بقول سقراط کہ ـ’’ ہم جس انقلاب کے آرزومند ہیں اِس کے
لئے تو فقط ایک تبدیلی کا فی ہوگی اور وہ یہ کہ کو ئی فلسفی حکمران بن جا
ئے یا کو ئی حکمران فلاسفی‘‘ہمارے لئے بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ آج سابق
وزیراعظم نوازشریف جس طرح انقلا ب کی بھڑکیاں مار رہے ہیں اورجس انقلاب کے
یہ آرزومند دِکھا ئی دے رہے ہیں وہ اِنقلا ب بھی بس ایسا ہی ہوگا جیسے کہ
یہ ہیں ؟؟اور جیسا کہ یہ چاہیں گے؟؟ کیو نکہ یہ نہ تو فلسفی حکمران ہیں اور
نہ ہی یہ کبھی فلاسفی ہوسکتے ہیں یہ تو بس دواور دوچار اور چار اور چار آٹھ
کرنے والے ایک ایسے بزنس مین ہیں جن کی ساری زندگی یہی کچھ کرنے میں گزری
اور تو اور جب یہ تین مرتبہ مُلکِ پاکستان کے وزیراعظم بنے تب بھی اِن کی
یہ عادت ختم نہ ہوئی اِنہوں نے اپنا ساراوقت زیادہ سے زیادہ دولت کما نے
میں ہی گزارا ایک طرف جہاں یہ اپنے مُلک میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے
تو دوسری طرف یہ دوست ملک کا اقا مہ لے کر بھی وہاں پارٹ ٹائم نوکری کرتے
رہے یوں اِنہوں نے خود کو ڈبل نوکری کرکے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے
میں مصروف رکھا ۔
اَب جبکہ معزول وزیراعظم نوازشریف جب سے نا اہل قرار دیئے گئے ہیں اِن کے
لہجے کی نرمی اور شفتگی ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے یہ کھلم کھلا طور طریقے سے
اداروں سے تصادم اور انتقام کی آگ میں بھسم ہوتے دِکھا ئی دے رہے ہیں،
اسلام آباد سے اپنے گھرلاہور واپس جاتے ہوئے نوازشریف نے احتجاجی مارچ اور
شو آف پاورسے جی ٹی روڈ کواپنی نا اہلی کے بعد پیدا ہونے والی اپنی سُبکی
کو تقاریراور اپنے انقلا بی اعلانات سے کم اور ختم کرنے کے لئے جس طرح
استعمال کیا اَب یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ما ضی میں دوسروں کی
انقلا بی تحاریک کا مذاق اُڑا نے والے آج کیسے؟؟ خود انقلا ب کا علم تھا مے
انقلاب لا نے کو بیقرار ہورہے ہیں تین سال قبل جب عمران خان او ر طاہر
القادری اپنے اپنے انداز سے کنٹینروں پر چڑھ کر انقلا ب لا نے کے لئے سڑکوں
پر آئے تھے اور دھرنے پہ دھرنادیئے جارہے تھے تو یہی نوازشریف ہی تھے جنہوں
نے تب اپنے اقتدار کے نشے میں اِن دونوں کے انقلا بی نظریات اور کوششوں کی
دھجیاں بکھیری تھی اُن کی انقلا بی کوششوں کو اپنی حکومت کے خلاف سازش قرار
دے کر پی پی پی اور دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اپنا ہمنوااوراپنا ہم
پلہ بنا کر عمران اور طاہر کاسیتیاناس کردیا تھا جبکہ آج نوازشریف کے نام
سے پہلے معزول اور سابق وزیراعظم نواز شریف لگ گیا ہے تو دیکھیں یہ کیسے
خود انقلا بی تحاریک شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں؟؟ اِن کا یہ اعلان سوا
ئے مضحکہ خیزی کے کچھ نہیں ہے کیو نکہ آرمی چیف جنرل جاوید قمر باجوہ پہلے
ہی کہہ چکے ہیں کہ’’ پاکستان آئین و قا نون کے اصل راستے پرچل پڑا ہے‘‘ سو
اَب ایسے میں کوئی گنجا ئش باقی نہیں رہ جا تی ہے کہ معزول وزیراعظم
نوازشریف اپنے چیلے چپاٹوں اور اپنے مٹھی بھر ہم خیال لوگوں کو سڑکوں پر لا
کر اپنے مرضی اور منشا اور خواہشات کے مطابق کسی آئینی انقلاب کا سوچیں ،اگر
پھر بھی نوازشریف اپنی ضد پر قا ئم رہیں اور سڑکوں پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ
کے خلاف آتے ہیں تو پھر اپنے انجام اور جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کے خود ہی
ذمہ دار ہوں گے ۔
اِس سے انکار نہیں ہے کہ کسی بھی انقلاب کا پہلالازمہ وہ قربیاں ہواکرتی
ہیں جو کسی خاص مقصد کے حصول کے لئے مسلسل دی جاتی ہیں، یہاں حیرت اور تعجب
کی بات ہے کہ ابھی تک تومُلک کی بیمار قوم جِسے 70سالوں سے بنیادی حقوق تک
نہیں ملے ہیں اِس نے توکبھی انقلاب کے لئے سوچا بھی نہیں ہے،اور اگر کسی نے
اِن کے حقوق دلانے کے لئے انقلا ب کانعرہ بلند بھی کیا تو اُسے بھی کچل
دیاگیااتنے عرصے میں جتنی قربانی پاکستانی قوم نے دی ہے اُتنی تو کسی
حکمران یا سیاستدان نے بھی نہیں دی ہے،بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے؟ کہ
استحصالی طبقہ مسا ئل کی چکی میں پس کر بھی انقلاب کے لئے نہ اُٹھے مگر اَب
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ معزول وزیراعظم نوازشریف کی نا اہلی کے بعد
حکمران اور سیاستدان طبقہ آئین کی آرٹیکلز 63/62اور 184میں اپنی مرضی کی
تبدیلی کے کے اپنے مطلب کے انقلاب کے لئے اُٹھ کھڑا ہو؟؟جہاں حکمرانوں اور
سیاستدانوں کے اپنے مفادات اور مقاصد خطرے میں ہوں اور اِن کے گلے پر ادارے
چھری پھیرتے ہیں تو یہ سارے اپنے مطلب کے انقلاب کے جھنڈے تلے جمع ہو کر گا
نے لگتے ہیں کہ ’’اپنے انقلابی جھنڈے تلے ہم سب ایک ہیں ‘‘ ورنہ جب کبھی
قوم اور عوامی کے اجتماعی مفادات اور خیالات کی کوئی بات کی جا تی ہے تو
کوئی انقلا ب کا سوچتا تک نہیں ہے ۔
بہرحال،آج اپنی نااہلی کے بعد معزول وزیراعظم نوازشریف جس انقلاب کا نعرہ
لگا رہے ہیں اِس پر مجھے ماؤزے تنگ کے یہ اقوال یاد آگئے ہیں چاہتا ہوں کہ
آپ کی آگا ہی کے لئے پیش کرتا چلوں ایک موقعے پر وہ کہتا ہے کہ’’ چور، ڈاکو،
جیب کترے، اسمگلر،بھکاری، اُچکے، رشوت خور، بدمعاش اور غنڈے انقلاب کے
دُشمن ہوتے ہیں اور رجعت پسندوں کے تنخواہ یافتہ ایجنٹوں کا کرداراداکرتے
ہیں جبکہ محنت کش طبقے انقلاب کے لئے پیش پیش ہوتے ہیں‘‘اور دوسری جگہہ
ماؤزے تنگ فرماتا ہے کہ ’’انقلابی نصب العین کے حقیقی حا میوں( محنت کش اور
استحصالی طبقہ ہوتا ہے)کے علاوہ بہت سے ایسے (معزول وزیراعظم نوازشریف اور
اِن کے ہم خیال اور ہم نوالہ اور ہم پیالہ ) لوگ بھی ہوتے ہیں جو
عارضی(اپنے مطلب اور اپنے مفادات) کے طورپرانقلابی یا انقلابی بہروپ
اختیارکرلیتے ہیں‘‘۔
تاہم ایسا انقلاب تو سرزمینِ پاکستان میں آنا مشکل ہے جیسا کہ معزول
وزیراعظم نواز شریف اداروں (عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ) سے تصادم اورمُلک میں
انارگی کی راہ اختیار کرکے لاناچا ہتے ہیں مگر یہ اِس سے باز نہ آئے تو پھر
قوم کو اپنے حقوق کے حصول کے خاطر ضرور مُلک میں تین بنیادوں پر انقلا ب کے
لئے کچھ کرناہوگامگر جب استحصالی طبقہ اپنے انقلاب کے لئے اُٹھ نکلتا ہے تو
پھر انقلابی صورتِ احوال کے لئے لازمی ہے کہ اول عوامی غربت اور بدحالی
جیسے کہ ہمارے مُلک میں بے قابو ہوگئی ہے،دوئم عوام کا بڑھتا ہواسیاسی
شعورجو اَب بیدار ہورہاہے اور سوئم یہ کہ مقتدرطبقے کا بحران جو کہ اَب
ہمارے یہاں سرچڑھ چکاہے اِن کے قصرِ اقتدارکو ایک نہ ایک دن ضرور متزلزل
کردے گا ‘‘ ۔اِس تناظر میں پھر کیسے نہ ممکن ہو کہ مُلک میں استحصالی طبقہ
انقلاب برپانہ کردے مگر جس انقلاب کی نوازشریف بات کررہے ہیں وہ انقلا ب کی
متمنی ہو ہی نہیں سکتے ہیں اؒس لئے کہ اول میں وہ کہیں سے بھی استحصالی تو
ہیں نہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ عدالت نے اُنہیں غلط نا اہل
قرار دیا ہے اِس بنا پر وہ خود کو استحصالی طبقے میں شامل کررہے ہیں اورآج
چا ہتے ہیں کہ اُن کی مرضی کے مطابق آئین میں تبدلی آنے کے لئے قوم اِن کے
کسی آئینی انقلاب کے لئے اُن کا ساتھ دے تو قوم کبھی بھی اُن کا سا تھ نہیں
دے گی کیو نکہ آج جس طرح معزول وزیراعظم نوازشریف اپنی نا اہلی کو جواز بنا
کر اشتعال انگیزی سے مُلک میں اداروں سے ٹکراؤ کے لئے ماحول ہموار کررہے
ہیں اِس صورتِ حال میں بھلا کوئی کیسے مُلک میں کوئی معزول وزیراعظم آئینی
انقلاب لا سکتا ہے ؟؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے سمجھنے اور سمجھا نے
کا...؟؟
چلیں ، اَب میں اپنے کالم کا اختتام اِس پر کرنا چا ہوں گا کہ لیجئے ، آج
اپنے مطلب کے انقلاب کی نوید دینے والے 420کی بیوی 120 سے لڑرہی ہے،اگر یہی
کچھ حقیقت میں بدل کرسچ ثا بت ہوگیا اور بیو ی 120سے لڑنے کے بعد کا میاب
ہو گئی تو پھر عنقریب بیو ی کے 120 کے ایک سے پہلے اُلٹا سات (7)لگ جا ئے
گا اوریوں بیو ی بھی 420بن جا ئے گی۔
اِس تمہید کو اِس طرح پڑھیں اور دیکھیں کہ عدالت سے آف شورکمپنیوں پر بنا
ئی جا نے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں نااہل قرار پا نے والے سابق
وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ محترمہ (یعنی کہ بیوی صاحبہ ) حلقہ ایم این اے
120 لاہورسے ضمنی انتخاب لڑرہی ہیں جن کی ممکنہ کامیا بی کے بعدمعزول
وزیراعظم اِنہیں ہی وزیراعظم نامزد کردیں گے جیسا کہ قوی امکان ہے پھر یہ
بھی ہوسکتاہے کہ اپنے شوہرمعزول وزیراعظم نوازشریف کے مشوروں پر چلتے ہوئے
یہ بھی وہی کچھ کریں جیسا کہ اِ ن کے شوہر نے اِس عہدے پر ہوتے ہوئے کیا
تھا ۔ |