اس تناظر میں آج کے معاشرے کا جب جائزہ لیتے ہیں تو یہ
صورت سامنے آتی ہے کہ عالم انسانیت اپنی وسعت ،وسائل کی فراوانی ،نقل وحرکت
کی آسانی اور اقوام وممالک کے قرب واتصال کے باوجود پہلے سے کہیں تنگ ہے
اغراض پرستی نے انسان کو انسان کا دشمن بنا دیا اور رہی سہی کسر ان اہل
سیاست وحکومت نے پوری کر دی جو زندگی کے وسائل ،معیشت کے سر چشموں اور
زخیروں پر قابض ہیں ۔وہ جس کے لئے چاہتے ہیں وسیع کر دیتے ہیں۔بڑے بڑے وسیع
شہر اور شاداب زرخیز ملک لوگوں کے لئے بے فیض ہو کر رہ گئے ہیں ۔قوموں کی
قومیں اور پوری پوری آبادیاں نابالغ بچوں اور ناسمجھ یتیموں کی طرح دوسروں
کی تولیت میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔انسان کا انسان پر اعتماد نہیں
رہا۔ٹیکسوں کی بھر مار اور نئے نئے محاصل کی بھرمار ،مصنوعی قحطوں کا خطرہ
بیرونی اور اندرونی جنگوں کے اندیشے ،الغرض بظاہر ترقی یافتہ دور میں انسان
مسلسل پریشانی ،اضطراب ،تشویش اور خوف کی حالت میں گرفتار نظر آ رہا
ہے۔گھروں سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر جگہ بدگمانی،کھچاؤ کشمکش اور
تصادم کا سماں سامنے آ رہا ہے ۔انسانی دنیا پہ ابھی تک گذشتہ عالمی جنگوں
کے اثرات ختم نہیں ہوئے اور بے شمار علاقائی جنگوں کے چرکے کھا کر ابھی
سنبھلنے نہیں پائی کہ ایک اور قیامت خیز ہیبت ناک ایٹمی جنگ کی تلوار سروں
پر لہراتی ہوئی نظر آرہی ہے۔اس کے تصور ہی سے لوگوں کا سکھ چین لٹا ہوا ہے
ہر ملک دوسرے سے بدگمانی کا شکار ہے،اسلحے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت
لیجانے کا خواہاں ہے۔زندگی کا کوئی گوشہ اس فرسودہ عالمگیر نظام کی منحوس
پر چھایوں سے بچا ہوا نہیں ہے ۔موجودہ فلسفہ وحکمت سے سچائی کی روح کھو گئی
۔مذہبی طبقہ مادہ پرست طبقے کا آلہ کار بن کر ایمان کا سودا کر رہا
ہے۔سیاست کو حقیقی مذہب سے الگ کر کے اسے جذبہ خدمت اور انسان دوستی کے
جذبات سے عاری کر دیا گیا ہے ۔معیشت کے میدان میں ظالم ومظلوم طبقے پیدا کر
دئیے گئے ۔عقل ترقی کر گئی مگر جہالتوں کے ہاتھوں آدام زاد کا ناک میں دم
ہے۔دولت و وسائل کے خزانے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں مگر مخلوق خدا غریب افلاس
اور محرومی کا شکار ہے۔گوں نا گوں تنظیمیں ،سیاسی مذہبی جماعتیں ،نظریاتی
وحدتیں ،معاہداتی رابطے نمودار ہیں مگر انسانیت کو اس بحران سے نکالنے میں
بری طرح ناکامی سے دو چار ہیں۔
اب موجودہ حالات کے اندر جب اہل سیاست اور مذہب کا جائزہ لیتے ہیں تو
مایوسی اور نا امیدی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ہر مکتبہ فکر خاص طور پر
مسلمان اہل فکر اور لیڈران اپنے اپنے حلقوں اور دائروں میں بند اپنے مخصوص
گروہی اور ذاتی مفادات کے لئے سیاسی عمل میں شریک نظر آتے ہیں۔فرقہ وارانہ
تعصب ،قومیتوں کا تعصب،صوبائیت،لسانیت،نے جہاں معاشرے کو گھیر رکھا وہاں یہ
اہل نظر اس کو مزید تقویت دینے میں مصرف عمل نظر آتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو
معاشرے میں مختلف گروہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔
مثلاً مذہب کے نام پر سیاست کرنے والا گروہ مذہب کے نام پر سیاست کرتا ہے
اس کے ہاں مذہب کی جو تعریف اور تشریح ہے وہ یہ کہ اسلام ہی بہترین نظام ہے
اور اسے ہر طرح سے معاشرے پر غالب کیا جائے۔قرآن کے غلبے کی بات کرتے
ہیں۔اسلامی اقدار کی بحالی کی بات کرتے ہیں۔لیکن ان کا طرز عمل یہ ہیکہ
عصری تقاضوں سے با لکل غافل ہیںیا قصداً اس کا انکار کرتے ہیں۔ان کا ایک
مخصوص دائرہ ہے جس میں وہ مقید رہتے ہیں۔ہر مذہبی سیاسی گروہ کسی فرقے کی
نمائندگی ضرور کرتا ہے اور اس کا دائرہ کار بس وہی فرقہ اور اس کے لوگ ہوتے
ہیں کسی قدر وہ اپنے خیالات سے عام لوگوں کے جذبات کو متاثر کرنے کی کوشش
کرتے ہیں لیکن عموماً ان کا ساتھ ان کے مخصوص فرقہ والے ہی دیتے ہیں۔کچھ تو
مذہبی سیاسی گروہ تشدد کو جائز سمجھتے ہیں اور کوئی جمہوری طریقے سے اقتدار
لینے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ان گروہوں کا فکری اور نظریاتی دائرہ چونکہ اسلام
کے ایک مخصوص دائرے یا فرقہ تک محدود ہوتا ہے لہذا ان کے ذہنوں میں ایک
مسلمان فرقے کی سمائی نہیں ہوتی چہ جائیکہ کل انسانیت کی بات کریں یا اس
وسعت کا مظاہرہ کریں جو انسانیت کی فلاح کا باعث بنے۔
مولانا عبیداللہ سندھی انسانیت کی اور اجتماعیت پر مبنی سیاسی وسماجی فکر
لے کر سیاسی تبدیلی کے لئے میدان عمل میں آئے اب آپ کے سامنے صرف اور صرف
انسانیت کی بقاء تھی اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر عدل کے
نظام سے ہمکنار کرنا ہے ،نہ مذہبی تعصب ہے اور نہ فرقہ واریت ہے نہ نسلی
تعصب ہے اور نہ خاندانی گروہیت ،ایک وسعت پرواز ہے ایک ہمہ گیریت ہے ۔زندگی
کے فطری تقاضوں کی تکمیل کی بات ہے اور انسانیت کے حقیقی جوہر مادی اور
روحانی دونوں کی کما حقہ تکمیل اور برابری کی بات ہے۔نہ مصلحت ہے اور نہ
خوف اور نہ تنگ نظری۔مذہب سے محبت ہے لیکن مذہب کے نام پر تعصب سے نفرت ہے
۔دنیا کے تمام مذاہب کا احترام ہے ،زبانوں کا احترام ہے ،قوموں کا احترام
ہے نسلوں کا احترام ہے ۔لیکن یہ سب اس لئے ہے کہ یہ تمام قومیں
،نسلیں،مذاہب ،انسانیت کا حترام کریں اگر ایسی قومیت جو انسانیت کا حترام
نہ کرے باطل ہے۔ایسا مذہب جو انسانیت کو اپنے اندر نہ سمائے باطل ہے اور
ایسا نسلی اور قبائلی نظریہ جو انسانیت کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش نہ
رکھے باطل ہے اور قابل نفرت ہے۔ایسے تمام تعصبات کا خاتمہ معاشرے سے ضروری
ہے۔ مولانا کی فکر یہ تھی کہ’’ جو تعلیم عام انسانیت کے تقدم اور ترقی میں
ممدو معاون ہے وہ حق ہے۔اور جو تعلیم انسانیت کے ارتقاء میں حارج ہو،وہ
تعلیم حق نہیں ہو سکتی ان معنوں میں قرآن مجید مولانا کا عقیدہ بنا اور
قرآن کے نظام کو عملی شکل دینے کے لئے جدو جہد کرنا زندگی کا مقصد
ٹھہرا۔‘قرآن کے اصولوں پر اس دنیا میں خالص انسانیت کا قیام مولانا کا
عقیدہ ہے ان کے نزدیک ،خالص بے میل انسانیت ہی فطرۃ اللہ کی محافظ ہے اور
سچا دین اگر ہے تو یہی ہے۔‘‘(21)
زوال پذیر معاشرے میں انفرادیت کا روگ زہر قاتل ثابت ہوتا ہے ،افراد معاشرہ
میں بزدلی اور احساس کمتری پیدا ہوتی ہے مولانا سندھی اس بزدلی کی وجہ بیان
کرتے ہیں کہ’’خدا ان کو اپنی ذاتی قوتوں سے غافل کر دیتا ہے وہ اجتماعی قوت
سے کام کر سکتے تھے لیکن اس کے متعلق خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نہیں کر
سکتے کیونکہ اب وہ انفرادی الخیال(Individual minded) بن چکے ہیں۔اجتماعیت
کا خیال ان کے دلوں سے نکل چکا ہے اس لئے وہ کسی اجتماعی کام کے کرنے کا
اپنے اندر یقین ہی نہیں پاتے ۔انہوں نے اجتماعیت کو چھوڑا تو انفرادی
الخیال ہو گئے اس کے بعد رفتہ رفتہ ان میں احساس کمتری(inferiority
complex)پیدا ہو گیا جو انفرادیت پسندی(individualism)کا لازمی نتیجہ ہے اب
ان کو اس کا وہم وگمان بھی نہیں گذرتا کہ ہم بھی کوئی کام اجتماعی قوت سے
کر سکتے ہیں۔‘‘(22)
لہذا مولانا نے افراد معاشرہ کو اس بزدلی سے نکلنے کے لئے اجتماعیت کی سوچ
اپنانے کی دعوت دی ہے۔اور اجتماعیت کی سوچ اپنانے کے بعد ایک بھر پور
اجتماعیت تشکیل دینے کا نظریہ دیا ہے اور یہ سمجھایا ہے کہ ہیرو ازم کی سوچ
سے نکل کر تنظیم سازی اور جدو جہد کے راستے کو اپنایا
جائے۔کیوں کہ تنہا کوئی بھی فرد سماج کو تبدیل نہیں کر سکتا ۔لہذا انسانیت
کے سامنے قرآن حکیم ،سیرت طیبہ کو اس انداز سے پیش کیا جائے کہ سب انسانیت
اس کو اپنا نجات دہندہ اور کامیابی وخوشحالی کی ضمانت سمجھے ۔نہ کہ دہشت
گرد ،متعصب متشدد ،گروہ سمجھے۔مولانا ایک ہمہ گیر انقلاب کی دعوت دیتے
ہیں۔ان کے الفاظ ہیں:
’’یہ انقلاب تمام کائنات کے لئے بھی مفید ہے اور تمام انسانیت کے لئے بھی
اگر قرآنی انقلاب دنیا میں جائے گیر ہو جائے انسانیت کے لئے باعث ہزار رحمت
ہو گا۔اگر انسانیت ٹھیک راستہ اختیار کرے تو اس کے ماتحت حیوانات ونباتات
بھی زیادہ آرام سے رہ سکتے ہیں۔‘‘(23)گذشتہ صدی کا مطالعہ کریں تو اسلامی
دنیا میں اسی طرح کے گروہوں نے کام کیا اور ان ہی سے متعلقہ مفکرین اور
رہنماؤں کے افکار گردش میں رہے جب سے اسلامی دنیا میں انحطاط آیا ہے تو اسی
طرح کے گروہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کی ۔
یقیناً امت مسلمہ سیاسی غلامی کا شکار ہو گئی اور دور غلامی میں جو سوچ جنم
لیتی ہے اس میں ہمہ گیریت کی بجائے فقط اپنے مخصوص قوم کے مسائل اور مفادات
مدنظر رہتے ہیں ۔لہذا بیسویں صدی میں مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔اور آج
اکیسویں صدی میں بھی یہی حال ہے یقیناً مسلمانوں کو اپنے نظریات اور طرز
عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
حوالہ جات:
١۔ تارا چند،ڈاکٹر ،(ترتیب ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری)،مسلم افکار
سیاست، لاہور،مکی دار الکتب،2002ء،ص15تا16
٢۔ ۔ایضاً،ص40تا41
٣۔ ۔ایضاً،ص41
٤۔عبیداللہ سندھی،مولانا،افادات وملفوظات(مرتبہ پروفیسر سرور)لاہور،سندھ
ساگر اکیڈمی،1996ء،ص425
٥۔ایضاً،ص426
٦۔ایضاً،ص56تا66
٧۔ایضاً،ص427
٨۔ایضاً،ص427تا428
٩۔ایضاً،ص433
١٠۔ایضاً،ص434
١١۔ایضاً،ص435
١٢۔تارا چند،ڈاکٹر ،(ترتیب ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہان پوری)،مسلم افکار
سیاست،محولہ بالا،ص214
١٣۔ایضاً،ص216
١٤۔ایضاً،ص201
١٥۔ابو سلمان سندھی،ڈاکٹر،مقالات مولانا عبید اللہ سندھی
سیمینارکراچی،محولہ بالا،1994ء،ص37
١٦۔۔محمد سرور ،پروفیسر،مولانا عبید اللہ سندھی حالات ،تعلیمات،سیاسی
افکار،محولہ بالا،ص49
١٧۔۔عبید اللہ سندھی،مولانا،قرآنی شعور انقلاب،(جمع ترتیب شیخ بشیر احمد
لدھیانوی،غازی خدا بخش مرحوم) ،محولہ بالا،ص168
١٨۔۔ایضاً،ص124تا 125
١٩۔ایضاً،ص126
٢٠۔۔محمد سرور ،پروفیسر،مولانا عبید اللہ سندھی حالات ،تعلیمات،سیاسی
افکار،محولہ بالا،ص44تا 45
٢١۔ایضاً،ص43تا44
٢٢۔عبید اللہ سندھی،مولانا،قرآنی شعور انقلاب،(جمع ترتیب شیخ بشیر احمد
لدھیانوی،غازی خدا بخش مرحوم) ،محولہ بالا،ص221
٢٣۔ایضاً،ص223 |