نا اہلی کے بعد میاں نواز شریف کی ریلی جو 9اگست کو اسلام
آباد سے لاہور کے لیے روانہ ہوئی تھی جی ٹی روڈ پر چھوٹے موٹے شہر وں میں
اپنی آب وتاب دکھاتی ، بل کھاتی، ڈگماتی، لہراتی، نہ اہل کرنے والوں کو برا
بھلا کہتی ایک معصوم بچے کی جان لیتی ہوئی میاں صاحب کے گھر لاہور پہنچ گئی،
جہاں پر میاں صاحب نے اختتامی خطاب کیا۔ خطاب کیا تھا جو باتیں وہ اپنی نہ
اہلی کے بعد سے کہتے چلے آرہے تھے انہیں باتوکوزیادہ غصے میں اورزیادہ شدت
کے ساتھ دہرانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ البتہ اپنا لائحہ عمل یا آئندہ کا
پروگرام 14اگست کو دینے کی نوید سنائی۔ یہ تاریخ بہت دور نہیں ، جو پروگرام
آج نہیں وہ دو دن بعد کہا سے آجائے گا، اس تاریخ کو آگے بڑھایا جانے کے قوی
امکانات ہیں۔ میاں صاحب کو سب سے زیادہ غصہ اپنے نہ اہل ہونے پر ہے، وہ
دوران سفر تقریروں میں ریلی میں شامل لوگوں سے پوچھتے رہے کہ بتاؤ مجھے نہ
اہل کیوں کیا؟ بتاؤ مجھے نہ اہل کیوں کیا؟ ٹی وی اینکر وسیم بادامی کے بقول
بہت ہی معصومانہ سوال اپنی پارٹی کے ورکروں سے بار بار پوچھا لیکن کسی نے
اس کا جواب تو نہیں دیا البتہ وزیر’ اعظم نواز شریف ‘کا نعرہ لگاتے رہے اور
میاں صاحب اس نعرہ کو سن سن کر اپنا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جب یہ نعرہ لگتا وہ
خاموش ہوجاتے محسوس ہوتا تھا کہ اس نعرے سے انہیں خوشی محسوس ہورہی ہے،
ہونی بھی چاہیے ، آخر تیسری بار وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر گزشتہ چار سال سے
زیادہ عرصے سے براجمان تھے۔ پل بھر میں ہیرو سے زیرو بن گئے افسوس کی بات
تو بنتی ہے۔ افسوس اپنی جگہ لیکن یہ سب کچھ آنن فانن نہیں ہوا ، 1999کی طرح
پرویز مشرف نے میاں صاحب کوچلتا نہیں کیا، کوئی سواسال عدالت میں پاناما
کیس کی کاروئی ہوئی، جے آئی ٹی بنی ،سپریم کورٹ کے دو معزز ججوں کا فیصلہ
دیدینا کہ میاں صاحب صادق اورامین نہیں ، یہ وہ وقت تھا کہ جب میاں صاحب کے
لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی تھی ، میاں صاحب کو، ان کے خاندان کو، نون لیگ کو
سمجھ جانا چاہیے تھا کہ معاملہ کس طرف جارہا ہے لیکن میاں صاحب کے درباری
انہیں سب اچھا ہے سب اچھا ہے کے خواب دکھاتے رہے۔ وہ از خود عرصہ دراز سے
سیاست میں ہیں انہیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ جب سپریم کورٹ کے دو معزز ججوں
نے واضح طور پر آپ کے خلاف فیصلہ دیدیا تو باقی تین نے تو اہتمام ہجت کے
لیے ، آپ کی تسلی و تشفی کے لیے تحقیقات جے آئی ٹی کے ذریعہ کرانے کا فیصلہ
کیا، جے آئی ٹی کی کاروائی جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی معمولی سیاسی سمجھ
بوجھ رکھنے والے یہ محسوس کر رہے تھے کہ معاملہ میاں صاحب کی نہ اہلی کی
جانب جارہا ہے لیکن درباریوں کی آنکھوں پر شریف خاندان کی چاپلوسی کی پٹی
بندھی ہوئی تھی انہیں کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا وہ اور میاں صاحب ، ان کا
خاندان ، نون لیگ سمجھ رہی تھی کہ میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں
، طاقت ور ہیں، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ خوش فہمی میاں صاحب اور ان
کے حواریوں کو لے ڈوبی۔
نا اہلی کے بعد میاں صاحب کی کیفیت اس مچھلی کی سی ہے جسے سمندر سے نکال کر
خشکی پر ڈال دیا جائے اس وقت اس کی جو کیفیت ہوتی ہے میاں صاحب اس وقت اسی
کیفیت کا شکار ہیں۔ باقی تمام درباری خوش بلکہ زیادہ خوش ہیں، بعض کو تو
درباری ہونے کا انعام وزارت کی صورت میں مل بھی گیا۔ ایسے درباری بھی ہیں
جو نہ اہلی کے بعد اس وقت تک ٹاک شوز میں نہیں آئے جب تک انہیں وزارت نہیں
مل گئی۔ میاں صاحب کی لاہور آمد کے دوران ایک افسوس ناک واقعہ یہ پیش آیا
کہ میاں صاحب کے قافلے کی ایک گاڑی کے پہیوں کے نیچے آکر ایک معصوم بچہ دم
توڑ گیا۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ میاں صاحب کے قافلے میں
سے کسی ایک نے بھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ انہوں نے ایک معصوم کی جان لے لی
ہے، میاں صاحب کے قافلے میں بے شمار گاڑیاں ، فائر بریگیٹ ، ایمبولنسز بھی
تھیں لیکن وہ سب کی سب صرف ایک نہ اہل شخص کی حفاظت پر معمور تھیں۔ میاں
صاحب نے اپنی کسی تقریر میں اس معصوم کا ذکر تک نہیں کیا، نون لیگ کا کوئی
لیڈر اس معصوم بچے کے ماں باپ سے افسوس کے دو بول تک بولنے نہیں گیا۔ میاں
صاحب آپ جس مشکل میں آچکے ہیں ۔ ان میں کچھ تو آپ کی پالیسیوں کا دخل ہے ،
کچھ کام آپ کے درباریوں نے دکھایا، کچھ اس قسم کے گناہوں کوبھی دخل ہے جیسے
یہ معصوم بچہ آپ کی خاطر اپنی جان سے چلا گیا۔افسو کرنے کے بجا ئے کہا گیا
کہ’ جمہوریت کے لیے پہلی قربانی ہے‘،’ ایسے واقعات تو ہوتے ہیں‘، افسو س صد
افسوس اس قسم کے جملے ادا کرنے والوں پر۔ میاں صاحب کی تقریر سے ظاہر ہورہا
تھا کہ جیسے پاکستان کی حزب اختلاف کا کوئی لیڈر تقریر کررہا ہو، میاں صاحب
آپ چار سال سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں تھے، کچھ ماہ باقی ہیں آپ کے
اقتدار کو ختم ہونے میں ، اس طویل عرصے میںآپ نے کیا کیا، نہ اہل ہونے کے
بعد آپ کو خیال آیا کہ اس ملک میں 80فیصد لوگوں کے پاس سر چھپانے کو گھر
نہیں ، آپ اقتدار میں آکر انہیں گھر دیں گے۔ اب تک آپ سو رہے تھے۔ آپ تینوں
دور اقتدار کا تجزیہ ایمانداری سے کریں ، آپ نے وہ منصوبے اس قوم کو دیے جو
ظاہری طور پر لوگوں کو نظر آتے ہیں، جیسے موٹر وے، اورنج ٹرین وغیرہ ، یہ
تو دیکھیں کہ بجلی کا سرکلر ڈیبٹ 800ارب ہوچکا ہے، تجارتی خسارہ 30ارب ڈالر
ہوگیا ہے، غیر ملکی قرضے آپ کے سمدھی نے کہا سے کہا پہنچادیے ہیں ، میاں
صاحب پاکستان کے بیرونی قرضے 80ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکے ہیں، آپ نے اس
قوم کے ہاتھ میں کشکول تھمادیا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے کم از کم قرضوں سے
پاکستان کو نجات ضرور دلادی تھی، خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے
پاکستانی 40فیصد ہیں، دہشت گردی کی صورت حال کا اندازہ آپ کو اس بات سے
ہوجانا چاہیے کہ اپنی ریلی میں آپ نے بم پروف کنٹینر میں سفر کیا، لاہور
میں آپ گولی پروف شیشے کے پیچھے سے خطاب کر رہے تھے، جب آپ تقریر فرما رہے
تھے کوئٹہ میں 15 سے زیادہ فوجی دہشت گردی کا شکار ہوچکے تھے۔ کون سا شعبہ
ایسا ہے جس میں آپ کے دور اقتدار میں ترقی ہوئی۔ اب نہ اہل ہونے کے بعد آپ
ملک میں دودھ کی نہریں بہادیں گے ۔ اب تک کیا کرتے رہے۔ نہ اہل ہونے کے بعد
آپ کو صرف پنجاب نظر آیا، لاہور دکھائی دیا، آپ لاہور کی ترقی کی مثالیں دے
رہے ہیں ، لاہور کی ترقی سے آپ کی کارکردگی کا کوئی تعلق نہیں ،میاں شہباز
شریف کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ آپ کو کراچی نظردکھائی نہیں دیا، آپ کو کوئٹہ
نظر نہیں آیا، کوئی اور شہر نظر نہیں آیا آپ پورے پاکستان کے وزیر اعظم
تھے، آپ لاہور کے وزیر اعظم نہیں تھے۔ وجہ صرف یہ کہ آپ کو معلوم ہے کہ
پنجاب کو قابو کرنے کا مطلب پاکستان کی وزارت اعظمیٰ کو قابو کر لینا ہے۔
میاں صاحب مورخ بے رحم ہوتا ہے، تاریخ قلم بند ہوگی تو اس میں آپ کے لیے
یہی لکھا جائے گا کہ آپ نے ہمیشہ پنجاب کو قابو کیا اور حکومت کی، حکومت
میں آکر آپ سب کچھ بھلا بیٹھتے ہیں۔زرا سوچیں پہلی مرتبہ کیا صدر مملکت نے
آپ کو پھولوں کے ہار پہنا کا ایوان وزیر اعظم سے رخصت کیا تھا ؟نہیں ، آپ
کے خلاف ایک لمبی چارج شیٹ تھی بد عنوانی کی ، وہ بھی نہ اہلی تھی، دوسری
بار آپ کو فوج کے سربراہ نے رخصت کیا ، کیا اس نے پھولوں کے ہار پہنائے
تھے؟ ، اللہ بھلا کرے آپ کے سعودی دوستوں کا جنہوں نے آپ کو کال کوٹھری سے
شاہی محلوں میں منتقل کرایا، فوج سے اختلاف آپ کے مزاج کا حصہ ہے، جنرل
پرویز مشرف کی موجودگی میں آپ نے فوج کانیا سربراہ مقرر کردیا۔ فوج ایک
ڈسیپلن ادارہ ہے۔ اب تیسری بار آپ کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے پانچ معزز
ججوں نے نہ اہل قرار دے دیا، وجہ انہوں نے جو بھی بیان کی ، پانچوں نے
متفقہ طور پر آپ کو نہ اہل قرار دیا ۔ فیصلہ تو آپ نے قبول کرنا تھااور
کیا۔ جب فیصلہ آپ نے قبول کر لیا تو بہتر یہ تھا کہ خاموشی سے گھر بیٹھ
جاتے ، اب یہ تماشہ کرنے، پانچ پانچ اور پانچ نے نہ اہل کیا کی رٹ لگانے
اور ان کو برا بھلا کہنے پر آپ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ عسکری قوت
کو بھی نہیں بخش رہے۔ آج ہی کا بیان ہے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید
باجوہ کا جو انہوں نے تیمر گرہ میں شہید ہونے والے میجر علی سلمان کے گھر
آمد پر دیا کہ ’’کوئی بھی قربانی دینی پڑے امن اور قانون کی حکمرانی بحال
کریں گے‘‘۔ آپ کے خلاف نیب میں مقدمات کھلنے جارہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب
بھی جلد نیب ریفرنس کا مقابلہ کریں گے۔ آپ کو سوچ سمجھ کر حکمت عملی اپنانی
چاہیے۔ اب آپ 40سال کے جوان نہیں ہیں، بائی پاس آپ کا ہوچکا ہے، آپ ساتویں
دیہائی کو چھورہے ہیں، اب وہ اسٹیمنا ، وہ جوش، وہ طاقت، وہ ولولہ اب آپ
میں موجود نہیں ، لاہور کی تقریر سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ بوڑھا شیر مشکل
سے بول رہا ہے۔ آپ کا انداز جارہانہ تھا، پراثر نہیں، آپ مصنوعی لب و لہجہ
لیے ہوئے تھے۔ دور نہ جائیں 2013والا نواز شریف بھی اس تقریر میں نظر نہیں
آیا۔آپ نے نیا پاکستان بنا نے کی بات کی ، جس میں کوئی وزن نہیں، آپ نے
انقلاب کی بات کی ، آپ کے اندر انقلاب لانے والا جوش و جذبہ دکھا ئی نہیں
دیا۔ آپ کے ساتھیوں کو وزارتیں چاہیے تھیں وہ انہیں مل چکیں۔ جنہیں نہیں
ملیں وہ اندرہی اندر نظر یں دوڑارہے ہیں انہیں جہاں سے ہری بتی نظر آئی
کھسک لیں گے۔ اب بھی وقت ہے اپنی حکمت عملی سوچ سمجھ کر بنائیں۔ حالات کے
ہاتھوں آپ آگے پیچھے، دائیں بائیں سے نرغے میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
شکنجہ تنگ ہوتا نظر آرہا ہے۔بادل گہرے ہورہے ہیں، اپنی زبان کو سنبھال کر
استعمال کریں۔ ماضی میں بھی آپ عدلیہ سے ٹکر اچکے ہیں۔ عدلیہ اور افواج
پاکستان ملک کے ایسے معزز اور محترم ادارے ہیں کہ جن کا احترام ہر صورت ہر
ایک پر لازم ہے۔(13 اگست2017) |