علامہ اقبال میڈیکل کالج کا پرانا نام لاہور میڈیکل کالج
تھا اور یہ برڈورڈ روڈ پر واقع تھا۔تیس برس قبل میں ایم بی بی ایس کرنے
کیلئے یہاں داخلہ حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ کالج کیمپس کے اندر کالج آف
کمیونٹی میڈیسن بھی قائم ہے۔اکثر و بیشتر اِ س کالج کے باہر طلبہ و طالبات
میں گھرے ایک ڈاکٹر صاحب بلند قہقہے لگاتے اور اُنہیں سن کر ہم بھی شریکِ
محفل ہوتے۔ معلوم ہوا کہ قہقہے لگانے والے ڈاکٹر ایم اے صُوفی ہیں جوکہ
ڈینٹل سرجن ہیں اور کالج آف کمیونٹی میڈیسن کے شعبہ ڈینٹل سرجری کے سربراہ
ہیں۔ آہستہ آہستہ اُن سے قلبی لگاؤ پیدا ہوا اور بالآخر دوستی میں بدل گیا۔
دوستی کئی دہائیوں پر محیط رہی اور پھر وہی ہوا جو ہر انسان کی زندگی کا
انجام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ایم اے صُوفی دارِ فانی سے کُوچ کرگئے۔ میں بیرونِ
ملک ہونے کی وجہ سے اُن کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا، جس کا مجھے افسوس رہے
گا۔اُن کی وفات کے چند دن بعد اُن کے نامور صاحبزادے بیرسٹر احمر بلال
صُوفی کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب کی یاد میں اسلام آباد ریفرنس کیا جارہا
ہے۔ آپ کو شرکت کی دعوت ہے۔ میں اپنی والدہ محترمہ کی ناسازیِ طبیعت کے
باعث شریک نہ ہوسکا تو سوچا ڈاکٹر صاحب کی یاد میں چند الفاظ تحریر کروں۔
ایک ایسے شخص کو یاد کرنا میرے لئے باعثِ مسرت و طمانیت ہے جس نے اِس
دنیائے رنگ و بُو میں آٹھ عشرے سے زائد عرصہ گزارہ مگر اُس کی ہر سانس
اسلام کی محبت، پاکستان اور نظریہ پاکستان سے کمٹمنٹ اور قائد اعظم علیہ
رحمہ کے افکار کی ترویج میں گزرا۔ اس شاندار اور پاکستان کے عاشقِ زار کی
آنکھ ، پاکستان کی تشکیل سے تیس سال پہلے، ہری پور ہزارہ میں کھلی اور اس
کی آنکھ اپنے محبوب شہر(لاہور) میں بند ہُوئی۔ اُنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ
زندگی کے سارے ایام لاہور ہی میں گزارے اور یہیں اُن کی ساری لائق اولاد نے
بھی تعلیم کے جملہ مراحل طے کئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی آبائی سر زمین
کو کبھی فراموش نہ کر سکے۔ اپنے آبائی علاقے کی یاد اور محبت میں لکھی گئی
اُن کی ایک شاندار کتاب’’آزادی کا سفر اور ہزارہ کے لوگ‘‘ بھی اس امر کا
ثبوت ہے کہ وہ اُس مٹی کو بھول نہ سکے جس کی کوکھ سے اُنہوں نے جنم لیا
تھا۔میرے اس دوست کا نامِ نامی اور اسمِ گرامی پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
تھا۔
میرے دوست ڈاکٹر ایم اے صوفی کا اصل نام محمد اسلم صوفی تھا لیکن وہ
پاکستان بھر کے ڈاکٹری، صحافتی اور دانشور حلقوں میں ’’ڈاکٹر ایم اے صوفی‘‘
ہی کے نام سے اتنے معروف ہُوئے کہ پھر اُن کا اصل نام کہیں گم ہو کر رہ
گیا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ عامل ڈاکٹر تھے۔ ڈینٹسٹری کا دنیا کا ایک نہائت
قابلِ بھروسہ نام ۔ یہی اُن کی روزی روٹی کا ذریعہ رہا اور اِسی کی بنیاد
پر وہ اپنے بال بچوں کو پالتے پوستے رہے مگر در حقیقت پاکستان کا نام روشن
کرنا، قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کی مالا جپنا، نظریہ پاکستان کا پرچم
بلند کرنا اور دشمنانِ پاکستان کو ہر مقام اور ہر فورم پر شکست دینا ہی اُن
کی زندگی کا اصل مطمحِ نظر بن کر رہ گیا تھا۔ اِنہی مقاصد کا حصول اور ان
کی ترویج اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔ حیرت مگر یہ بھی ہے کہ اُنہوں
نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کو بھی غفلت کا شکار نہ ہونے دیا۔ دراصل اُنہیں
ٹائم مینجمنٹ کا فن آتا تھا۔ جب بھی لاہور کے کسی فورم پر اُن سے ملاقات
ہوتی، اکثر اوقات مَیں ڈاکٹر ایم اے صوفی صاحب سے یہی سوال حیرت سے پوچھا
کرتا تھا : جناب ، آپ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں سے قومی اور سماجی خدمات
کے لئے اتنا وقت کیسے نکال لیتے ہیں؟
قومی اخبارات(خصوصاً نوائے وقت) میں اُن کی وقیع نگارشات آئے روز شائع ہوتی
رہتی تھیں لیکن کوئی تحریر رطب و یابس کا شکار نہیں ہوتی تھی۔ اُنہیں تحریر
کے میدان میں ہر فن مولا بننے کا شوق تھا نہ خواہش۔ ڈاکٹر ایم اے صوفی صاحب
کی کوشش یہی رہتی تھی کہ وہ جب بھی قلم اٹھائیں، اُن کا موضوع پاکستان،
تحریکِ پاکستان ، قائد اعظم کی خدمات، پاکستان کے احسانات ہی رہتے۔ گویا
کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنا قلم اور افکار نظریہ پاکستان ہی سے
متعلقہ تمام موضوعات کے لئے وقف کر رکھے تھے۔ ڈاکٹر صوفی صاحب نے جتنی بھی
معتبر کتابیں لکھیں، تقریباً سب کا موضوع بھی یہی ہے۔ مثال کے طور پر اُن
کی کتابوں کے عنوانات پرایک طائرانہ سی نظر ڈالئے، پاکستان کی محبت ہی
جھلکتی اور چھلکتی نظر آتی ہے۔ مثلاً :’’ جناح سے قائد معمارِ قوم
تک‘‘۔۔۔۔’’پنجاب کی سرحدی لکیر نظریہ پاکستان کی لکیر‘‘۔۔۔۔’’پختونخواہ
کیوں؟‘‘۔۔۔۔’’فاطمہ جناح: حیات و افکار‘‘۔۔۔۔’’قائد اعظم کے آخری
ایام‘‘۔۔۔۔’’دو خان ایک پاکستان‘‘۔ ۔۔۔’’صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت
‘‘ وغیرہ۔اُنہیں ہمیشہ اس امر کا بھی فخریہ احساس رہتا تھا کہ وہ مادرِ
ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے باڈی گارڈ بھی رہے۔ غالباً یہ 1948ء کی بات
ہے۔ڈاکٹر ایم صوفی صاحب کے لکھی گئی تمام کتابوں کے عنوانات اپنی زبان سے
پکار پکار کر کہتے ہیں کہ مصنف کا رجحان اور جھکاؤ کس جانب ہے!!پاکستان سے
محبت ہی اُن کی پہچان اور تشخص تھا۔ پاکستان سے ہر دم اور ہر حال میں محبت
کرنے کا جذبہ اُنہوں نے آگے اپنی اولاد کا بھی منتقل کیا۔اُن کے نامور
قانون دان فرزنداحمر بلال صوفی اس جذبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔احمر صاحب کئی
عالمی فورموں میں پاکستان کی نمائندگی کر کے پاکستان کا موقف بہترین اسلوب
میں پیش کر چکے ہیں۔ڈاکٹر ایم اے صوفی ہمیشہ خوش ہوتے تھے کہ اب اُن کا
تعارف لوگوں سے یہ کہہ کر کروایا جاتا ہے :ان سے ملئے، یہ پاکستان کے مشہور
قانون دان جناب احمر بلال صوفی کے والد ہیں۔یہ کہہ کر قہقہہ لگاتے۔
پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی صاحب کی دوستیاں بھی زیادہ تر اُنہی افراد سے
رہیں جو پاکستان ، نظریہ پاکستان اور قائد اعظم سے محبت کرنے والے تھے۔ وہ
اُنہی فورموں میں بھی شرکت کرکے خطاب کرنا پسند کرتے تھے جہاں پاکستان اور
صرف پاکستان اور بانیانِ پاکستان کی بات ہو۔لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ
اسی لئے اُن کی پسندیدہ جگہ تھی۔ جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور صاحب سے
اُن کی اس لئے بھی گاڑھی چھنتی تھی کہ نظامی صاحب پاکستان سمیت دنیا بھر
میں نظریہ پاکستان کے عظیم اور بے مثل مجاہد اور پرچارک تھے۔ حقیقت یہ ہے
کہ ڈاکٹر ایم اے صوفی نے مجید نظامی صاحب سے بہت روحانی فیض حاصل کیا۔
نظامی صاحب کی زیرِ قیادت اور زیر سرپرستی پاکستان کی محبت اور نظریہ
پاکستان کی ترویج اور اشاعت کے حوالے سے جتنے بھی سیمینار منعقد کروائے
جاتے، صوفی صاحب کا وجود وہاں ضرور نظر آتا تھا۔ڈاکٹر صوفی صاحب اپنے دولت
خانے پر بھی جن محترم اور معتبر احباب کو مدعو کرتے، اُن میں بھی وہی لوگ
سرِ فہرست ہوتے جو کسی نہ کسی شکل میں نظریہ پاکستان کے فلسفے سے جڑے اور
منسلک ہوتے۔
اپنی پُر بہار شخصیت کی بدولت ڈاکٹر ایم اے صوفی صاحب لاہور کی ممتاز،
معتبراور محبوب شخصیت تھے۔ سماجی کام سر انجام دینے میں بھی ایک بڑا نام۔
کئی ایوارڈز بھی جیتے۔ امریکہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹر صوفی صاحب نے ڈینٹسٹری
کے موضوع پر ایک شاندار کتاب بھی لکھی جو معالجین کے ساتھ ساتھ مریضوں کے
لئے بھی یکساں مفید سمجھی جاتی ہے۔ اُنہوں نے اپنے پیشے کے موضوعات پر بھی
لاہور میں کئی عالمی کانفرنسیں کروائیں۔ کبھی جنرل ضیاء کو مہمانِ خصوصی
بنایا تو کبھی جنرل جیلانی کو اور کبھی حکیم سعید صاحب کو۔انتقال سے کوئی
تین عشرے قبل وہ ایک کالج کی پرنسپلی سے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن قومی خدمت
اور زندگی کی ہما ہمی دمِ واپسیں تک بھرپور انداز میں جاری رہی۔ یہ اُن کی
تعمیری زندگی کا ایک روشن اور امید پرستانہ پہلو ہے۔واقعہ یہ ہے کہ وہ
لاہور کی علمی اور مجلسی زندگی کا بہت دلکش نام تھے۔ وہ ہم خیال سینئر
اخبار نویسوں کی مجالس میں بھی خوب چہکتے۔ افسوس اب یہ چہکتا ہُوا خوش گلو
پرندہ گلشنِ ہستی سے پرواز کر چکا ہے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے(آمین) |