کیپٹن راجہ محمد سرورخان شہید گوجر خان ضلع راولپنڈی کے
گاؤں سنگھوڑی میں1910میں پیدا ہوئے سرور شہید نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد
کے گورنمنٹ مسلم ہائی سکول طارق آباد سے حاصل کی تعلیم حاصل کرتے ہی انہوں
نے 1929میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1944میں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن
حاصل کیا ۔کمیشن حاصل کرنے ک بعد راجہ سرور نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر
اپنی بے شمار خدمات فراہم کیں ہر عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مقابلہ
کرتے رہے راجہ سرور کی بے لوث خدمات اور عملی مظاہرہ کی بنیاد پر ان کو
مستقل کیپٹن کے عہدے پر تعینات کیاگیا 1947میں تقسیم ہند کے بعد راجہ سرور
نے بطور مسلمان اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان آرمی میں شمولیت
اختیار کی اور اپنی زندگی پاکستان کے لیے وقف کرنے کاا رادہ لیے ہر محاظ پر
دشمنوں سے لڑتے رہے کیپٹن راجہ سرور کے والد راجہ محمد حیات خان نے بھی فوج
میں بطور حوالدار اپنی خدمات فراہم کیں راجہ حیات خان نے پہلی جنگ عظیم میں
انتہائی بہادری کا مظاہرہ دکھایا جس کے عوض حکومت برطانیہ نے راجہ حیات کو
پنجاب کے شہر سمندری کے چک 229میں تین مربع زمین بطور تحفہ دی تھی یہ زمین
راجہ حیات خان کا کُل اثاثہ تھی راجہ سرور کے والد راجہ حیات خان اپنے
علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے ان کا انتقال 23فروری 1932کو ہوا راجہ
سرور شہید کے تین بھائی اور ایک بہن تھی آپ تمام بہن بھائیوں میں چوتھے
نمبر پر تھے راجہ سرور شہید 1935کو محترمہ کرم جان سے رشتہ ازدواج میں
منسلک ہوئے راجہ سرور شہید کے دو بچے جن میں ایک بیٹا راجہ محمد صفدر اور
ایک بیٹی گلزار بیگم ہیں سرور شہید اپنی ا مانت داری ،خوش اخلاقی اور نرم
مزاجی کی وجہ سے پورے گاؤں میں سخی سرور کے نام سے مشہور تھے کیپٹن سرور کو
دوسری جنگ عظیم میں محاظ برما کے موقع پر تمغہ "محاظ برما" سے نوازا گیا
1948 میں جب وہ پنجاب رجمنٹ کی سیکنڈ بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر
خدمات انجام دے رہے تھے سرور شہید کی بہادری کے مظاہرے کو دیکھتے ہوئے
انہیں کشمیر آپریشن پر بھیجا گیا اور اس آپریشن میں بھی راجہ سرور اپنی بے
مثال خدمات فراہم کرتے رہے اور ان خدمات کے تعارف میں انہیں "تمغہ
کشمیرمحاظ"سے نوزا گیا کیونکہ پاکستان بننے کے بعد راجہ سرور باقاعدہ طور
پر پاکستان آرمی سے منسلک ہو چکے تھے اسی بنا پر انہیں تمغہ خدمات پاکستان
کے اعزاز سے نوازا گیا
بقول علامہ اقبال
شاہین کبھی پرواز سے تھکا کر نہیں گرتا
پرُ دَم ہے اگر توُ،تو نہیں خطرہ افتاد
کیپٹن سرور کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ انہوں نے 27جولائی1948کو اوڑی سیکٹر
میں دشمن کی اہم پوزیشن پر نا صرف حملہ کیا بلکہ دشمن کے خطرناک عزائم کو
خاک میں بھی ملایا اس حملہ کی صورت میں مجاہدین کی بڑی تعداد شہید ہوئی اور
بے شمار زخمی بھی ہوئے راجہ سرور ہر صورت دشمن کے مورچوں پر قبضہ کرنا
چاہتے تھے کیونکہ ان کے دل میں وطن سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا
تھا راجہ سرور شہید نے تمام تر کاروائیاں دیکھنے کے باوجود اپنی ہمت نہیں
ہاری دشمن کے آخری مورچے کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ دشمنوں نے مورچے کے
گرد خاردار تاریں بچھا لیں ہیں لیکن آپ نے بہادری کا عملی مظاہرہ کیا
اوردشمن کو ختم کرنے کے لیے آگے بڑھتے چلے گئے اتنے میں دشمن کی جانب سے
فائر کی گئی ایک گولی آپ کے جسم میں پیوست ہوگئی لیکن راجہ سرور مقابلہ
کرنے کو تیار رہے راجہ سرور نے اپنے زخموں کی پرواہ کیے بغیر ایسی گن کی
چارج سنبھالی جس کا جوان شہید ہو چکا تھا آپ اپنے 6ساتھیوں کے ساتھ دشمن کے
مورچوں کے سامنے پہنچے اگر یہاں یہ کہا جائے کہ راجہ سرور ان اشعار پر عمل
پیرا تھے کہ
جس دھج سے گیا کوئی مقتل میں وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی تو کوئی بات نہیں
جی راجہ سرور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مورچے کے قریب ترین پہنچے اور خار
دار تاروں کو عبور کر کے دشمن کے مورچوں پر آخری حملہ کیا تو دشمنوں نے
راجہ سرور کو دیکھتے ہی اپنی بندقوں اور توپوں کا رخ اُن کی طرف موڑ لیا ان
میں سے ایک گولی راجہ سرور کے سینے پر لگی اور جام شہادت نوش کیا ان کے
ساتھیوں نے جب شہادت کایہ منظر دیکھا تو دشمن کے مورچوں پر ایسا حملہ کیا
کہ دشمن بھاگنے پر مجبور ہو گئے
خونِ دل دے کر نکھاریں گے رخِ برگِ گُلا ب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
راجہ سرور شہید کی بے شمار خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے 27اکتوبر1959میں
پاکستان کا اعلیٰ ترین اعزاز"نشان حیدر"سے نوازا راجہ سرور کو ایک اعزاز یہ
بھی حاصل ہے کہ وہ نشان حیدر پانے والے پہلے شخص ہیں یہ اعزاز ان کی بیوہ
محترمہ کرم جان نے 3 جنوری 1961کو اس وقت کے صدرپاکستان محمد ایوب خان کے
ہاتھوں وصول کیا تھا۔آخر میں تمام شہداء پاکستان کو سلام ٭٭٭
|