ستّر سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے چلیے مانا کہ قوموں کی
زندگی میں ستّر سال بہت بڑا عرصہ نہیں لیکن اتنا تھوڑا بھی نہیں کہ سمت اور
منزل کا تعین نہ کیا جاسکے لیکن افسوس کہ ہم نے ابھی تک حقیقی معنوں میں یہ
کام بھی نہیں کیا۔ہم منصوبے تو بناتے ہیں لیکن خلوص دل سے اُن پر عمل نہیں
کرتے بلکہ اگر دیکھا جائے تو تمام منصوبے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے آگے کچھ
نہیں ہوتے۔ہماری سیاسی جماعتیں جب تک حکومت میں نہیں ہوتیں انہیں غلط چیز
غلط نظر آتی ہے لیکن ایوا ن اقتدار تک پہنچ کر تمام معیار اُلٹ جاتے ہیں
تمام دعوے بھلا دیے جاتے ہیں اور صرف ایک کام رہ جاتا ہے اپنے اقتدار کی
حفاظت اور اس کے لیے ہر قسم کی جائز و ناجائزجوڑ توڑ۔ اگر اتنی ہی محنت
پاکستان کے لیے راہوں اور منزلوں کے تعین پر کی جاتی تو یہ ستّر سال بھی
آگے بڑھ جانے کے لیے کافی تھے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کا وہ خواب تھا
جس میں ان کے لیے امن ہی امن تھا، تحفظ ہی تحفظ تھا اور اس کی جدوجہد میں
کہیں نہ فرقہ تھا، نہ مسلک تھا ،نہ صوبہ تھا ،نہ زبان تھی بس ایک نظر یہ
تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن بنایا جائے اور یہی نعرہ اور
نظریہ تھا جس کے اوپر یہاں کے ہر مسلمان نے لبیک کہا اور اپنے رہنما کے
پیچھے چل پڑا۔ خون بھی بہا،عزتیں بھی لٹیں، مال اور جائیداد کی قربانی بھی
دی گئی اور انتہائی خلوص سے یہ سب کچھ کیا گیا۔ پھر وقت نے دیکھا کہ فتح نے
ان مخلص لوگوں کے قدم چومے اور انہوں نے محاورۃََ نہیں حقیقتاََ تاریخ کا
دھارا بھی موڑا اور دنیا کا نقشہ بھی تبدیل کیا انہوں ایک نئی مملکت ایک
خود مختارر ریاست کی بنیاد رکھی جہاں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار
سکیں اور یہاں رہنے والے ہر شخص کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی
گزارنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور اُس کو بحیثیت پاکستانی اِس ملک کے عام
شہری کو حاصل تمام حقوق حاصل ہوں۔اب بھی بھارت کے شدید پروپیگنڈے اور بین
الاقوامی این جی اوز کی متعصبانہ رپورٹس کے باوجود پاکستان میں پاکستانی ان
اقلیتوں کے ساتھ انتہائی نارمل اور معمول کے انداز میں رہ رہا ہے۔یہ لوگ
اپنی قابلیت کے مطابق ہر شعبہء زندگی میں کام کر رہے ہیں اور اعلیٰ عہدوں
پر بھی فائز ہیں۔ اگر کبھی اِن لوگوں کے خلاف ایکشن ہو ابھی ہے تو وہ اُن
شر پسند عناصر کے ہاتھوں ہوا ہے جو ملک کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں اور یوں
زمینی حقیقت کے مطابق اقلیتوں کے تحفظ میں پاکستان بھارت سے کہیں آگے ہے۔
اکا دکا ہونے والے واقعات میں دشمن طاقتیں مکمل طور پر ملوث ہوتی ہیں اور
یہی مداخلتیں ہماری کمزوریاں بن جاتی ہیں۔پاکستان بنانے والوں کا خلوص نیت
اور خلوص کار ہی تھا جس نے بھارت کے اس نظریے اور اُس کی اِس اُمید کو شکست
دی کہ پاکستان بن تو گیا لیکن بہت جلد اپنا وجود کھو دے گا۔ دشمن نے بھی
دیکھا اوروقت نے بھی دیکھا کہ اسے بنانے والوں نے اسے سنبھالا اور بہ حسن
وخوبی سنبھالا لیکن افسوس کہ قائد اور پھر اُن کے قافلے کے مسافر جب ساتھ
چھوڑتے گئے تو حکومت اور قیادت میں خلا پیدا ہوا جسے آج تک ہم پُر نہیں کر
سکے ہیں۔ دعوے، وعدے اور چیخ و پکار کر کے ہمارے حکمران اور سیا ستدان خود
کو عظیم رہنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔ رہنمائی کے یہی خود ساختہ اصول ہیں
جنہوں نے قوم کو آگے بڑھنے سے رُوکا ہوا ہے۔ اِن خود ساختہ رہنماوءں کے
مطابق ترقی کا پہلا اصول یہ ہے کہ اُن کی حکومت چلتی رہے اور بس چلتی ہی
رہے ،جس دن اُن کی حکومت ختم ہو وہ اپنے کارکنوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑا
کر انہیں ریاستی املاک کی توڑ پھوڑ پر لگا دیتے ہیں اور انتہائی افسوس کی
بات یہ ہے کہ اس کی قیادت خود یہ رہنما کرتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو
اپنے عظیم کارکن قرار دیتے ہیں ۔دوسرا اصول ترقی کا یہ قرار دیا جاتا ہے کہ
حکومت ان ہی کے خاندان میں چلتی رہے باپ سے بیٹے یا بیٹی اور پوتے یا نواسے
کو منتقل ہوتی رہے اس کے لیے اہلیت کی کوئی شرط نہیں اہلیت کی شرط صرف اور
صرف حکمرانوں کی اولاد ہونا ہے، اور ایک اصول یہ بھی ہے کہ اسی نسل در نسل
منتقل ہوتی حکومت کو جمہوریت کا تسلسل قرار دیا جائے جہاں خاندان کا یہ
تسلسل ٹوٹے ادھر ہی جمہوریت کے وجود کو خطرہ لا حق ہو جاتا ہے یعنی یہی
بادشاہت ہی دراصل جمہوریت ٹھہرتی ہے۔ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت کو
بہتر کہاجاتا ہے اور اس ’’ افلاطونی‘‘قول کو سیاستدانوں کی فہم وفراست کا
آئینہ دار قرار دیا جاتا ہے ۔بلا شبہ کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے لیکن
پہلے جمہوریت کی معنی اور اس کی تعریف تو سمجھ لی جائے یہ لوگوں کی، لوگوں
کے لیے، لوگوں کے اوپرحکومت ہے اور جب تینوں درجات میں ’’لوگ‘‘ یعنی انسان
ہی ہوں تو پھر حکومت ،حکومت نہیں خدمت بن جاتی ہے اور خدمت ہی دراصل عظمت
ہے لیکن ہمارے نکتہ ور اور نکتہ دان ’’بڑے‘‘بس اسی نکتے کو سمجھنے سے قاصر
اور اپنانے سے گریزاں ہیں۔جو حکومت کی کرسی پر بیٹھاوہ بھی اور جو افسری کی
کرسی پر براجمان ہوا وہ بھی اور جو عام آدمی ہے وہ بھی اپنی ذمہ دار یاں
ادا کرنے پر آمادہ نہیں نہ اُسے ملکی وسائل سے غرض ہے نہ ذرائع سے اور نہ
ترقی سے وہ بھی اپنے رہنماوءں کی طرح ہر طرف سے مالی فوائد حاصل کرنے کی
کوشش میں مصروف ہے۔ جائز ناجائز یا حلال اور حرام کی کوئی تخصیص نہیں بس
آئے جہاں سے بھی آئے۔ مانا کہ اس میں اُن کی مجبوریوں کا بھی دخل ہے انہیں
کھانے روٹی کا بھی بندوبست کرنا ہے ،تعلیم کا بھی ،رہن سہن کا بھی اور علاج
معالجے کا بھی اور اس کے لیے انہیں پیسہ چاہیے ، یہ بالکل درست ہے لیکن
قناعت پسندی کا معاشرے سے رخصت ہو جانا بھی ایک المیہ ہے جس نے دولت کمانے
کی ایک دوڑ شروع کر رکھی ہے اور ہر ایک اس میں شرکت کرنے اور اسے جیتنے کے
لیے کسی بھی قسم کے بند سے آزاد ہوا جا رہا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم میں سے شاید
چند مخلص لوگوں کے علاوہ ہر ایک صرف اپنی ذات کے اندر اپنی ذات کے لیے جیتا
ہے ملک ان کی تر جیحات میں کہیں بہت پیچھے ہے ۔ مسئلہ اوپر سے نیچے تک ہے
عوام ان بڑے لوگوں کے جلسوں میں چند سو روپوں یا صرف بریانی کھانے کے لیے
بھنگڑے ڈالتے ہیں کبھی انہوں نے پلٹ کر سختی سے نہیں پوچھا کہ آخر ہمارے
ووٹ کا تم نے کتنا حق ادا کیا۔
یوم آزادی ہم بڑی خوشی اور جذبے سے مناتے ہیں اور یہ اس دن کا ہم پر حق بھی
ہے لیکن اس چودہ اگست کو منانے کی بجائے اگر ہم خود سے سوال کریں اپنی
عدالت میں بیٹھیں اپنا آئینہ اپنے سامنے رکھیں تو شاید ہم اپنی جواب دہی
خودکو بھی نہ کر سکیں لیکن ہمیں ایسا کرنا ہو گا اور جس دن ہم اپنی جواب
دہی کر لیں تو بہتری کی صورت نہ نکلنے کی کوئی وجہ نہیں۔لہٰذا حکمرانوں سے،
سیاستدانوں سے، افسروں سے اور عوام سے عاجزانہ درخواست ہے دست بستہ گزارش
ہے کہ خدارا اپنے آپ کو سدھارنے کی کوشش کریں جھنڈے اور جھنڈیاں لگانا بھی
اچھا ہے کم از کم مجھے ذاتی طور پر پسند بھی ہے کہ ہماری نئی نسل ہم سے
پوچھتی تو ہے کہ چودہ اگست کو کیا ہوا تھا اور ہم میں سے کئی سارے تفصیلاََ
یا مختصراََ وہ کہانی دہرادیتے ہیں جس میں ہمارے بزرگوں کی ہمت کی داستان
اور ان کے خون کے چھینٹے پائے جاتے ہیں کہ کیسے انہوں نے غاصب انگریز
حکمرانوں اور ظالم ومکار ہندو ہمسائے کو شکست دے دی تھی اور وہ بھی ایسے کہ
خا لی ہاتھ تھے اور تعداد بھی دشمن کے مقابلے میں تھوڑی تھی لیکن ہمت اور
ارادہ بہت بڑا تھا اور جسمانی طور پر ایک کمزور شخص اُن کے آگے چٹان کی طرح
اُن کا قائد بن کر کھڑا تھا تو شاید نئی نسل میں کم ہی سہی کچھ تو سوچتے
ہیں کہ اب ایسا کیوں نہیں اور یہی ’’اب ایسا کیوں نہیں‘‘ مستقبل کی ایک
اُمید بن جاتی ہے۔لیکن ان جھنڈوں اور جھنڈیوں کے ساتھ اگر اپنی ’’خلوص نیت
اور خلوص کار‘‘ کوبھی شامل کر لیا جائے تو حق تب ہی ادا ہوگا ورنہ قائد کا
پاکستان اسی طرح بے بسی کی تصویر بنا رہے گا،طالبان، دہشت گرد،دشمن اورسب
سے بڑھ کر اپنے حکمران اور تمام کرسی نشین اسے لوٹتے رہیں گے اور ہم عوام
تیسری دنیا کے ایک ملک کے شہری کہلاتے رہیں گے اور تیسری دنیا کے ملک کے
شہری بھی تیسرے درجے کے ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس چودہ اگست کو اُٹھیے خود سے
بھی سوال کیجیے اور اپنے’’ بڑوں ‘‘سے بھی، اور جواب کے حصول تک سوال کرتے
رہیے جواب بھی آئے گا اور بہتری بھی، انشاء اللہ۔ |