سیاست میں نئے الزامات کی انٹری

 غالب نے جگر کو رونے اور سر کو پیٹنے کی بات کی تھی، اور بندوبست کی صورت میں نوحہ گروں کو ساتھ رکھنے کا ذکر کیا تھا۔ اب بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں، میں نے بارہا سوچا کہ کالم کا عنوان ہی ’’پِٹ سیاپا‘‘ رکھ دیا جائے۔ مگر کیا کیجئے کہ صرف پٹ سیاپے سے بھی زندگی کے دن نہیں گزارے جاسکتے۔ کبھی غم سے آشنائی بھی ضروری ہوتی ہے، کبھی خوشی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو صورت یہ ہے کہ سیاسی ماحول اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ دم گھٹنے لگا ہے، سانس بھی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ ٹی وی چلالیں، یا اخبار کھول لیں، کسی تقریب میں چلے جائیں یا کسی نجی محفل میں بیٹھ لیں، گھٹن کے ماحول میں اضافہ تو ممکن ہے، کمی کا تصور بہت کم پایا جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر اینکروں کے چھیڑے ہوئے سیاستدان ایک دوسرے سے ایسے الجھتے ہیں، جیسے زندگی موت کا مسئلہ اور مرحلہ درپیش ہے، اگر مخالف کو شکست نہ دی تو خود زندہ رہنے کا جواز کھو بیٹھیں گے، ایسے ماحول میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے اگر دلائل ختم ہو جائیں، یا سرے سے موجود ہی نہ ہوں تو بات زور زور سے بولنے تک آجاتی ہے، اگر بلند آہنگی بھی کام نہ دے تو دست درازی سے کام لیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زبان درازی بھی اپنا کام دکھاتی رہتی ہے۔ دلیل کے خاتمے کے بعد گالی تک بات پہنچتی ہے، دوسروں کی برائیوں کی کھوج لگائی جاتی ہے، اور انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی حال کارکنان کا بھی ہے۔

قوم سخت ہیجان کا شکار ہے، ہر کوئی ناراض یا جذباتی ہے، سیاسی جماعتوں کی حمایت اور مخالفت میں یار لوگ آخری حدوں کو عبور کر رہے ہیں۔ برداشت کا لفظ اپنی لغت سے اپنے معانی کھونے کو ہے، الزامات کی بارش اس قدر موسلا دھار ہے کہ سب کچھ جل تھل ہو رہا ہے، بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اس بارش سے بننے والے ندی نالے سیلاب کا روپ دھارنے کو ہیں ، جن سے بہت کچھ نقصان کا اندیشہ ہے،سیلابِ بلا کیا کچھ نقصان نہیں کیا کرتے؟ کتنی جانیں پانی میں بہہ جاتی ہیں، کتنی فصلیں غرق ہو جاتی ہیں، کتنے مکان گر جاتے ہیں، کتنے مویشی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ کتنے ارمان ہیں جو یہ سیلاب بہا کر لے جاتے ہیں؟ اب خواتین میدان میں اتر آئی ہیں، قیادت کے کردار پر کیچڑ اچھالے جارہے ہیں، (اگر الزام سچ بھی ہیں تو بھی کیچڑ کی طرح ہی دامن کو داغدار کرتے ہیں)ایک خاتون نے الزام لگایا، پارلیمانی اخلاقیات کمیٹی بن گئی، دوسری کا الزام سامنے آگیا، اور کمیٹی بنا دی جائے، یا اسی کو مستقل کردیا جائے، اس کا دائرہ کار وسیع کردیا جائے۔ ایک اور خاتون سامنے آگئی، ’’کئی سالوں سے انصاف کی تلاش میں ہوں‘‘۔ گھروں میں بیٹھی بچیاں اور نوجوان بچے اپنے والدین سے معلوم کر رہے ہیں، یہ فلاں خاتون کیا مطالبہ کر رہی ہے؟ فلاں صاحب پر کیا الزام لگا رہی ہے؟ شام کو نئی خاتون، صبح کوئی اور خاتون۔ ایک کا ایک نشانہ ، دوسری کا الزام کسی دوسرے پر۔ بچوں کو کس کس کا جواب دیا جائے؟ جس بات کی خود والدین کو سمجھ نہیں آئی وہ اپنے بچوں کو کیسے مطمئن کریں۔ (اگر والدین کو سمجھ آبھی جائے تو بچوں کے مشکل اور مسلسل سوالوں کے تسلی بخش جواب دینا نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے)

سیاستدان چونکہ کسی بھی سطح تک قائد کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے اس کی ذات کے تمام پہلوؤں پر مخالفین کی نگاہ ہوتی ہے، عوام بھی اس پر نظر رکھتے ہیں۔ اپنے ہاں یہ تصور اور نصیحت عام ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی پر حملے نہیں کرنے چاہیئں، مگر یہ خیال بھی رہے کہ جو شخص خود کو قیادت کے لئے پیش کرتا ہے، اس کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہونی چاہیے، یہ نہیں کہ اگر وہ شراب پیتا ہے تو یہ اس کا ذاتی معاملہ ہے، وہ اگر مالی لحاظ سے کرپشن کا عادی ہے تو یہ اس کی نجی ضرورت ہے، وہ اگر خواتین کے معاملے میں بدنام ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ اگر اس نے یہ تمام یا اس قسم کی دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینا ہے تو پھر اسے عوام اور مخالفین کے سوالوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، اگر قیادت کا شوق پورا کرنا ہے تو برائیوں سے بچنا ہوگا، اگر یہ کام کرنے کا شوق ہے تو سیاست یا قیادت سے دستبردار ہونا چاہیے۔ ورنہ بات چل نکلی ہے تو اس کی لپیٹ میں اور بھی بہت سے لوگ آجائیں گے۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472963 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.