پاکستانی سیاسی پارٹیوں پر غیرملکی فنڈنگ کے الزامات ۔پولیٹیکل پارٹیز اینڈ انتخابی قوانین

کسی بھی سیاسی پارٹی کو طاقت میںلانے اور اس کے نتیجہ میں حکومت کرنے کا اختیار دینے میں سب سے زیادہ حصہ عوام کا ہے ریاست کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں ۔ یہی عوام اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور کچھ وسائل بھی دیتے ہیں۔سیاسی پارٹی رجسٹریشن کے قوانین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ عوام اپنی مرضی سے اپنی پارٹی کو فنڈنگ نہ کریں ۔لیکن عوام کے ووٹ اور نوٹ (پارٹی فنڈ،پارٹی چندہ)کا حساب کتاب رکھنا اور دینا ضرور ی ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں کہ جو کوئی بھی جو کچھ دے اس کا ذکر کہیں نہ ہو یا اس کو ریکارڈ میں نہ لایا جائے۔ وصولی اور منتقلی حسب ضابطہ مروجہ قوانین اور رائج طریقہ کا ر کے تحت ہونا لازمی ہے۔

پی ٹی آئی پرالیکشن کمیشن اور پھر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کئے گئے کہ پارٹی کو غیر ملکی فنڈنگ ہوئی اور اس میں بعض ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کے تعلق پاکستان سے ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں خاص طور پر انڈیا اور اسرائیل جیسے ممالک بھی شامل ہیں سے فنڈنگ ہوئی ہے ۔سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت جاری ہے ۔اور دوران سماعت معزز ججز کے البتہ ریمارکس پی ٹی آئی کے لیے حوصلہ افزاءہیں جس میں کہا گیا کہ اگر ایسا ہے بھی تو اس جرم میں کسی کو نااہل یا پارٹی کی رجسٹریشن کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہاں البتہ ایسے فنڈز کو ضبط کرلیا جائے گا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب یہ الزام مختلف پارٹیوں پر نہ لگا ہو کہ انہیں غیرملک سے فنڈنگ ہوئی ہے ۔موجودہ پارلیمنٹ میں بیٹھی کئی سیاسی جماعتوں پر بھی ماضی میں ایسے الزامات لگتے رہے ہیں جن کا خو ب چرچا رہا ہے ۔

کسی بھی ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو کہ فنڈنگ (چندہ) اکھٹا نہ کرتیں ہوں جوکہ پارٹی کو ورکنگ رکھنے کے لیے لازمی ہوتا ہے ۔ رجسٹرڈ پارٹی ایسے تمام” سورسز“ کو جہاں سے انہیں مالی امداد کسی بھی صورت میں ملے یا اس کی اپنی کوئی آمدن اگر ہے اس کو ظاہر کرنا لازمی ہے۔ جو کہ عام طور پر دو طریقوں سے ظاہر کی جاتی ہے ۔ ایک الیکشن کمیشن میں کوجمع کرائے گئے گوشوارے آمدن اور اخراجات اور دوسرا ،اٹرنل و اکسٹرانل آڈٹ ۔آمدن میں یو ں تو سب وسائل کا ذکر ہوتا ہے جہاں سے کچھ آیا ہو جیسے ممبران کی فیس اور چندہ یا کسی ہمدرد کی جانب سے ملنے والا چندہ اسی طرح پارٹی کی ایسی کوئی جائیداد وغیرہ اگر ہوتو اس کی آمدن شامل ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ سیاسی پارٹی ہرگز چیئریٹی پارٹی یا کمرشل پارٹی(ادارہ) کا درجہ نہیں لے سکتی۔اگرچہ سیاسی پارٹی اپنے منشور میں چیئریٹی ٹائپ چیزیں ضرور شامل کردیتی ہیں اور اس میں عوامی فلاح و بہود ،معاشرتی سدھار ترقی وغیرہ وغیرہ جیسے پروگرام ہوتے ہیں ۔سیاسی پارٹی ،سماجی بہود پارٹی(ادارہ)یا کمرشل نقطہ نظر سے قائم کمرشل ادارہ یا کارپوریٹ سیکٹرکی کوئی آرگنائزیشن ان سب کی رجسٹریشن کے لیے الگ الگ فورم اور الگ الگ قانون ہیں ۔ سیاسی پارٹی عوام کی براہ راست شرکت وشمولیت سے ”سیاسی عمل“کا حصہ بنتی ہے اور اسی سیاسی عمل جوکہ دراصل جمہوری عمل ہوتا ہے سے کامیابی حاصل کرتی ہے ۔اس سارے عمل کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ ”طاقت“ حاصل کی جائے یہ طاقت وہ اختیار و اعتماد ہوتا ہے جوکہ عوام انہیں ”ووٹ کی پرچی“کے ذریعے دیتے ہیں اس ووٹ کی تائید و حمایت سے کامیابی کے بعد پارٹی طاقت میں آجاتی ہے جس کے نتیجہ میں حکومت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔

کسی بھی سیاسی پارٹی کو طاقت میںلانے اور اس کے نتیجہ میں حکومت کرنے کا اختیار دینے میں سب سے زیادہ حصہ عوام کا ہے ریاست کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز عوام ہیں ۔ یہی عوام اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ بھی دیتے ہیں اور کچھ وسائل بھی دیتے ہیں۔سیاسی پارٹی رجسٹریشن کے قوانین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ عوام اپنی مرضی سے اپنی پارٹی کو فنڈنگ نہ کریں ۔لیکن عوام کے ووٹ اور نوٹ (پارٹی فنڈ،پارٹی چندہ)کا حساب کتاب رکھنا اور دینا ضرور ی ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں کہ جو کوئی بھی جو کچھ دے اس کا ذکر کہیں نہ ہو یا اس کو ریکارڈ میں نہ لایا جائے۔ وصولی اور منتقلی حسب ضابطہ مروجہ قوانین اور رائج طریقہ کا ر کے تحت ہونا لازمی ہے۔

غیرملکی فنڈنگ کی جب بات ہوگی تو اس میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فنڈنگ ممالک یعنی حکومتوں یا اس ملک کے شہریوں کی طرف سے اگرہوتو یہ قابل گرفت ہے۔اس میں سمجھنے یا سمجھنانے والی کوئی بات نہیں آسان اور سیدھی سی وجہ ہے کہ پارٹی پاکستان کی فندز بھی پاکستانیوں کے ۔دراصل ساری بات مفادات کی ہے باقاعدہ ایجنڈا کی بات ہے ۔شہریوں کا ایجنڈا ہی پارٹی کا ایجنڈا ،اور ایک پارٹی کا ایجنڈا شہریوں کا ایجنڈا شمار ہوتا ہے یہ مشترکہ مفادات والی بات ہے ۔ دوسرے ملک کی حکومت یا عوام اگر پاکستانی پارٹی کو فنڈنگ کریں تو یقینی ان کا بھی کوئی ایجنڈا اور مفاد ہوگا جوکہ ہمارا مفاد یا ایجنڈا ہرگز نہیں ہوگا۔اگر کسی سیاسی پارٹی نے دوسرے ممالک سے فنڈز لئے ہوں تواس صورت یہ خدشہ ہے کہ وہ پارٹی اس ملک کے مفادات اور ان کے ایجنڈا پر بھی کام کریں گی۔

ممالک غیرمیں رہنے والے پاکستانیوں کی جانب سے کسی پارٹی کو فنڈنگ ہوگی تو یہ بھی قانونی ہے۔ لیکن اس کو یہاں منتقل کیسے کیا گیا اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اصولی اور اخلاقی طور پر اگرچہ دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے یہ بھی غلط ہے جب ہمارے انتخابی قوانین میں بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تو پھر ان سے فنڈز لینے کی اجازت کا کیا اخلاقی جواز ہے ۔

تحریر کو ایک بار پھر ابتدائیہ سے جوڑتے ہیں کہ پی ٹی آئی پرالیکشن کمیشن اور پھر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کئے گئے کہ پارٹی کو غیر ملکی فنڈنگ ہوئی اور اس میں بعض ایسے ممالک بھی شامل ہیں جن کے تعلق پاکستان سے ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں خاص طور پر انڈیا اور اسرائیل جیسے ممالک بھی شامل ہیں سے فنڈنگ ہوئی ہے ۔اب اگر ایسا ہوا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی حکومت یا اس ملک کے شہری نے فنڈز دیئے ہیں اور وہ یہاں پاکستان میں چاہیے قانونی طریقے سے بھی منتقل ہوئے وہ کسی طرح بھی جائز یعنی قانونی نہیںہیں ۔ سیاسی پارٹی رجسٹریشن اور انتخابی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے کہ دوسر ے ملک سے فنڈنگ سے پارٹی چلائی یا الیکشن لڑا جائے ۔ اس کو ایک مثال سے پیش کرتے ہیں کہ فرض کیا امریکہ کی حکومت یا امریکی نے اے بی ڈی سی پارٹی کوایک ملین کے فنڈنگ کی ہے تو اس کا کوئی مفاد ہوگا اس کی کوئی دلچسپی ہوگی اور اس ساری دلچسپی میں اپنے ملک یعنی امریکہ کا کوئی فائدہ یعنی کوئی ایجنڈا ہوگا۔ کیونکہ ہونے والی فنڈنگ کسی رفاعی فلاحی تنظیم کو نہیں ہوئی ایک سیاسی پارٹی کو ہوئی ہے ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے ہیں کہ یہ مشترکہ مفاد والی بات ہے یہ ریاست اور شہری کے مفادات کی بات ہے یہ اسٹیک ہولڈرز والی بات ہے امریکہ یا کوئی امریکی ہماری ریاست کا اسٹیک ہولڈر نہیں وہ اس ملک(پاکستان)کے متعلقین نہیں

ایک سیاسی پارٹی کو فنڈنگ یا چندہ چیئریٹی نہیں جوکہ عام طور پر انسانی فلاح و بہبودیا انسانی ترقی کے لیے دی جاتی ہے ۔سیاسی پارٹی کو فنڈنگ یا چندہ اس پارٹی کو مضبوط اس پارٹی کو طاقت میں لانے اس کی کامیابی کے لیے دیا جاتا ہے۔ جیسے امریکہ میں ہوتا ہے امریکی شہری اپنی اپنی پارٹی کو اس کی کامیابی اس کی انتخابی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فنڈز پارٹی کو جمع کراتے ہیں اور یہ کوئی بری بات نہیںہے۔
پی ٹی آئی ایک مکمل طور پر سیاسی جماعت ہے کوئی غریبوں مسکینوں لاچارمریضوںدکھی انسانیت کے لیے کام کرنے والی تنظیم نہیں کہ وہ دنیا بھر کے ممالک سے وہاں چندہ اکھٹا کرتی پھرے ۔پی ٹی آئی ایک مکمل سیاسی جماعت ہے جوکہ سیاسی عمل پر یقین رکھتی ہے اوراس گارنٹی کے ساتھ کہ وہ اس سارے عمل کو جمہوری عمل سے گزارے گی۔ جب ایک جمہوری عمل کی بات ہوتی ہے تو اس میں عوام کی دلچسپی اور اس کی شمولیت و شرکت کو لازمی قرار دیا جائے گا ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی پارٹی کے اثاثہ جات ،اس کی آمد ن و اخراجات کے گوشواروں کو چیک کیا جائے تمام پارٹیوں سے اب تک یا کم از کم پچھلے دو الیکشن کے پارٹی فنڈز کا آڈٹ کرایا جائے۔ الیکشن کمیشن اس پراکتفا نہ کرے کہ بس جو کچھ ان کی (پارٹیوں)طرف سے جمع کرایا دیا گیا اس کو دفتر کی کسی الماری میں محفوظ کرلیا جائے۔ بلکہ اس کا بغور جائزہ لیا جائے ۔ یہی کچھ تو جے آئی ٹی نے کیا جائزہ لیا مانٹرنگ کی تصدیق کرائی ،کھوج لگایا اور لکھا کہ حکمرانوں کی آمدن اور ان کے طرز ندگی میں فرق ہے ۔ یعنی جے آئی ٹی مطمین نہیں ہوئی ۔ حکمرانوں کا لائف سٹائل اور ان کی آمدن کے ذرائع میں بہت بڑے”گیپ“ کو تلاش کیا گیا۔
 

Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 58662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.