پانامہ لیکس کے پیپرز میں مختلف ممالک کے حکومتی سربراہوں
کے خلاف اربوں روپوں کی کرپشن کے انکشافات نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کی
سیاست میں بھی زبردست بھونچال پیدا کیا جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ
(ن) کے سربراہ نواز شریف کے خلاف پاکستان کی تین سیاسی جماعتوں کے سربراہوں
پی ٹی آئی کے عمران خان،جماعت اسلامی کے سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے
شیخ رشید نے نہ صرف سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے نوا ز شریف کی کرپشن کو طشت
ازبام کیا بلکہ عوام کو ’’ گو نواز گو‘‘ کا ایسا مقبول عام نعرہ دیا جو وقت
گزرنے کے ساتھ ہر سچے پاکستانی کے دل کی دھڑکن بنتا چلا گیاجس کے بعد ان
تینوں جماعتوں کے سربراہوں نے نواز شریف کے کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے
قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے پانامہ لیکس میں نواز شریف کا نام آنے کے بعد
ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں ان کے خلاف آئین کی شق 62/63 کے تحت
نااہلی کا مقدمہ دائر کردیا۔واضح رہے کہ پاکستان کے آئین میں 62/63 کی شق
جنرل محمد ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں شامل کی گئی جس کی منظوری میں
نوازشریف اور ان کی نون لیگ پیش پیش تھی ،یہ وہی ضیاالحق تھے جنہوں نے نواز
شریف کو اپنے کندھے پر چڑھاکرسیاست کے میدان میں بڑے لیڈر کے طور پر نہ صرف
متعارف کروایا بلکہ انہیں ہر طرح کی مکمل سپورٹ بھی فراہم کی جس کی وجہ سے
ایک زمانے میں نواز شریف جنرل ضیاالحق کو اپنا روحانی اور سیاسی باپ بھی
قرار دیتے تھے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ جنرل ضیاالحق کے حوالے سے نواز شریف
کا رویہ بھی بدلتا چلا گیا اور وہ نواز شریف جو کسی زمانے میں جنرل ضیاالحق
کے گن گایا کرتے تھے انہوں نے مسلم لیگ نون کی قیادت پر اپنے پنجے گاڑنے
اور وزیراعلیٰ سے وزیراعظم بننے تک کا سفر کامیابی سے طے کرنے کے بعد اپنے
روحانی اور سیاسی باپ جنرل ضیاالحق کو اس بری طرح فراموش کیا کہ ان کی برسی
پر جانا یا آنسو بہانا تو بڑی بات ہے انہوں نے جنرل ضیاالحق کا نام تک لینا
چھوڑ دیا۔
نواز شریف کا شمار پاکستان کی سیاست میں طویل عرصہ تک برسراقتدار رہنے والے
سیاست دانوں میں ہوتا ہے جبکہ وہ پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو تین بار
وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن یہ کرپشن اور اہم اداروں اور افراد سے
ٹکراؤ کی وجہ سے تینوں بار اپنی مدت پوری نہ کرپائے اور ایوان اقتدار سے
انہیں ہر بار نکالا ہی گیا۔پہلی بار انہیں اس وقت کے صدر پاکستان غلام
اسحاق خان نے کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے اپریل 1993 میں ایوان اقتدار
سے باہر نکالا ،دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو طیارہ سازش کیس
اور حاضر سروس فوجی سربراہ کے خلاف بغاو ت میں ملوث ہونے کی وجہ سے 12 ،اکتوبر
کو اقتدار سے علیحدہ کرکے چیف ایگزیکٹو کے حیثیت سے اقتدار سنبھالا جس کے
بعد نواز شریف کو طیارہ سازش کیس کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا اور
ان پر اس کیس کے حوالے سے مقدمہ چلایا جانا باقی تھا کہ نواز شریف جوکہ خود
کو شیرکی طرح بہادر قرار دیتے ہیں کسی بھیگی بلی کی طرح پرویز مشرف سے
معافی مانگ کر 10 سال تک پاکستانی سیاست میں حصہ نہ لینے اور پاکستان واپس
نہ آنے کا تحریری معاہدہ کرکے اپنا مال و متاع سمیٹ کر اپنے اہل خانہ کے
ہمراہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں جا کر پناہ گزیں ہوگئے لیکن وہاں بھی انہوں
نے اپنی مفاد پرست ذہنیت کی وجہ سے اپنے کاروبار کو جاری و ساری رکھا یعنی
رسی جل گئی پر بل نہیں گیا،وہ تو بھلا ہو محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کا کہ
انہوں نے پرویز مشرف سے این آراو کروا کر اپنے اور نواز شریف کے وطن واپس
آنے کی راہیں ہموار کیں جس کے بعد نواز شریف ،بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق
جمہوریت نامی سیاسی ڈیل کرکے پاکستان واپس چلے آئے۔بے نظیربھٹو کو پاکستان
واپس آنے کی سزا انہیں پیشہ ور قاتلوں سے شہید کروا کر دے دی گئی جبکہ نواز
شریف جو کہ پرویز مشرف کی جانب سے دی گئی رعایت کی وجہ سے این آر او کے تحت
پاکستان واپس آچکے تھے انہیں اپنی سب سے بڑی مدمقابل ہستی محترمہ بے نظیر
بھٹو کی شہادت کے بعد ملکی سیاست میں اچانک خاصی اہمیت حاصل ہوگئی جس کے
بعد پاکستان میں 2008 میں عام انتخابات کروائے گئے تو اس میں پیپلز پارٹی
نے کافی اکثریت کے ساتھ ووٹ حاصل کر تے ہوئے خود کو اقتدار کا اہل ثابت
کردیا لیکن پیپلز پارٹی کی اس شاندار انتخابی کامیابی کا فائدہ پارٹی کی
سینئر قیادت(مخدوم امین فہیم جیسے وفادار اور اہل سیاست دانوں ) کو ملنے کی
بجائے آصف زرداری کو ملا اور وہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نام اور کارناموں
کی بنیاد پر ملنے والے انتخابی مینڈیٹ کی بدولت پیپلز پارٹی کی سربراہی اور
پھر صدر پاکستان کے اہم ترین منصب پر فائز ہوگئے جس کے بعد انہوں نے میثاق
جمہوریت معاہدے کے تحت نواز شریف کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور پاکستان
کی تاریخ میں پہلی بار ایک دوسرے کی شدید مخالف سیاسی پارٹیوں کے درمیان
دوستی اور مفاہمت کا رشتہ قائم کیا گیا تاکہ یہ دونوں پارٹیاں ہی باری باری
حکومت کرتی رہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں پہلی بار فرینڈلی اپوزیشن کا
کلچر نظر آیااورقومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت قرار دی جانے والی جماعت
پیپلز پارٹی کی جگہ حقیقی اپوزیشن کا کردار پاکستان تحریک انصاف کو ادا
کرنا پڑا اور اس پارٹی کے بانی وقائد عمران خان ہی اصل اپوزیشن لیڈر بن کر
سامنے آئے۔
پانامہ پیپرز جسے ’’پانامہ لیکس‘‘ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی اس نے دنیا بھر
کے کرپٹ سیاست دانوں کے چہرے پر چڑھے ہوئے شرافت کے نقاب کو نوچ ڈالا ۔پانامہ
لیکس کی زد میں آکر بڑے بڑے نامی گرامی سیاست دانوں اور حکمرانوں کو سیاست
وحکومت سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی ،کچھ کرپٹ شخصیات خود ہی مستعفی ہوگئیں
جبکہ کچھ ہٹ دھرموں کو عوامی تحریک کے نتیجے میں اپنے عہدوں اور مراعات سے
ہاتھ دھونے پڑے لیکن کچھ پرانے اور منجھے ہوئے کرپٹ سیاست دان اپنے اقتدار
کو بچانے کے لیئے بڑی بے شرمی کے ساتھ اپنے حکومتی عہدوں سے چمٹے رہے جس کی
بنا پر ان کے خلاف چندمحب وطن سیاست دانوں نے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم
کورٹ میں کیس دائر کیئے تاکہ ان مفاد پرست سیاست دانوں اور حکمرانوں کو ان
کی کرپشن اور جھوٹ کی سزا عدالتی فیصلے کے ذریعے دلوائی جاسکے۔پانامہ لیکس
کے نام سے مشہور ہونے والے پانامہ پیپرز کی زد میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر
اور تجربہ کار سیاست دان میاں نواز شریف جوکہ وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر
فائز تھے اور ان کا خاندان بھی آیا کہ ان کی فیملی کے افراد کو ’’ پانامہ
پیپرز‘‘ میں کرپٹ ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا جنہوں نے نامعلوم
ذرائع آمدن سے حاصل کردہ اپنی ناجائز دولت کو چھپانے کے لیئے نہ صر ف آف
شور کمپنیوں کا سہارا لیا بلکہ اپنے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے
ہوئے اپنی اولاد کے نام پر برسوں پہلے بیرون ملک مہنگی ترین جائدادیں
خریدیں جوکہ’’ منی لانڈرنگ ‘‘کے ضمرے میں آتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ
یہ تما م جائدادیں جس طریقہ کار کے تحت خریدی گئیں ان کی کوئی رسید اور منی
ٹریل شریف خاندان ،نواز شریف کی نااہلی تک ثابت نہیں کرسکا۔
پانامہ لیکس اور پانامہ پیپرز کے حوالے سے پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے
زائد عرصہ سے ایک ہنگامہ بپا تھا اور پوری قوم ایک ہیجان میں مبتلا تھی کہ
پاکستان میں عمران خان ،شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے سراج الحق کی جانب سے
پاکستا ن کے برسر اقتدار حکمران میاں نواز شریف کی کرپشن کے خلاف سپریم
کورٹ میں دائر کیئے گئے کیس کا جج صاحبان کیا فیصلہ سناتے ہیں۔؟ لیکن
پانامہ کیس کوئی چھوٹا موٹا کیس نہیں تھا جو جلد حل کرلیا جاتا یہ ایک ہائی
پروفائل کیس تھا جس میں برسراقتدار وزیراعظم نواز شریف اور ان کی فیملی کے
افراد کو کرپشن میں ملوث ہونے اور باربار جھوٹ بولنے کی وجہ سے ان کے عہدے
سے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا مقدمے کے فیصلے میں کافی
تاخیر ہوئی پھرکچھ دن بعد فیصلہ دے دیا گیا لیکن نامعلوم وجوہات کی وجہ سے
اسے قوم کے سامنے لانے کی بجائے محفوظ کرلیا گیا کہ مناسب وقت پر سنایا
جائے گا اور آخر کار 20 ،اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کے 5 جج صاحبان نے خوب
سوچ بچار اور فریقین کے دلائل کو بغور سننے کے بعد پانامہ کیس پر540 صفحات
پر مشتمل اپنا تفصیلی فیصلہ سنایا جس کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ 2 جج صاحبان
نے نواز شریف کو ان کی کرپشن اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے نااہل قرار دیتے
ہوئے کہا کہ:’’ پانامہ کیس میں سامنے والے حقائق کی روشنی میں ہم سمجھتے
ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اب صادق اور امین نہیں رہے لہذا اب ان کا
وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں رہاا ب ان کو
وزیراعظم کے عہدے سے ہٹادیا جانا چاہیئے‘‘۔ جبکہ عدالت عظمی کے 3 جج صاحبان
نے مذکورہ 2 ججوں کی رائے کو غلط قرار دیے بغیر اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے
کہا کہ :’’پانامہ کیس میں وزیراعظم اور ان کی فیملی کی جانب سے جو قطری خط
بطور منی ٹریل پیش کیا گیا وہ جھوٹ کا پلندہ ہے جسے عدالت مسترد کرتے ہوئے
میاں نواز شریف کے خلاف 7 روز میں JIT بنانے کا حکم دیتے ہوئے یہ فیصلہ
سناتی ہے کہ 60 روز کے اندر اس جے آئی ٹی کی مکمل تحقیقاتی رپورٹ عدالت
عظمی ٰ کے روبرو پیش کی جائے تاکہ ہجت تمام کرکے اس بات کا پتہ چلایا جاسکے
کے لندن کے فلیٹ کس کے پیسے سے اور کیسے خریدے گئے اس تمام معاملے کی
رسیدیں کیوں موجود نہیں ہیں اور یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ لندن فلیٹس کے
حوالے سے منی ٹریل کا کوئی ثبوت عدالت میں اب تک کیوں پیش نہیں کیا گیا ،قطری
خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں،عدالت عظمی ٰنواز
شریف کے وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہنے یا مستعفی ہونے کے حوالے سے
اپناآخری فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ پڑھنے کے بعد دے گی ‘‘۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کے خلاف 20 ،اپریل 2017 کو جو فیصلہ دیا
گیا اس کی مزید تفتیش کے لیئے سپریم کورٹ کی جانب سے نامزد کردہ جے آئی ٹی
کے ممبران نے بڑی فرض شناسی اور بے خوفی کے ساتھ پانامہ کیس کے حوالے سے
نواز شریف کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اہم شواہد اکٹھا کیئے اور
مقرررہ مدت کے اندر عدالت عظمی کے سامنے تمام حقائق کے تحریری ثبوت رکھ دیے
گئے جس میں ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹیں شامل تھیں جن کو ترتیب وار 10
حصوں میں تقسیم کرکے سیل کردیا گیا اور پھر یہ سارا سیل شدہ تحقیقی مواد
سپریم کورٹ کے حوالے کردیا گیا جس کے بعدسپریم کورٹ کے مذکورہ تمام 5 قابل
احترام جج صاحبان نے نواز شریف کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اس
تحقیقی کیس کا فائنل فیصلہ سنانے کا اعلان کیا لیکن اس سے قبل سپریم کورٹ
کی جانب سے اہم اداروں کے افراد پر مشتمل بنائی گئی جے آئی ٹی کی ٹیم کے
سامنے نواز شریف سمیت ان کے دونوں بیٹوں حسن نواز ،حسین نواز،بیٹی مریم
نواز ،داماد کیپٹن صفدر اور سمدھی اسحاق ڈار کو پیش ہوکر اپنی ذات پر لگائے
گئے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے جوابات دینے کے لیئے آنا پڑا لیکن
کئی پیشیوں کے باوجودوہ آخر دم تک منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہے جس کے
بعد سپریم کورٹ نے نواز شریف کی نااہلی سے متعلق فائنل فیصلہ سنانے کا
اعلان کیااور آخر کار28 جولائی 2017 کو وہ تاریخی دن آگیا جس دن پاکستان کی
سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی 5 ججز پر مشتمل بینچ کی جانب سے ایک سال سے
زائد عرصہ تک پانامہ کیس کے مقدمے کی سماعت اور جے آئی ٹی کی جانب سے مکمل
تحقیقات کے بعد پیش کردہ ثبوتوں کی بنیاد پرعدالت عظمیٰ کے پانچوں ججوں نے
متفقہ طور پر نواز شریف کو جھوٹ بولنے ،کرپشن کرنے اور اپنے اثاثے چھپانے
کے الزامات ثابت ہونے پر تاحیات نااہل کرکے ایک ایسی قابل تعریف وتحسین اور
قابل تقلید مثال قائم کی ہے جس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی یہی
وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچوں ججز کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کیئے
جانے کے فیصلے کا نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک مقیم سمندر پار
پاکستانیوں کی جانب سے بھی زبردست خیر مقدم کیا گیاجبکہ پپو کے پانچوں
پرچوں میں فیل ہوجانے پر قوم کی جانب سے مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں کہ
تاریخ میں پہلی باراقتدار پر قابض ایک طاقتور کرپٹ حکمران نواز شریف اور ا
س کے خاندان کو عدالتی کٹہرے میں لاکر اسے اس کے کیئے کی سزا دی گئی جس سے
عوام کی نظروں میں سپریم کورٹ کا امیج بہت زیادہ بلند ہوا اور انہوں نے
خوشیوں کے شادیانے بجائے کہ پاکستان میں اس سے قبل عام آدمی کو تو ذرا سی
کرپشن کرنے پربھی جیل کی ہوا کھانی پڑتی تھی جبکہ کرپٹ مافیا کے بڑے سیاسی
مگرمچھ کو کوئی ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کرتا تھا لیکن آفرین ہے جے آئی ٹی
کے تمام بہادر ممبران اور سپریم کورٹ کے ان پانچوں قابل احترام جج صاحبان
پر جنہوں نے کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر بہت ایمانداری اور
انتھک محنت کے بعد شریف خاندان کی کرپشن اور جھوٹ بولنے کے ثبوت اکٹھا کرکے
نواز شریف کو جھوٹا اور کرپٹ قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے سے فوری طور
پر استعفیٰ دینے کے احکامات جاری کرکے ایوان اقتدار سے باہر نکال کر وہ
زبردست اور مثالی فیصلہ کیا جس کی گونج پاکستانی سیاست اور عدالت کی تاریخ
میں ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی کہ ایسے بے مثال اور تاریخ ساز فیصلے صدیوں
یاد رکھے جاتے ہیں۔
پانامہ کیس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 جج صاحبان نے متفقہ طور پر جو
تاریخی فیصلہ دیا اس کا کریڈٹ بجاطور پر عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ ان کی
بے لوث اور انتھک محنت اور عملی جدوجہد کی وجہ سے ’’ پانامہ کیس‘‘ ایک سال
تک عوام ،میڈیا اور عدالت میں زندہ رہا ،درحقیقت پانامہ کیس کو زندہ رکھنا
ہی عمران خان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ تمام کرپٹ سیاست دانوں نے متحد ہوکر
عمران خان کی حب الوطنی پر مشتمل دلیرانہ سیاست کو ناکام بنانے کی بھرپور
کوشش کی لیکن اﷲ تعالیٰ نے سچے کا بول بالا کرتے ہوئے جھوٹے کا منہ کالا
کرکے دکھا دیا ۔عمران خان نے گزشتہ ایک سال کے دوران ’’پانامہ پیپرز‘‘ میں
نواز شریف کے کرپشن میں ملوث ہونے کے انکشافات کی بنیاد پر جس ثابت قدمی
اور مستقل مزاجی سے اس اہم ترین مسئلے کو ہر فورم پر اٹھایا اور اس کے خلاف
آواز بلند کرتے ہوئے عملی جدوجہد کی اور عدالت عظمیٰ میں نواز شریف کی
کرپشن کے خلاف کیس دائر کیا اور خود بہ نفس نفیس اس کیس کی کاروائی میں حصہ
لیا ،عوام میں کرپشن کے خلاف شعور پیدا کیا اور تمام کرپٹ سیاست دانوں کے
متحد ہوجانے کے باوجود بڑی قابلیت ،صلاحیت اور بہادری کے ساتھ پانامہ کیس
کا مقدمہ لڑا، اس نے عمران خان کو قوم کا ہیرو بنادیا جبکہ اس کیس کے حوالے
سے شیخ رشید اور سراج الحق کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں
نے بھی اس ملک کو ایک کرپٹ وزیراعظم سے نجات دلوانے کے لیئے عمران خان کے
شانہ بشانہ بھر پور جدوجہد کی جس کے نتیجے میں ہماری عدالت کے ہاتھوں
پانامہ کیس کا ایسا درست فیصلہ سامنے آیا جو نہ صرف انصاف کے اصولوں کے عین
مطابق ہے بلکہ عوامی امنگوں کا بھی آئینہ دار ہے کہ عوام نے جو امیدیں
عدالت سے لگا رکھی تھیں وہ پوری ہوئیں اور اس ملک سے منافقت ،مفاد پرستی
،جھوٹ اور کرپشن پر مبنی سیاست کے ایک شرمناک دور کا خاتمہ ہوا جس کی وجہ
سے اب امید ہوچلی ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو انشااﷲ بہت جلد ایک ایسا
معاشرہ نصیب ہوجائے گا جہاں امیر اور غریب کے لیئے ایک ہی طرح کا قانون
ہوگا اور ہمارے ملک کا شمار بھی امن و امان اورترقی و استحکام اور عدالتی
انصاف کے حوالے سے ساری دنیا میں پہچانا جائے گا کہ ’’پانامہ کیس‘‘ کوئی
عام مقدمہ نہیں تھا بلکہ اس مقدمے کے درست فیصلے سے پاکستان کے سیاسی
مستقبل کی راہوں کا تعین ہونا تھا۔ الحمدﷲ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے
اقتدار کے مراکز پر قابض کرپٹ مافیا کو جس بے خوفی کے ساتھ انصاف کے کٹہرے
میں لاکر پوری ایمانداری اور تحقیقات کے بعد جس طرح برسراقتداروزیراعظم
نوازشریف اور ان کی فیملی کے خلاف فیصلہ سنایا ہے اس نے پاکستان سمیت دنیا
بھر میں ہمارے ملک کا نام روشن کیا ہے اور ہمارے سپریم کورٹ کے پانچوں جج
صاحبان نے طاقتور کے خلاف انصاف اور قانون کی برتری کو جس طرح ثابت کیا ہے
وہ سپریم کورٹ کے ان پانچوں ججوں کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ
رکھنے کے لیے کافی ہے ۔ |