تحریر:قاضی رفیق عالم
پاکستان الحمدﷲ اس بار اپنا 70واں یوم آزادی منا رہا ہے۔دنیا کے دوسرے
ملکوں کے لیے ان کا یوم آزادی' یوم قیام یا یوم استقلال ایک رسمی اور
روایتی چیز ہوگی لیکن پاکستان کے لیے ایساہرگز نہیں' اس لیے کہ اہل پاکستان
کو یہ آزادی لاکھوں قربانیوں کے بعد ملی۔اس آزادی کے حصول کے لیے انہیں
30لاکھ جانیں قربان کرنا پڑیں'ایک لاکھ سے اوپر ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں
اس آزادی کی خاطر پامال ہوئیں۔بے شمار بچوں کو ہندؤوں اورسکھوں نے نیزوں کی
انیوں میں پرو کر خون میں لت پت کیا اور ان کا خون اور قیمہ تک ان کے
والدین کو کھانے پینے پرمجبور کیا ۔ایسے شقی القلب ظالم لوگوں کو اﷲ کی
زمین پرچشم فلک نے کم ہی دیکھا ہوگا۔
جب کوئی چیز اتنی زیادہ قربانیوں کے بعدحاصل کی جائے تو اس کی قدر بھی اتنی
ہی زیادہ ہوتی ہے…… اور ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ اس چیزکے حصول کا مقصد بھی
پھر اتنی قربانیوں کے بعد ہرگز فراموش نہیں کیاجاسکتا۔
اب من حیث القوم پاکستان کے70ویں یوم آزادی پر ہم نے یہی غور کرنا ہے کہ
کیا ہم نے جو آزادی اس قدر عظیم قربانیوں کے بعدحاصل کی ،کیا ہم اس کی صحیح
قدر اورصحیح حفاظت کر رہے ہیں۔آج پاکستان کے 70ویں یوم آزادی پر ہمیں کچھ
دیرٹھہر کر سب سے پہلے اپنی آزادی کے مقصد پر غور کرنا ہوگا اور پھر یہ
دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم اس آزادی کے تقاضے پورے کررہے ہیں یانہیں۔
جب پاکستان کے قیام کی تحریک چلی تو اس وقت اس تحریک کاجو سب سے بڑا اور
مقبول نعرہ تھا،وہ تھا پاکستان کامطلب کیا……لاالٰہ الااﷲ……اسی نعرے سے واضح
ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے قیام کامقصد کیاتھا یعنی اس پاک سرزمین پراﷲ کی
نافرمانی اور شرک و بدعات کے تمام مظاہرختم کرکے صرف اﷲ کی کبریائی ' اﷲ کی
توحیداور اﷲ کی شریعت کو قائم کرنا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جتنی ریاستیں
اورصوبے وعلاقے شامل ہوئے تو وہ صرف اورصرف اسی رشتے اور اسی مشترک تعلق کی
وجہ سے ایک لڑی میں بندھے ورنہ یہ تو سیدھی اورموٹی سی بات ہے کہ اگریہ
لاالٰہ الااﷲ والامشترک تعلق نہ ہوتا تو اس کے علاوہ اور کوئی بھی چیز الگ
خطہ اور الگ سرزمین کاجواز نہ رکھتی تھی۔ اگر سیکولر علاقائی اور لسانی و
نسلی بنیادوں پر ہی پاکستان کاقیام مقصد ہوتا تو اس مقصدکے لیے تو متحدہ
ہندوستان بدرجہا بہترتھا۔
متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان بننے کے فوراً
بعد14اگست1947 کو پاکستان کی اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
قائداعظم کو یہ پیغام دیاتھاکہ امید ہے آپ مغل بادشاہ اکبرکے (سیکولر) طرزِ
حکمرانی کو قائم کریں گے،اس پرقائداعظم نے اس ڈکٹیشن کو فوراً مسترد کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ہمارے لیے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اورحضرت
عمر رضی اﷲ عنہ کا دیا ہوا طرزِ حکمرانی ہی کافی ہے۔حیرانی ہے کہ قائداعظم
کے اس قدر واضح بیان کے باوجود آج بھی بعض سیکولر گماشتے قائداعظم کے ایک
غیرواضح اورمبہم بیان کو بنیاد بناکر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سیکولرزم کے
لیے بنا تھا۔ یہ تو گویا دن کو رات بنانے والی بات ہے۔
پاکستان کی اسلامی بنیاد کی ایک اوربڑی اورناقابل تردید دلیل 3جون1947ء
کاوہ تقسیم برصغیر کا پلان ہے جس میں مختلف ریاستوں اور صوبوں کو پاکستان
یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کی بنیاد فراہم کی گئی اور بنیاد یہ دی گئی کہ
مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے جبکہ ہندو اکثریتی علاقے
بھارت کے ساتھ ، اگر یہ اسلامی بنیاد نہ ہوتی تو پنجاب اور بنگال کی تقسیم
ہی عمل میں نہ آتی اور نہ اس تقسیم کی وجہ سے وہ خونی فسادات ہوتے جس میں
لاکھوں مسلمانوں کی شہادتیں ہوئیں ۔قائد اعظم اسی خدشے کی وجہ سے بنگال اور
پنجاب کی تقسیم پر پہلے راضی نہ تھے لیکن پاکستان کے قیام کو روکنے کی سازش
کو ناکام بنانے کے لئے انہوں نے اس تقسیم کو بامر مجبوری قبول کیا،
1947ء سے لے کر آج تک اہل کشمیر بھی اگربھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف
برسرپیکار ہیں تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جموں کشمیر98 فیصد مسلم اکثریت
کاعلاقہ ہے اور تقسیم کے پلان کے تحت بھی پاکستان کے ساتھ الحاق ان کا حق
بنتاتھا اور بنتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اہل کشمیر کی آزادی کی تحریک
کاسب سے بڑا اور مقبول نعرہ یہی ہے کہ ……پاکستان سے رشتہ کیا……لاالٰہ الااﷲ
اسلامی اخوت اور رشتے کی مناسبت سے ہی ان کے قائد سیدعلی گیلانی ، آسیہ
اندرابی اور دوسرے رہنما بھی ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی
ہیں'پاکستان ہمارا ہے۔ پھر اسی پربس نہیں،کشمیر کے تو پاکستان کے ساتھ
دوہرے رشتے ہیں۔مذہبی اور دینی رشتہ تو اپنی جگہ،جغرافیائی، علاقائی اور
لسانی ونسلی ہرلحاظ سے کشمیریوں کا سب سے زیادہ تعلق پاکستان کے ساتھ ہے۔
تقسیم سے پہلے ہی کشمیر جانے کے لیے سب سے زیادہ راولپنڈی کاراستہ ہی
استعمال کیاجاتاتھا۔ کشمیری ہمیشہ سے اپنامال تجارت پنڈی ہی لایاکرتے تھے،
اس لیے ان کا آج بھی سب سے بڑا نعرہ یہی ہے کہ:
تیری منڈی'میری منڈی……راولپنڈی راولپنڈی
جب گاندھی کو بھی کشمیرجانا پڑا تو یکم اگست 1947 کو وہ بھی راولپنڈی کے
راستے ہی سری نگر پہنچا تھا۔کشمیر کے سارے معروف راستوں اور سارے دریاؤں
کارُخ پاکستان کی طرف ہے۔غرض کشمیر تو ہرلحاظ سے پاکستان کا اٹوٹ حصہ ہے،
اسے چاہے بھارت کے کانگریسی و طنیت کے اصول پر جانچا جائے'چاہے مسلم لیگ کے
دو قومی، مذہبی اورملی اصول کے نظریہ پر پرکھاجائے'کشمیر کو کسی بھی اصول
کے تحت پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔غرض پاکستان اور کشمیر……ایک تصویر
کے دورخ ہیں اور دونوں ایک جیسے ہیں، اسی لیے تو آج کشمیری کہتے ہیں کہ ہم
پاکستانی ہیں،پاکستان ہمارا ہے اور پاکستانی کہتے ہیں کہ ہم کشمیری
ہیں،کشمیر ہمارا ہے
یوں بھی کشمیرتقسیم برصغیر کانامکمل ایجنڈا ہے اور آج جو کشمیری سردھڑ کی
بازی لگا کر آزادی کی تحریک بڑے حیران کن جوش وجذبہ سے چلائے ہوئے ہیں تو
یہ بھی اسی ایجنڈے اور اسی پاکستان کی تکمیل کے لیے وہ کررہے ہیں ۔آج
کشمیرکاشاید ہی کوئی ایسا گھر بچا ہو جہاں سے کشمیرکی آزادی اورالحاق
پاکستان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش نہ کیاگیا ہو۔کشمیرکا آج ہرگھر شہداء
کاگھرانہ بن چکاہے۔ اس قوم کو آج بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کی پروا ہے نہ ان
کی پیلٹ گنوں، مرچی بموں اور پاواشیلز کی بلکہ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے
،عورتیں اور بوڑھے بھی دہشت گرد اور غاصب بھارتی فوج کی سیدھی گولیوں کے
سامنے صرف پتھر لے کر تن کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔وہ نہ صرف پاکستان کاپرچم پورے
کشمیر میں ہرجگہ بے خوف و خطر سرعام لہراتے ہیں بلکہ روزانہ اپنے شہداء
کوبھی پاکستان کے پرچم میں لپیٹ کردفن کرتے ہیں۔
جماعۃ الدعوۃکے مرکزی رہنماپروفیسرحافظ عبدالرحمن مکی حفظہ اﷲ نے بجاطورپر
یہ بات کہی ہے کہ اگرکوئی اور قوم کسی ملک کے لیے اتنی قربانیاں دیتی اور
اپنے شہداء کو اس ملک کے پرچموں میں لپیٹ کردفن کرتی تو وہ ملک کب کا ان کی
مدد کے لیے اپنی فوجیں اتار چکا ہوتا۔غرضیکہ ہمارے کشمیری بھائیوں اور
بہنوں نے تو اپنی قربانیوں میں کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن جن کے لیے وہ یہ
قربانیاں دے رہے ہیں،انہیں یہ سوچنا ہو گا کہ اہل کشمیر یہ قربانیاں اپنی
کسی حکومت،اقتدار یاکسی اور دنیاوی مقصدکے لیے نہیں دے رہے،ان کی قربانیاں
صرف اورصرف اسلام اور پاکستان کے لیے ہیں۔ جن کے لیے وہ اتنی قربانیاں دے
رہے ہیں،اب ان پربھی ایک بہت بڑا بوجھ ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو ان
قربانیوں کا کیا جواب اور کیا صلہ دیتے ہیں۔یہ ہمارے عوام کی بھی آزمائش ہے
اور خاص طورپر ہمارے حکمرانوں کی بھی……لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے
حکمرانوں اور سیاستدانوں کی سطح پرکم ازکم ہمارے کشمیری بھائیوں کو وہ خاطر
خواہ جواب نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے بلکہ الٹا ہم نے کشمیریوں کے سب سے
بڑے وکیل ومحسن پروفیسرحافظ محمدسعید حفظہ اﷲ اور ان کے رفقاء کو ہی
نظربندکردیا جس سے اہل کشمیر کو زبردست منفی پیغام گیا۔کاش!ہم یہ سمجھیں کہ
کشمیریوں کی حمایت نظریہ پاکستان اور قیام پاکستان کا تقاضا ہی نہیں بلکہ
بقائے پاکستان اور ترقء پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے۔
آج اگر ملک لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوباہے تو صرف اس وجہ سے کہ ہمارے
تمام دریادشمن کے قبضے میں ہیں'اگر کشمیر آزاد ہوجائے تو ہمارے تمام دریا
بھی آزاد ہوں گے اور ملک کو باقی سب طریقوں سے انتہائی سستی اور انتہائی
وافر بجلی ملے گی۔ پاکستان کے ایشین ٹائیگربننے کا بھی یہی سب سے بہترطریقہ
ہے اور اگر ہم کشمیر بھی آزاد کرائیں اور اس دھرتی پر اپنے عہد کے مطابق اﷲ
کی شریعت کی عملداری بھی قائم کردیں تو اﷲ کے فضل سے پاکستان ایشین ٹائیگر
ہی نہیں بلکہ ورلڈ ٹائیگر بھی بن سکتا ہے لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے
مفاداور بھلے کی بات بھی سننے اورماننے کے لیے تیارنہیں'اس کانتیجہ ہے کہ
ہم ٹائیگر بننا تو دور کی بات ہے' دنیاکی ساتویں بڑی ایٹمی طاقت ہونے کے
باوجود بھی بلی بلکہ بھیگی بلی اورکھسیانی بلّی بن چکے ہیں جو غلامی
کاکھمبا نوچ نوچ کر اپنابرا حال کیے ہوئے ہے۔ کاش! ہم اس یوم آزادی پر
اوروں کانہیں' اپنا ہی فائدہ اور اپناہی نفع نقصان سمجھنے کے قابل ہوجائیں
تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی ہم نے پاکستان کے قیام کامقصدحاصل کرلیا۔
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن |