماعیت پر پیدا کی گئی ہے
خراب ہو جاتی ہے۔ ‘‘(17)
معاشرے میں جب زوال آتا ہے تو معاشی ،سیاسی ،سماجی زوال کے ساتھ ساتھ
تعلیمی اور فکری زوال بھی رونما ہوتا ہے اور ایسے عالم میں ذہن شعوری اور
لاشعوری طور پر انفرادیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔برسر اقتدار ظالم اور
استحصالی ہوتا ہے اس کے مدنظر فقط اپنے گروہ کے مفادات ہوتے ہیں لہذا وہ
ایک ایسا بدترین سیاسی نظام پیدا کرتا ہے جس سے معاشرہ محرومی سے دوچار ہو
کر اپنی ذات کی بقا میں لگ جاتا ہے ۔اور پھر اس معاشرے کا دانش ور طبقہ اس
انفرادی بقاء کی جنگ کو مزید نظریاتی تقویت بخشتا ہے۔اور معاشرے میں خصوصاً
نوجوان نسل کا یہ سلوگن ہو تا ہے میرا کیریر،میرا مستقبل،میرا گھر،میری
زندگی یقیناً معاشرے میں ’’ہم‘‘ کی بجائے’’میں یا میرا‘‘کی فضائیں بلند
رہتیں ہیں۔اب مذہب قانون،فلسفہ،ادب،سب اسی فرسودہ نظام کا شکار ہو کر
معاشرے کو اجتماعیت کی روح سے محروم کرتے جاتے ہیں ۔اسی انفرادیت کی وجہ سے
گروہیت اور فرقہ وارانہ نسلی ،مذہبی ،قومی تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے۔معاشرہ
ٹکڑوں میں بٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ہر فرد اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دوسرے
کا گلہ کاٹنے کے لئے اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا
ہے۔یقیناً یہ اجتماعی خرابی معاشرے کے اجتماعی اداروں کی کرپشن اور فرسودگی
کی وجہ سے ہوئی ۔اب اس کا حل کیا ہو گا ۔؟کیا اجتماعی خرابی کو انفرادی طور
پر حل کیا جا سکتا ہے ؟کیا کوئی فرد واحد اس خرابی کو حل کر سکتا ہے؟یقیناً
تاریخی مطالعہ اس کو رد کرتا ہے ۔مولانا عبید اللہ سندھی اسی نقطے پر اپنے
سیاسی فکر کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں کہ بغیر اجتماعی
جدو جہد کے کسی بھی فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور
کل معاشرے کے اندر تہذیبی اور تمدنی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی اور پھر وہ
تاریخ سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بڑے سے بڑے فرد نے بھی انفرادی سطح پر کبھی
کامیابی حاصل نہیں کی ۔جب تک اس نے اجتماع نہ بنایا۔مولانا بیان کرتے ہیں
’’حقیقت یہ ہے کہ حق کی اشاعت کرنا ہی وہ ذریعہ ہے جس سے وہ اجتماع میں
پھیلتا ہے اس سے پارٹی پیدا ہوتی ہے اور ترقی کرتی ہے جب تک حق کی حمایت
میں قربانی دینے والی جماعت پیدا نہ ہو جائے اجتماع میں حق قائم ہو ہی نہیں
سکتا ،تاریخ ایسی مثالیں تو پیش کرتی ہے کہ ایک اولوالعزم نبی جانفروش
افراد کی جماعت ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہا لیکن وہ ایسی کوئی مثال
پیش نہیں کرتی کہ ایک صالح عمل صاحب ایمان فرد تن تنہا جماعت کے بغیر حق کو
غالب کرنے میں کامیاب ہو گیا ہو۔‘‘(18)
مزید فرماتے ہیں
’’انسانی تاریخ پر نظر ڈالو اور دیکھو کیا ایک مثال بھی ایسی ملتی ہے کہ
ایک شخص ایمان اور عمل صالح کے باوجود اپنے ساتھ اپنے جیسے ہم خیال لوگوں
کو جمع کئے بغیر اکیلا اور تن تنہا اجتماع میں اپنے ایمان کو غالب کرنے میں
کامیاب ہو گیا؟تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔‘‘(19)
مولانا سندھی ایک صالح اجتماعیت کی تشکیل کے لئے جو بنیادی فکر متعارف
کرواتے ہیں وہ ہے انسانیت کی فکر ،یعنی سارے انسانوں کی بلا رنگ ونسل فلاح
وبہبود اور ان کی ترقی وکامیابی کے لئے جدو جہد کی فکر۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ
تنگ نظری ،گروہیت ،ذاتی وانفرادی مفد کی سچ کبھی اجتماعی تبدیلی کا باعث
نہیں بن سکتی وہ انسانی تمدن کے ارتقاء میں اس جذبہ اور فکر کو محرک مانتے
ہیں یعنی جب تک انسانی اجتماع میں انسانیت کی فکر شام حال رہی وہ قوم اور
اجتماع تمدن کی بلندیوں سے ہمکنار ہوا اور جب اس اجتماع میں اس انسانیت کا
جوہر ختم ہو گیا تو پھر وہ سماج زوال کی طرف گامزن ہو گیا ۔فرماتے ہیں
’’تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک قوم ایک مذہب کو اختیار کرتی ہے اور جوں
جوں زمانہ گذرتا ہے وہ اسے اپنے رنگ میں رنگتی جاتی ہے اور اس طرح انسانی
دین قومی دین بن جاتا ہے لیکن اس قوم کا اصرار ہوتا ہے کہ اس کا دین ہی
ساری انسانیت کا دین ہے اور صرف یہی قوم انسانیت کی حامل اور نمائندہ ہے بے
شک ابتداء میں ان کا یہ فکر دین انسانی ہوتا ہے اور اس میں ہر رنگ اور ہر
نسل والے کو بار مل جاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ قومی بن جاتا ہے اور آخر
میں نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ہر فرد یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں اور صرف
میں ہی حق پر ہوں ۔باقی لوگ سب گمراہ اور کافر ہیں۔۔۔۔۔(لہذا)وہ دین جو
ساری انسانیت کا شیرازہ بند بن کر آتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ وہ انتہائی
انتشار اور نزاع کا باعث بن جاتا ہے۔‘‘(20)۔۔۔جاری ہے۔۔۔حوالہ جات آخری قسط
کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔ |