عین اس وقت جب میاں نواز شریف کی ریلی ایک سو تیس کلومیٹر
فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹر وے پولیس کے قوانین توڑتی، راستے میں آنے والے
ٹول پلازوں کو روندتی ہواؤں میں اُڑی جارہی تھی، اسی لمحے اسلام آباد کے
ایوانِ صدر میں ایک خوبصورت، پروقار تقریب منعقد ہورہی تھی، جس میں صدر
مملکت نے تو موجود ہونا ہی تھا، وزیراعظم شاہد عباسی اور بہت سے دیگر اہم
لوگ موجود تھے، یہ حلف برداری کی تقریب تھی، چار وزراء حلف اٹھانے آئے تھے،
جس کی خاص اہمیت یہ بھی تھی کہ دانیال عزیز نے اپنی خدمات کا صلہ کم پا کر
وزیر مملکت بننے سے انکار کردیا تھا، سو اب انہیں پورا وزیر بنا دیا گیا ہے۔
وزیر بن جانے کے بعد یقینا وہ ریلی سے جاملیں گے اور اپنی خدمات کا سلسلہ
ایک مرتبہ پھر شروع کریں گے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسمبلی کا اجلاس بھی
میاں صاحب کی ریلی کے بعد طلب کر لیا جاتا، مگر بے وقت اجلاس بلا کر اسے
ملتوی کرنا پڑا۔ ن لیگ کے وزراء اور ارکان اسمبلی اجلاس میں تشریف ہی نہیں
لائے، اگلے روز چند آئے،مگر کورم پورا کرنے میں ناکامی پر اجلاس ملتوی کرنا
پڑا۔ کوئی کارروائی ممکن نہ ہو سکی۔ اسمبلی کا ناکام اجلاس تو ملتوی ہوگیا،
مگر تمام ارکان کا گھر بیٹھے ہی ٹی اے ڈی اے تو بن گیا، قومی خزانے کو چند
لاکھ کا ٹیکہ تو لگ گیا۔ یہاں لاکھوں کا حساب کون رکھتا ہے، ریلی پر سرکاری
وسائل کی مد میں کروڑوں کا نسخہ بنے گا، مگر ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر کون
توجہ دیتا ہے، اپنی نگاہیں تو عظیم تر مقاصد پر لگی ہوتی ہیں۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی گھرواپسی ریلی میں کتنے لوگ تھے، اس بات
کا اندازہ لگانے کے لئے حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے بیانات سے لگایا
جاسکتا ہے۔ ایک طرف یہ بیان ہیں کہ’’․․ ٹھاٹھیں مارتا عوام کا سمندر تھا،
شہروں کے شہر ’’آئی لوّ یو نوازشریف‘‘ اور ’’شیر آیا، شیر آیا‘‘ سے گونج
رہے تھے․․‘‘۔ دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ ’’․․ لوگ اکٹھے نہیں ہوئے، شو
فلاپ ہوگیا، اتنے لوگ تو قربانی کے لئے لگائی جانے والی منڈی میں بھی اکٹھے
ہو جاتے ہیں․․‘‘۔ سرکاری وسائل کے استعمال پر بھی تنقید ہورہی ہے، پروٹوکول
کے لئے بند کی جانے والی سڑکوں پر پریشان مسافروں کے اعتراضات بھی سامنے
آرہے ہیں، تاجر طبقے بھی معترض ہیں۔ ریلی میں جتنے لوگ بھی ہیں، مگر جب
میاں صاحب کے کارواں کی رفتار ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر گئی،
گاڑیاں جرنیلی سڑک پر ہوا سے باتیں کرنے لگیں تو تشویش کی لہر ضرور دوڑ گئی،
جگہ جگہ استقبال کے لئے کچھ نہ کچھ لوگ موجود تھے، مگر انہیں نظر انداز
کردیا گیا۔ یار لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ضرور کوئی اشارہ ملا ہے، سکیورٹی
کے معاملات میں کہیں پریشانی ہوئی ہے۔ اسی مرحلے کو مخالفین نے ریلی کے
شرکاء کی عدم دستیابی قرار دیا، کہ لوگ ہی نہیں تھے، رفتار کم کس کے لئے
ہوتی۔ آزادی رائے کا زمانہ ہے، زبان پر پابندی ممکن نہیں رہی، ہر کوئی ٹی
وی چینل پر آکر اپنے جذبات کا ’’لائیو‘‘ اظہار کر سکتا ہے، اور کر رہا ہے۔
جس نے گھر جانا تھا ، وہ تو چلا گیا، بظاہر حکومتی پارٹی بہت بڑے صدمے سے
دو چار ہے، سوگ کا سماں ہے، پارٹی قائد عدالتی فیصلے کے نتیجے میں نااہل ہو
کر گھر واپس جار رہا ہے۔ ریلی کا فیصلہ بھی پارٹی کے اندر متنازع ہی رہا،
دوتین وزراء کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر پارٹی لیڈر ریلی میں میاں صاحب کے ہم
رکاب نہیں۔ اس ریلی میں سابق وزراعظم نے اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش
کیا، وہاں موجود عوام سے فیصلہ لیا، جذباتی کارکنوں نے فیصلہ سابق وزیراعظم
کے حق میں سنا دیا، یہ الگ بات ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اپنی جگہ موجود
رہے گا۔ مسلم لیگ ن کے چاہنے والے اس عدالتی فیصلے کو مسترد کر رہے ہیں، اس
کی مخالفت کرتے رہیں گے، اسے متنازع ظاہر کرتے رہیں گے، مگر فیصلہ ہو چکا
ہے، اس پر عمل درآمد بھی ہو چکا ہے۔ اس موقع پر میاں نواز شریف نے سابق (آخری)
ڈکٹیٹر کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا، اسے سزا کیوں نہ دی؟ یہی سوال عوام
اور سیاسی مخالفین حکومت سے پوچھتے ہیں، کہ سابق ڈکٹیٹر سمیت دیگر کرپشن
کرنے والوں کو پکڑنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟ اُن کو نہ پکڑنا کس کی نااہلی
تھی؟ |