وزیر اعظم کو ہٹانا منصوب کا حصہ تھا․․․․

سینٹ کے چیئر مین رضا ربانی کا یہ کہنا کہ وزیرِ اعظم کو ہٹانا منصوبے کا حصہ تھا۔جواپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔اُن کا یہ کہنا بھی معنی خیز تھا ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے۔کہ ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط ہونے نہیں دیا گیا اور 18وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا۔اور یہ تمام سوچی سمجھی سوچ کے تحت تھا۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم جس نہج پر کھڑ ے ہیں وہاں ملک اداروں کے تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا ’’آئین میں اداروں کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے‘‘ہر ادارہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے اگر اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کر ے تو ملک ترقی کرے گا۔

عدلیہ سے نا اہل ہونے کے بعد نواز شریف کا اسلام آباد سے لاہور کا سفر دار اصل یہ جاننے کی کوشش تھی کہ ان کا ووٹر اُن کے ساتھ کس حد تک جڑا ہوا ہے؟جس میں نواز شر یف اپنا وقار بحال کرنے کے ساتھ آئندہ انتخابات سے قبل اپنے ووٹ بینک کا اندازہ کرنا چاہتے تھے۔اس مہم میں اُن کے ووٹر نے انہیں یقین دلا دیا ہے کہ وہ ن لیگ کو دھوکہ نہیں دیں گے۔وزارت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد ان کے حامیوں نے ان کا والہانہ خیر مقدم کر کے اداروں کو اپنا پیغام پہنچا دیا۔دوسری جانب نواز شریف کی اس ریلی میں سیاست دان اور میڈیا منقسم نظر آیا۔کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کی ریلی کا مقصد عدالتِ عظمیٰ کو حدفِ تنقیدبنانا تھا۔جبکہ وہ کہہ رہے ہیں ہم نے عدالت کی فیصلے کو ماننے سے انکار نہیں کیا ۔ہمنے فیصلے کو من عن مان کر وزارتِ عظمیٰ چھوڑ دی ہے مگر فیصلے پر ہمارے تحفظات ہیں جن کا اظہار وہ اپنے ووٹروں کے سامنے بر ملا کرتے بھی رہے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ فیصلوں میں عدالتیں نہیں بلکہ عدالتوں کے فیصلے بولتے ہیں۔مگرنو ازشریف کے فیصلے میں جج حضرات کیجانب سے گوڈ فادر اور سیلین ما فیہ کے القابات دینا بذات خود سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔مگر یہاں فیصلہ نہیں بلکہ عدالت بولتی محسو س ہورہی ہے۔بعض لوگوں کا خٰیال ہے یہ الفاظ فیصلے کو جانبداری کی جانب لیجاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر نواز شریف خاموشی کے ساتھ اپنے خلاف فیصلہ قبول کر کے خاموشی سے بیٹھ جاتے تو اداروں کی خوہش کے مطابق مسلم لیگ مائنس نوز کی خوہش مخالفین کی فتح تصور کی جاتی ۔مگر اس ضمن میں نواز شریف نے ہمت کر کے مخالفین کے غبارے میں کئی سوراخ کر کے اپنے آپ کو مسلم لیگ کا مضبوط رہنما ثابت کر دیا۔ اور بڑے بڑے سیاست دان اوراینکرزٹامک ٹوئیاں مارتے دیکھے گئے۔ جن کی مثال کھیسانی بلی کھمبا نوچے کے زمرے میں آتی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم نے عدالتوں میں جنگ ہارنے کے بعد مشکل ترین فیصلہ کیا ہے جس کے مضمیرات کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔ جو بعض ماہرین کے نقطہِ نظر سے توہین عدالت کے زُمرے میں آتا ہے۔لیکن سیاسی طور پر دیکھا جائے توان کے پاس کوئی چاراہ بھی نہ تھا۔جہاں تک سابق وزیر اعظم کی حالیہ مہم کا تعلق ہے بظاہر وہ ان کے لئے فائدہ مند تو ثابت ہو رہی ہے۔اور انہوں نے اپنے کارکنوں کو صحیح اور واضح پیغام پہنچا دیا ہے۔ان کے پاس ایک راستہ یہ بھی تھا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خاموشی سے جاتی امرا میں بیٹھ جاتے۔غیر مقبول رہنما کی طرح نیب کے وارنٹِ گرفتاری کا انتظار کرتے جو ان کے کارکنوں کو دل برداشتہ کر کے رکھ دیتا مگر یہ اُن کی سیاسی موت کے مترادف بھی ہوتا۔کہ اس قدر مقبول سیاست دان کا اپنی معزولی پر خاموشی اختیار کر لینا ایک غیر فطری بات ہوتی۔

نواز شریف کے مخالفین کی پوری لاٹ یہ چاہ رہی تھی کہ وہ خاموش ہوجائیں اور خاموشی کے ساتھ موٹر وے سے گذرتے ہوئے رستے میں ایک مقام پر خطاب کر کے سیدھے لاہور میں پہنچ کر اپنے کارکنوں کو اپنا دکھڑا سنا کر میٹھی نیند سوجائیں ۔مگر ایسا نہ کر کے نوازشریف نے اُن کے زخموں پر نمک چھڑک کر انہیں مایوسی کی گہرائیوں میں پہنچا دیا۔پیپلز پار ٹی بھی اس معاملے میں ان سے ہر گز تعاون کے موڈ میں نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے سبق وزیرِ اعظم یوصف رضا گیلانی اور میمو گیٹ کو کسی طرح بھی فراموش کرنا نہیں چاہتی ہے ۔ماضی کے زخموکو رستا محسوس کرہی ہے اور نواز شریف سے بدلہ لینے کا اس سے زیادہ مناسب موقع اسے نہیں ملے گا۔اس مہم کے نتیجے میں نواز شریف کے کار کنوں کو واضح پیغا م پہنچ چکا ہے کہ یہ وزیر اعظم کو ہٹانے کے منصوب کا حصہ تھا۔کہ جس فیصلے سے ان کی نااہلیت ثابت نہیں کی جا سکی ہے۔نواز شریف کی کامیابی کا اندازہ ان کے مخالفین کے ردِ عمل سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔نواز شریف کے واپسی کے سفر سے مخالف کیمپوں میں ہا ہا کار مچی ہے۔
 

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213102 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.