آزادکشمیر میں اسلام آباد کی سیاسی لڑائی اور دو بڑوں کی باتیں

پاکستا ن میں عدلیہ کے فیصلے کے تحت میاں نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن کر اپنی کابینہ کے ساتھ امور حکومت کا آغاز کر چکے ہیں یہ واقعتا بہت بڑی تبدیلی ہے جو آئی نہیں ہے بلکہ آ چکی ہے ورنہ نواز شریف کی موجودگی میں شاہد خاقان عباسی سمیت ان کی جماعت بلکہ باہر سے بھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا ایسا ہو سکتا ہے مگر قدرت کے اسباب کے سامنے سب کچھ ممکن ہے جو مٹی کو سونا بنا سکتی ہے اور ایسے اسباب ہو جاتے ہیں جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہاں آزاد کشمیر مظفرآباد جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی بطور جی او سی مری آئے تو سات آٹھ اخبار نویسوں کو چائے پر بلا لیا سلام دعا تعارف کے بعد یہاں کے نظام حالات مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ، تجاویز مانگی تو سب سے آخر میں راقم نے رائے دی عدلیہ کا نظام ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ بہتر ہو جائے گا جس پر اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم نے تو یہاں خیر خواہوں کو بلایا تھا گزارش کی جناب انصاف ہو گا تو بہتری خود بہ خود ہو گی تو ان کا کہنا تھا عدلیہ سے لڑائی نہیں لڑی جاتی میری مثال گدھے والی جب تک آنکھ سے نہ دیکھ لو بات سمجھ نہیں آتی اور گیارہ سال بعد عدلیہ سے لڑائی کا آغاز کر نے پر بالآخر پرویز مشرف کی رخصتی ہوئی تو سمجھ آگیا اشفاق کیانی درست کہتے تھے اب نواز شریف کے جانے پر سونے پر سہاگے کے مصداق پختہ یقین ہو گیا ہے نواز شریف ان کے ساتھیوں نے فیصلے سے پہلے تک سلطان رائی سٹائل میں بری لمبی فلم چلائی اور فیصلے کے بعد ان کے جذبات برف کی طرح پانی بن کر تحفظات خدشات کے انداز اختیا ر کر رگئے ہیں جن کا اظہار ہمارے پیارے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے بھی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ خفیظ الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔مگر جس طرح پانامہ کی جگہ اقامہ باعث نزع بنا اس طرح ان کے عمران خان شیخ رشید کیلئے چار پانچ خنجر کی طرح زہر آلود جملے نشانے پر تو لگے مگر وجہ تنازعہ وہ ایک جملہ بن گیا جو ادھورا تھا ۔ہمارے وزیر اعظم فاروق حیدر کی جرات اور ہمت ان کے والد راجہ حیدر خان کی تربیت اور خون کا ثمر ہے تو ان کی سیاسی فکر و عمل میں محترم سردار عبدالقیوم خان(مرحوم) اور سردار سکندر حیات خان کے طرز سیاست کی صحبت کا غالب اثر ہے ۔سردار عبدالقیوم خان جارحانہ طرز عمل کے ساتھ روانی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بڑی سے بڑی بات کر جاتے تھے اور بعد ازاں زیادہ شدت اختیار کرنے پر اس کے سیاق و سباق کچھ اور تھے کے موقف کے ساتھ صورتحال پر قابو بھی پا لیتے تھے مگر اس وقت تک الیکٹرانک میڈیا نہ تھا اس کے باوجود بعد میں دیکھا گیا وہ بطور احتیاط تقاریر انٹرویوز پریس کانفرنس میں ٹیپ ریکارڈر ساتھ رکھتے تھے سردار سکندر حیات1931ء اور 32ء سے شروع ہوتے تھے بہت طویل بات کرتے ہوئے اکثر ادھورے جملے ادا کرتے تھے جس کے باعث ان کی گفتگو کھچڑی بن جاتی تھی ان دونوں بڑوں کی صحبت کے اثر اور اپنے انداز بے نیازی کے سبب موصوف کے نئے پاکستان سے متعلق ایک جملہ ایسا گونجا ہے کہ اب ان کو الیکٹرانک میڈیا سے نظر انداز کرنے کی شکایت کبھی نہیں ہو گی ورنہ درحقیقت شیخ رشید عمران خان نے ان کو اپنی زاتی زندگی کے بھولے گوشوں پر طنز و تنقید کا نشانہ بنایا جو فطرتی عمل تھا جسکا آغاز خود راجہ فاروق حیدر نے کیا اور شیخ رشید نے ماحول بنا کر عمران خان کو دیا جنہوں نے انتہا کر دی اور جواب الجواب کے بجائے غلیظ لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی لٹیا ہی ڈبو دی کہ وہ قیادت کے معیار پر پورا نہیں اُترتے ‘ پھر بلوے جیسا سماں بن گیا ورنہ جس جملے کو بظاہر تنازعہ بنایا گیا اسکا مطلب صرف اتنا تھا ہم قائد اعظم علامہ اقبال کا مضبوط و مستحکم باوقار جمہوریت کا آئینہ دار ترقی یافتہ خوشحال پاکستان چاہتے ہیں جو آزادی کشمیر کا ضامن ثابت ہو سکے مگر اس جملے اور رد عمل کو باہر سے زیادہ یا آزاد کشمیر کے اندر سے میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں و مخالفوں نام نہاد الحاقیوں خود مختاریوں حقیقت میں مفاد پرستوں طوطا چشموں نے اس انداز میں اچھالا کہ جیسے بہت بڑا طوفان آگیا ہو جس میں وزیر اعظم کی پہلے والی سیاسی محبت کے ماضی کے کردار کا بھی بڑا عمل دخل ہے جو اقتدار ہو تو زندہ باد ورنہ مردہ باد کہتے ہوئے آخری حدوں کو بھی پار کر جاتا رہا ہے اور بہت سارے اسباب کے علاوہ یہ ایک سبب بھی ن لیگ کے قیام کی وجہ بنا تھا بہرحال بھلا ہو ‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ‘ مولانا فضل الرحمان ‘مولا بخش چانڈیو جیسے سیاستدانوں اور حامد میر وسعت اللہ خان جیسے صحافیوں کا جنہوں نے حقائق کا آئینہ دکھاتے ہوئے طوفان و بدتمیزی کے آگے بند باندھ دیا پھر عائشہ گلالئی کوبھی دعا دینی چاہئے جس کی بغاوت نے سارے میڈیا کا رخ ہی موڑ دیا اب بھی طوفان ختم ہو چکا ہے مگر اس کے آفٹر شاکس جاری رہیں گے اسلئے نا صرف پاکستان کی قومی قیادت بلکہ آزاد کشمیر کی سیاست قیادت پر فرض ہے وہ اس قصے کو چھوڑ کر حقیقت پسندی کا طرز عمل اختیا رکریں یہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی لڑائی ہے جسے سیاست تک محدود رہنا چاہئے وہ جو سچے نظریہ الحاق یا خود مختار کے حامی ہیں وہ سیاست کے کارزار کا حصہ ہی نہیں بنتے ناصرف کشمیریوں کی عزت ، غیرت ، حمیت وقار ہے بلکہ پٹھان ، پنجابی ، سندھی بلوچی سمیت سب کی عزت غیرت یکساں ہے اسلئے سیاسی اختلافات کو عزت غیرت کا نام دے کر نفرتیں پھیلانے والے اصل فسادی ہیں جن کی ہر قیمت پر حوصلہ شکنی لازمی ہے یہ اچھی بات ہے حکومت پاکستان کی نئی کابینہ میں نا صرف وزیر اعظم شاہد خاقان آزاد کشمیر کے حالات و واقعات کلچر سے بخوبی واقف ہیں بلکہ نئی کابینہ میں وزیر امور کشمیر برجیس طاہر وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، وزیر قانون زاہد حامد ہی بنے ہیں اور وزیر خارجہ خواجہ آصف ہیں وہ یہاں کے ایشوز اور آئینی اصلاحات کے تقاضوں سے آگاہ ہیں لہٰذا یہاں آزاد حکومت کو عوام نے اپنے مسائل مشکلات کے حل کے لیے مینڈیٹ دیا ہے نہ کہ سیاسی لڑائی کے ردعمل میں وزارتیں عظمیٰ قربان کرنے کیلئے بھیجا ہے ‘ وزیر اعظم فاروق حیدر ان سے دوبارہ پہلے والی کمیٹی تشکیل کراتے ہوئے آئینی اصلاحات کے معاملے کو یکسو کرانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں جاریہ مالی سال کی پہلی سہہ مائی میں غیر ترقیاتی بجٹ کے تین ارب کے علاوہ چار ارب چالیس کروڑ کی ترقیاتی قسط کے فنڈز آنا حوصلہ افزاء سنگ میل ہے جسکا درست استعمال کرتے ہوئے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے منزل کا حصول نا صرف حکومت بلکہ ساری مشینری کا امتحان ہو گا۔۔۔۔

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149343 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.