مشرق وسطیٰ کے ہربحران کو جو لوگ مسلک کی عینک لگا کر
دیکھتے ہیں ان کے لیےماضی قریب میں نہایت سازگار ماحول بن گیا تھا۔ یمن کے
حوثی ، بحرین کے مظاہرین ، لبنان کی حزب اللہ اورشام کا صدر سب کے سب شیعہ
اور ان سب کو حاصل ایران کی حمایت اس کے برعکس یمن کاصدر ، بحرین کا بادشاہ،
لبنان کے حکمراں اورشام کے جنگجو سنی اور سعودی عرب ان سب کا حامی اس طرح
گویا شطرنج کی بازی پر ایک طرف سارے مہرے شیعہ اور دوسری جانب سارے کے سارے
سنی ہوگئے اور مسلکی جنگ عظیم کا اعلان ہوگیا ۔ اس کے بعد امریکہ بہادر کے
طفیل داعش کی آمد ہوئی جس کا اعتراف خود ٹرمپ نے کیا اور اس کے خلاف مسلکی
اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سعودی عرب اور ایران ایک پالے میں آگئے۔ اس
سے پہلے کہ یہ کہانی اپنے انجام کو پہنچتی قطر کا قضیہ سامنے آگیا ۔ قطر
ایک سنی ملک ہے جس کےمخالفت کرنے والے سب ممالک سنی اور اس کی حمایت میں
شیعہ ایران پیش پیش ۔ اب منظر نامہ بدل گا ۔
قطر کے ساتھ سعودی عرب کے تعطل میں دو ماہ بعد خاصی نرمی آئی ہے۔ قطر کی
اس کامیابی کے پس پشت اس کی تحمل آمیز سفارتکاری کا بڑا دخل ہے۔ حالات کو
بگاڑنے میں سب سے بڑا کردار امریکہ کا ہوسکتا تھا ۔ قطر نے امریکہ کے ساتھ
دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ کا معاہدہ کرلیا ۔ اب امریکہ یہ تو نہیں کہہ
سکتا کہ اس نے ایک دہشت گردی کے حامی کو اپنی دہشت گردی مخالف جنگ میں شامل
کرلیا۔ اس طرح ہوا کا رخ بدل گیا۔ اس کے بعد قطر نے عالمی عدالت سے رجوع
کرکے اس مقاطعہ کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے کر اپنی شکایت
درج کرادی اور اب آگے بڑھ کر اس کے سبب ہونے والے مالی خسارے کی بھرپائی
کا مطالبہ کردیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو قطر کے خلاف۱۳ سخت شرائط
کی جگہ ۶ نرم شرائط نے لے لی جو اس قدر گنجلک ہیں کہ ان پر رضامندی مشکل
نہیں ہے۔ اس کے بعد اب فضائی راستوں کی بھی محدود اجازت دے دی گئی ہے جس سے
اندازہ ہوتا ہے جلد ہی معطل شدہ سفارتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔
اس بیچ سعودی عرب نے ایک انوکھی سفارتکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئےعراق کے
معروف شیعہ رہ نما مقتدی الصدر کوولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ
ملاقات کے لیےاپنےیہاں آنے کی دعوت دی ۔ مقتدی ٰالصدر کی جماعت کے پاس
ایوان پارلیمان میں ۳۴ نشستیں ہیں۔ ایران کے حلیف عراقی وزیراعظم العبادی
نے اس دورے کو خطے کے ممالک کے ساتھ بالعموم اور پڑوسی ممالک کے ساتھ
بالخصوص بہتر تعلقات کی مثبت پیش رفت قراردیا ۔ گیارہ سال کے بعد مقتدیٰ
الصدر کے پرجوش استقبال کی دیگر سیاسی وجوہات بھی ہیں مثلاًحال میں الصدر
نے ایران پر تنقید کی ہے اور داعش کے خلاف منظم کئے جانے والے ایران
نوازمصلح دستوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔سعودی عرب اور اس کے
حلیفوں کو اندیشہہے کہ ان ایران نواز میلشیاوں کا استعمال عراق میں سنیوں
کے خلاف ہوسکتا ہے۔ محمد بن سلمان اور مقتدیٰ الصدر نے کردستان میں ہونے
والے استصوابِ رائے میں عراق کی سالمیت کے موضوع پر تبادلۂ خیال کیا ۔
اپریل کے اندر ایک بیان میں الصدر نے بشارالاسد سے مطالبہ کیا تھا وہ
اقتدار سے کنارہ کش ہوجائے تاکہ شام کی عوام کو جنگ اور دہشت گردانہ مظالم
سے نجات مل سکے۔
اس میں شک نہیں کہ سیاست میں دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور ممکن ہے مقتدیٰ
الصدر کا دورہ حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں منعقد ہوا ہو لیکن اس
کے اچھے اثرات پڑیں گے ۔ اس دورے سے مسلکی اختلاف کی دیوارمیں یقیناًشگاف
پڑا ہے جو خوش آئند ہے کیونکہ اس کو عبور کرناناممکن بنادیا گیا تھا۔
مقتدی الصدر کے دفتر سے جاری کئے گئے ایک اعلامیہ میں کہا گیا گفت شنید
کےدوران آراء میں موافقت اورسعودی عرب کی عراق کے ساتھ اچھے تعلق کی خواہش
نظر آئی۔ مقتدی الصدر اور سعودی ذمہ داران کے درمیان سرمایہ کاری کے مواقع
، عراق کے جنوبی اور وسطی علاقوں کی ترقی اور بے گھر اور متاثرہ افراد کے
لیے امداد کی پیش کش پر گفتگو ہوئی نیز ریاض نے بغداد حکومت کے لیے ایک
کروڑ ڈالر کی اضافی رقم پیش کرنے کا اعلان کیا۔سیاسی پہلو سے بغداد میں نیا
سفیر مقرر کرنے ، نجف میں سعودی قونصل خانہ کھولنے ، فضائی راستہ قائم کرنے
، زمینی گزرگاہیں کھولنے ، تجارتی تبادلہ مضبوط کرنے اور معتدل مذہبی مواد
اختیار کرنے پر تبادلہ خیال ہوا تا کہ دونوں ملک کے درمیان پر امن باہمی
بقاء کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس دورے کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اپنے سیاسی مفادات کی خاطر حکمراں
مسلکی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اورحسبِ ضرورت خود اس آگ کو بجھا بھی دیتے
ہیں اس لیے عوام کوچاہیے کہ وہ بہر صورت ملی اتحاد کو مسلکی اختلافات کی
بھینٹ چڑھنے سے محفوظ و مامون رکھے ۔ امت کےافراد مل جل کر حکمرانوں کی
ریشہ دوانیوں کو ناکام کرتے ہوئے علامہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بن سکتے
ہیں ؎
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر |