ہم تو ایک عرصہ سے اٹھارہ کروڑ عوام کا رونا رو رہے تھے
لیکن تازہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج نے وطنِ عزیز کی آبادی کو اکیس کروڑ
تیس لاکھ سے اوپر پہنچا دیا ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر اور
گلگت بلتستان کے مکینوں کی شمولیت سے یہ بائیس کروڑ کے نزدیک پہنچ جائے گی۔
یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک میں متاثرین کی تعداد کا بیس فیصد حصہ تو
کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں ہو رہا تھا۔ خیر اربابِ اختیار و اقتدار کو اس
سے کیا کہ آبادی کہاں کو پہنچ رہی ہے۔ انھیں تو بس اپنے مفادات کی جنگ لڑنی
ہے جو وہ لڑ رہے ہیں۔ کبھی ایک مظلوم تو کبھی دوسرا مظلوم…… مظلومیت کا سفر
یونہی چل رہا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو سدا مظلوم ہی نظر آتے ہیں۔ یہ
الگ بات کہ نہ ان کے ہاتھ صاف ہیں اور نہ لباس داغوں سے محفوظ……
خیر چھوڑیے اس بات کو۔ میاں صاحب کی ریلی منزل کی جانب رواں ہے۔ کبھی دھیرے
دھیرے تو کبھی ایسی رفتار کہ گرد بھی چھونے نہیں دیتے۔ عوام کے جس جم غفیر
کی شمولیت کا دعوی ریلی سے پہلے تھا وہ کتنا سچ ثابت ہوا اس پہ کسی چینل یا
اخبار کی خبر کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف حکومتی عہدے داران کی باڈی لینگوئج
دیکھ کر ہی سب حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ ویسے یہ ضروری بھی نہیں کہ کسی
جماعت کے دعوے کے عین مطابق ہی منظر ہو۔ عوام توقع سے کئی گنا زیادہ بھی آ
سکتے ہیں اور کم بھی۔ اگر بگھی کا کوچوان کھو سکتا ہے تو ساتھ چلنے والے
خادمین بھی قبل از سفر یا درونِ سفر کسی بھی وقت چھوٹ سکتے ہیں۔ میاں صاحب
اپنے خطبات کے دوران خوب بول رہے ہیں۔ تجزیہ کار اسے اداروں سے ٹکراؤ کا
نام دے رہے ہیں۔ یہ ٹکراؤ تو میاں صاحب کی پرانی عادت ہے جبکہ ادارے تو
ہمیشہ ان پہ مہربان رہے ہیں۔ لیکن یہاں ان لوگوں کے منافقانہ رویے کو نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا جو رائے عامہ پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ جو اینکرز
اپنے حلق کا پورا زور لگا کے اداروں کی توہین کا اعلان کرتے نہیں تھکتے۔
دانش ور جو سیاست دانوں کی کوئی بات پکڑ کر فوراً ہی حب الوطنی کی اسناد
بانٹنے لگتے ہیں۔ ان سب کی زبانیں اس وقت کیوں گنگ ہو جاتی ہیں جب ادارے
عوامی نمائندوں، آئین اور قانون کو پاؤں تلے روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ اس
وقت عوام کے حقوق کی بات کرنے والے اسی رویے کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟؟؟؟
کیا عوام اور ایوان کی کوئی توقیر نہیں ہے؟ کیا ان کے خلاف سب جائز ہے؟؟؟
کوئی مخصوص لباس پہن لینے سے یا کسی مخصوص نشست پہ براجمان ہو جانے سے نہ
تو کوئی خدا بن سکتا ہے اور نہ ہے اس کی جانب انگلیاں اٹھانے والے گستاخ ہو
جاتے ہیں…… روز اس ملک کے جوان غائب ہو رہے ہیں۔ پاکستان کا کوئی حصہ ایسا
نہیں جہاں سے باشعور لوگوں کو نہ اٹھایا جا رہا ہو۔ جانے والوں کے پیچھے ان
کے گھر والے گریۂ یعقوب کی تفسیر بنے ہوئے ہیں لیکن کہاں ہے وہ ادارہ جو ان
گم شدہ لوگوں کو انصاف دے؟؟؟ کہاں ہیں وہ دانشور اور اینکرز جو ان گم شدہ
لوگوں کے حق میں آواز بلند کریں؟؟؟؟ کیوں سب کو سانپ سونگھ چکا ہے؟؟؟ کیا
اس ملک کے انسان ان چیو نٹیوں سے بھی کم ترہیں جو انسان کے پاؤں تلے اس لیے
جان ہار جاتی ہیں کہ انسان کی نظر ان کے ننھے وجود کو دیکھنے سے قاصر ہے؟؟؟
یا پھر یہ طے ہو چکا ہے کہ قانون آہنی ہاتھوں کے معاملے میں اپنی آنکھیں
بند رکھے گا۔ یاد رکھیے کہ یہ وہ بستی ہے جہاں ایک جوان اپنی ساری زندگی
انصاف کے لیے اس عمارت کے دھکے کھاتا ہے جہاں بیٹھے لوگوں کی آنکھوں پہ
سیاہ پٹی بندھی ہے لیکن جب وہ اپنی عمر کو ڈھلتا دیکھتا ہے اور انھی سیاہ
پٹی بندھے اشخاص یا ان کے نظام کے بارے میں اپنی مایوسی اور لاچارگی کا
اظہار کرتا ہے تو اس کے گلے میں توہین کا پٹا ڈلنے میں ایک پل کی دیر نہیں
لگتی۔ اور دوسرے وہ کہ جو جب چاہیں جو کریں سب اچھا ہے۔ ایسے میں اگر
سیاستدان اکبر الہ آبادی کا شعر گنگنائیں تو کچھ برا نہ ہو گا:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
آخر کب تک ہم لوگ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گئے۔ کیا کبھی وہ دن آئے گا
کہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے؟؟؟ اُن کو بھی…… جو خدا بنے بیٹھے ہیں۔
میاں صاحب یا دوسرے کسی بھی سیاستدان نے اپنے اختیارات کا جہاں بھی ناجائز
استعمال کیا اس پہ مواخذہ تو بنتا ہے لیکن یہ کیا بات کہ اگر کوئی سیاست
دان آواز اٹھائے تو وہ گستاخی لیکن اگر کسی ادارے سے کوئی آواز آئے تو اسے
بڑی گرم جوشی سے خوش آمدید کہا جائے اور اس بیان کے تناظر میں پھر سیاست
دانوں کو دھونا شروع کر دیا جائے۔ ہمارے دانش ور ایک بات بھول جاتے ہیں کہ
اگر سیاستدان عوام کے ووٹ کی طاقت سے ایوان کا حصہ بنتا ہے تو ادارے عوام
کے دیے گئے محصولات کی وجہ سے قائم ہیں۔ یہ عجیب خطہ ہے کہ جہاں عوام اپنا
پیٹ کاٹ کے جنھیں پالتی ہے وہی عوام کے پیٹ پہ لات مارتے ہیں۔ اور بات یہیں
ختم نہیں ہوتی۔ اس سے آگے بڑھ کے وہی نظامِ سیاست کے بڑے تجزیہ کار بھی
کہلائے جانے لگتے ہیں۔ ان کے انٹرویوز اور لیکچرز کا خاص اہتمام کیا جاتا
ہے۔ انھیں معتبری کا لبادہ اوڑھایا جاتا ہے۔
عوام کا حق ہے کہ اسے حقیقت بتائی جائے۔ کیا مشرف صاحب حق پہ تھے یا میاں
صاحب؟؟؟ افتخار چوہدری کی معطلی درست تھی یا اس کی بحالی کے بعد فرعونیت حق
تھی؟؟؟ ڈاکٹر عبدالقدیر حق پہ تھے یا مشرف اور اس ملک کے ادارے جن کی ناک
تلے سب ہوتا رہا؟؟؟ کیا مولوی عبدالعزیز حق پہ تھا یا ریاست؟؟؟ کیا ڈاکٹر
شازیہ خالد درست تھی یا ملٹی ادارے…… یا پھر نواب بگٹی؟ کیا بے نظیر کے
قاتل اسی ملک کے لوگ تھے یا باہر کے؟ باہر کے تھے تو اس ملک کے ادارے کراچی
حملے بعد بھی چوکنا کیوں نہ ہوئے؟؟؟؟ گورنر کے قاتل کو ہیرو بنا دیا جاتا
ہے اور عدلیہ کے لیے ہر دستیاب گالی کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی
ان پہ توہین عدالت کا الزام نہیں۔ وزیراعظم اپنی آئینی و قانونی طور مقرر
مدت کبھی پوری نہیں کر پاتے لیکن دیگر اداروں میں عین ریٹائرمنٹ کے وقت مدت
ملازمت بڑی آسانی سے بڑھ جاتی ہے۔ یہ اور اس جیسے سینکڑوں سوال ہیں جو وطنِ
عزیز کی پیشانی پہ لکھے ہیں لیکن نہ تو ان کی جانب کوئی دیکھتا ہے اور نہ
ہی ان کے جوابات کا تقاضا کرتا ہے۔ عوام کو کون بتائے گا کہ کیا حقیقت ہے
اور کیا فنکاری ہے؟؟؟ کیا اس ملک میں صرف بازی گری ہی ہوتی رہے گی؟؟؟ یہ
عجیب ہی معاشرہ ہے جس کی کوئی سمت ہی نہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہاں
ان لوگوں بھی نہیں بخشا جاتا جو اپنی زندگی دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر
دیتے ہیں بنا کسی صلہ کی تمنا میں۔ یہاں ایدھی فوت ہوتے ہیں تو عوام ان کا
ایمان تولنے لگتے ہیں اور ڈاکٹر رتھ فاؤ کا انتقال ہوتا ہے تو لوگ افسوس
کرتے ہیں کہ غیر مسلم مر گئی کاش مسلمان بھی ہو جاتی تو جنت پا لیتی۔ کاش
ان لوگوں کو کوئی بتائے:
ہر ایک شخص کا ایمان تولنے والو!
یہ اختیار خدا کا ہے آدمی کا نہیں |