نظریہ پاکستان !پوری قوم

۱۴ اگست آنے کو ہے ، ملک کے طول و عرض میں جشن ِ آزادی منانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں ۔ جا بجا ملکی پرچموں کی خرید و فروخت جاری ہے ۔ تقریبا ت کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے ۔

اگر ملکی سیاسی فضا ء کو دیکھا جائے تو وزیراعظم نا اہل ہو چکے ہیں اور لاہور کی جانب ان کا قافلہ رواں دواں ہے ۔ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پریہ قافلہ جہاں جہاں سے گزر رہا ہے وہاں پر طویل وقت کے لیے روٹ لگائے جا رہے ہیں ۔

عوام کی حالت زار کچھ ملاحظہ ہو ! ابھی کل سابق وزیر اعظم کا قافلہ مری سے روانہ ہو ا۔ اس قافلے کو جی ٹی روڈ سے گزرنا تھا جس کا روٹ بعد میں تبدیل کرکے مری روڈ کی جانب کر دیا گیا۔ قافلہ کے باحفاظت سفر کو یقینی بنانے کے لیے تمام ذیلی سڑکوں کو بند کر دیا گیا ۔ گرمی اور حبس کے موسم میں عوام جن کا ان سڑکوں سے سفر ناگزیر تھا نہایت مشکل کا شکار رہے ۔ گرمی کا یہ عالم تھا کہ پسینے میں شرابور ڈرائیور رش سے گاڑی نکالنے کے چکر میں موٹر سائیکل سوار کو جا ٹکرایا ، پھر کار سے نکل کر موٹر سائیکل سوار اور کار کا ڈرائیور ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے ، سڑک پر ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا ۔ اسی سڑک پر ایک ایمبولینس بھی اسی رش میں پھنسی ہوئی تھی ۔ جس کو اس روٹ میں کھڑے دو گھنٹے گزر چکے تھے ، مریض تکلیف سے کراہ رہا تھا ، لواحقین زار وقطار رو رہے تھے ۔ ایمبولینس کا ڈرسائیور گاڑی کو چلانے میں ناکام نظر آتا تھا۔نہ جانے وہ مریض زندہ رہ پایا ہوگا یا پھر موت نے اس کو گلے لگا لیا ہو گا۔ جب میڈیا نے اس ایمبولینس کی وڈیو بنانے کی کوشش کی تو اس سیاسی پارٹی کے کارکنان نے رپورٹروں کو مارا پیٹا ۔آدھے گھنٹے کا سفر تین گھنٹوں پر محیط ہو گیا تھا ۔ خود کو عوام کا حصہ کہنے والے یہ سیاست دان عوام کا اتنا بھی خیال نہیں رکھ پاتے کہ اگر کوئی جلسہ جلوس ہو بھی تو راہ گیروں اور مریضوں کو تکلیف نہ ہو ۔ اس ریلی کی ضرورت کیا تھی اکثر و بیشتر افراد سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہو رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کیا یہ تھی وہ تعبیر اس خواب کی جو دو کروڑ مسلمانوں نے دیکھا تھا جس خطہ ء زمین کو حاصل کے لیے نہ جانے کتنے ہی لقمہء اجل بن گئے ۔ نہ جانے کتنوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ہجرت کی ۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت وجود میں آئی ۔ نہ جانے کتنی ہی عزتیں لٹیں اور عزتوں کی امین ان گنت بیٹیوں نے کنوؤں میں کود کر اپنی جان دی ۔ میرے ذہن میں وہ مناظر بھی تازہ ہو گئے جب ٹرینوں سے سفر کرنے والوں کو راستے میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا ، پھر مہاجر کیمپوں میں لوگوں کی کسمپرسی سے بھر پوراور بے آسرا زندگیا ں ۔ کیا انھوں نے یہ سب اس لیے برداشت کیا تھا کہ جب یہ ملک اس قابل ہو جائے کہ دنیا میں اس کا ایک نام ہو اس وقت یہاں کی اشرافیہ اس حد تک گر جائے کہ ملک کو قرضوں میں ڈبو کر اپنی تجویریاں بھر لی جائیں ؟ ۔یقینا نہیں ۔ یہ ارض وطن اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں مسلمان اپنی زندگیاں سکوں سے گزار سکیں اور یہاں قانون سب کے لیے یکساں ہو ۔ کوئی امیر یا غریب کے فرق کو نہ دیکھے ۔

شومئی قسمت ! اس ملک پر بے حس حکمران نافذ رہے ۔ حکمرانوں کی بے حسی کا عالم دیکھیے کہ ارض وطن کے بچے پیاس سے بلک بلک کر جا ن دیتے رہے ، ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے مریض سڑکوں پر سسک سسک کر مرتے رہے تو دوسری جانب ان لاشوں پر ناچنے والے فسٹیول مناتے رہے ، جو ذمہ دار تھے وہ ملکی دولت کو سوئس بینکوں میں بھرتے رہے یا آف شور کمپنیاں بناتے رہے ۔اگر احتساب کرنے کی کوشش کی جائے تو جمہوریت کو خطرہ درپیش ہو جاتا ہے ۔انصاف اور قانون کی پاسداری کا یہ عالم ہے کہ دن دہاڑے ایک وڈیرے کا بیٹا کسی کی جان لیتا ہے ، چند ماہ بعد اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ملک کی سیکیورٹی کا یہ حال ہے کہ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور فوج کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پورے ملک میں آپریشن کرنا پڑ رہا ہے ۔پولیس کا ادارہ، سیاست کی نظر ہو اپاہج ہو چکاہے ۔صر ف پولیس ہی نہیں ملک کے بیشتر سرکاری ادارے کرپشن کی نظر ہو کر تباہ ہو چکے ہیں ۔ کرپشن کی بدولت دنیا کی بہترین ہوائی سروس پی آئی اے ہو یاطویل ترین ریلوے کا نظام ، نہری نظام ہو یا ڈیم ، تمام اداروں کا حال ابتر ہے۔ بعض ملکی اداروں کو اونے پونے داموں غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کر دیا گیا ہے ۔

پاکستان کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیجیئے ۔ کس بے سروسامانی کے عالم میں اس ملک کی گاڑی کو چلایا گیا ۔ماضی کے سیاست دانوں اورحال کے سیاست دانوں کا فرق دیکھئیے !ملک کے بانی اپنی ا جرت ایک عام مزدور کے برابر مقرر کرتے ہیں ۔سرکاری خزانے سے محترمہ فاطمہ جناح کے لیے لائی جانے والی کرسی کو واپس بھجوا دیا جاتا ہے جبکہ آج کے سیاست دانوں کی تنخواہیں اور مراعات اس قدر ہیں کہ اگر ان کو جمع کیا جائے تو ملک کا تمام تر قرضہ اتارا جا سکتا ہے ۔یہاں تک کہ اگرکوئی سیاست دان ایک دن کے لیے بھی وزارتِ عظمی پر براجمان ہو جائے تب بھی اس کی مراعات تا حیات جاری رہتی ہیں ۔بانیِ پاکستان دن رات بیماری کے باوجود کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسی ان تھک محنت میں وہ اپنی جان مالک ِ حقیقی کے سپرد کر دیتے ہیں جبکہ اگر آج کے سیاست دانوں کو کوئی تکلیف پہنچے یا انھیں کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑے تو وہ اپنا علاج بیرون ِملک سے کروانا پسند کرتے ہیں ۔عوام ذہنی طور پر اتنی مفلوج ہو چکی ہے کہ سیاست دانوں کے ایک سرکاری دورے پر ملکی خزانے پرپڑھنے والے بوجھ کے متعلقسوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا ۔

سیاست کا مطلب خدمت ہے لیکن دورِحاضر کی سیاست مادیت کی ہوس و لالچ کی عکاس ہے ۔ ملکی ترقی صرف اور صرف نعروں اور بیانات کی حد تک محدود رہتے ہیں ۔ بیورکریسی کی طرف سے ملک کی خدمت کرپشن اور عوام الناس کی تذلیل ہے ۔

واضع رہے ! پاکستان بنانے میں کسی فوج کا ، کسی بیوروکریٹ کا ہاتھ نہیں تھا ۔ پاکستان اگر بنا تھا تو جمہوریت اور سیاست دانوں کی نیک نیتی کی وجہ سے ۔اس وقت کے سیاست دانوں کے پیش ِ نظر خدمت کا ایک جذبہ تھا ۔پاکستان کے حصول کے دوران جانیں اور عزتیں گوانے والے اگر آج یہاں لوٹ آئیں تو یقینا انھیں ایک بہت بڑا دھچکا لگے گا ۔ ہم اس خون ، اس تکلیف کے گناہگار ہیں ۔ کیونکہ ہم نے اس ملک کی قدر اس طرح سے نہیں کی جس طرح سے کرنا چاہیے تھی ۔

خود کو قائد اعظم کا وارث گرداننے والوں نے ان کے اوصاف وراثت میں نہیں لیے ۔اگر ہم قائد کے وارث ہیں تو ہمیں ان کے نقش ِ قدم پر چلنا ہو گا ۔
 

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 149952 views i write what i feel .. View More