نشان عبرت

عدلیہ ہمیشہ سے آمریت کی ساجھے دار رہی ہے۔بمشکل ہی کچھ لوگ ملیں گے جو عدلیہ میں رہتے ہوئے بھی آمریت کے خلاف کھڑے نظرآئے ۔ زیادہ تر یہی دیکھا گیا کہ اہل انصاف زمانے بھر کے آگے تو شیر بنے رہے ۔مگر جوں ہی آمریت کی با ت آئی ۔ان کا موقف یکا یکی بدل گیا۔اول تو فوجی انقلاب کو پہلی فرصت میں ہی درست بروقت اور انتہائی مناسب قرار دے دیاگیا۔یاپھر دنیا داری کے لیے کچھ وقت ٹال مٹول کرنے کے بعد مہر تصدیق ثبت کردی گئی۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ناں کہنے کی جسارت کی او ریہ ناں ان کی آئندہ زندگی کے لیے مستقل مصیبت بنادی گئی۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا دورہ کراچی اسی رویے کامظہر ہے۔فوجی حکمران نے چیف جسٹس کو دنیا بھر میں تماشہ بنادیا۔کراچی میں جب افتخار محمد چوہدری وکلا۔اور ججز حضرات سے ملاقات کے لیے پہنچے تو وفاداران آمریت نے کراچی کو مقتل بنادیا۔لوگوں کو گھروں میں مقیدرہنا پڑا۔اس قدر فائرنگ کی گئی۔کہ لوگوں کو سوائے گھروں میں دبک کربیٹھے رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔تمام راستے کنٹینر لگا کر بند کردیے گئے۔مقصد یہی تھا۔کہ چیف جسٹس کے استقبال کے لیے لوگ اکٹھے نہ ہوسکیں۔اس دنوں پورا کراچی کسی علاقہ غیر کا منظر بیان کررہاتھا۔عام آدمی کے آزادانہ نقل وحمل ۔آزادی کلام او رآزادی کاروبار کے تما م تر بنیادی حقوق چھن گئے۔جن لوگوں کی ذمہ دار ی ان بنیادی حقوق کی فراہمی تھا۔وہ اسی دن اسلام آباد میں ہاتھ لہرا لہر ا کر اس قتل وغارت کو اپنے حق میں عوامی طاقت کا مظاہرہ قرار دیرہے تھے۔عدلیہ کے ان لوگوں کو نشان عبرت بنا کر رکھ دیا گیا جنہوں نے آمریت کے خلاف کھڑے ہونے کی جسارت کی۔

جمہوریت آئین اور قانون کے حق میں آواز اٹھاناعدلیہ کے علاوہ میڈیا کے لیے بھی گھاٹے کا سودا رہاہے۔جو لوگ اس سودے کی طرف آئے ۔انہیں بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ممتاز صحافی سہیل وڑائچ سے متعلق خبریں ہیں کہ وہ مستقل طور پر امریکہ شفٹ ہورہے ہیں۔پاکستان سے مستقل چلے جانے کی خبروں نے دل اداس کردیا ہے۔وہ کیرئیر کے اس موڑ پر ہیں۔جہاں کامیابیوں کا عروج ہے۔سچی میں ان پر ہن برس رہاہے۔انہیں کم از کم برے مالی حالات کے سبب پاکستان نہیں چھوڑنا پڑ رہا۔ان کی اس ہجرت کے پیچھے شاید اپنے بچوں کے مستقبل کی سوچ کارفرماہو گی۔وہ پاکستانی نظام حکومت کا پچھلی کئی دہائیوں سے بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ان کاپاکستان چھوڑدیناپاکستانیوں کو ایک قیمتی اثاثے سے محروم کرنے کاگناہ تو ہے مگر مار ا کیا نہ کرتا کے مصداق انہیں اس کی بالکل اجازت بھی ہے۔او ر حق بھی۔

ملک میں پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت عوام میں بے چینی بڑھا رہی ہے۔جو بے بس ہیں وہ تو شاید اسی گھٹے گھٹے ماحول میں ہی دم توڑ یں گے۔البتہ سہیل ورائچ جسیے کچھ لوگ اس قابل ہیں کہ جب جی جاہا مال اسباب سمیٹا ااو رکوچ کرگئے۔جانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ہر باہوش اور ٹیلنڈآدمی پریشان ہے۔حالات کا ناآسودہ ہونا دکھ رہاہے۔یہ سوچ اب بہت زیادہ بڑھ رہی ہے کہ یا تو حالات بد ل جائیں یا پھر کسی اور طرف نکل جائیں۔اس بے ایمانی اور منافقانہ نظام حکمرانی سے بالکل دل اچاٹ ہورہاہے۔عدلیہ او رمیڈیا کے لیے زیادہ تشویش ناک حالات ہیں۔کوئی سیدھا سادہ ڈھور ڈ نگر تو قسمت کا کھیل سمجھ کر چپ ہوجائے۔مگر اس پڑھی لکھی کلاس کو کیسے اطمینان ہو۔وہ بھلا کیوں کر کچھ لوگوں کی بدنیتیوں کو قسمت کا دیا قرار دے دیں۔سہیل ورائچ ایک عرصہ سے پیپلزپارٹی کے ہمنوا رہے ہیں۔کچھ عرصہ سے وہ نوازشریف کی حمایت میں لکھ رہے تھے۔شاید پی پی قیادت کی پالیسیوں نے انہیں نکتہ نظر تبدیلی کرنے کا موقع دیا۔یا پھر وہ ایک متوازن صحافت کی کٹھالی میں تپ رہے ہیں۔اب نوازشریف کا جو عبرت ناک انجا م سامنے آیا ہے۔اس نے باشعور طبقے کو صدمہ پہنچایاہے۔سہیل ورائچ کے لیے یہ وقوعہ نا تو انہونی ہے۔اور نہ غیر متوقع ۔پھر بھی دکھ ہے۔اور کوفت بھی۔شاید دور دور تک کوئی اچھائی کی امید نظر نہ آنے کے سبب وہ اس فیصلے پر آمادہ ہوئے۔نوازشریف کے ساتھ ایک ملاقات میں جب میاں صاحب نے ان سے ان کے کالم میں گیم اوورلکھنے سے متعلق گلہ کیا تو سہیل ورائچ نے جوابا سوال کیا کہ آپ کس بنیاد پر پرامید ہیں۔تو تب میاں صاحب کے پاس بھی سوائے مسکراکر چپ ہوجانے کے کچھ نہ تھا۔

بے ترتیبی ۔بے یقینی او رعد م استحکام اس ملک کا مقدر بن چکا۔جب کبھی حالات بہتری کی جانے کی امید جاگتی ہے۔بدنیت شیطان متحرک ہوجاتے ہیں۔ڈھونگ ڈرامے شروع ہوجاتے ہیں۔مذہب تک کو بیچنے کا نیچ کام کیا جاتاہے۔ کوئی علامہ قران پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھاتاہے۔کہ وہ فسادکرنے نہیں بلوایا گیا۔بلکہ وہ قران وسنت کا نظام لانے نکلا ہے۔پھر ریاست کو بچانے کے نام پر کچھ لوگوں کی سیاست مٹانے کی سازش سامنے آجاتی ہے۔اپنے مذموم منصوبے میں ناکامی کے بعدقران وسنت نانذ کروانے والا دوبارہ ادھرہی لوٹ جاتاہے جدھر سے بلوایا گیاتھا۔اسلام کے نام پر بنائے گئے اس ملک کو جان بوجھ کر ان لوگوں کے لیے پناہ گاہ بنادیا گیاہے ۔جو بد کردار ہیں۔بد نیت ہیں۔اور گناہ گارہیں۔یہاں ان لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں جو اس سسٹم کو ناں کردیں۔ان کے لیے یا تو کراچی کا بارہ مئی ہے۔یا پھر امریکہ کی طرف ہجرت کرجانا۔ایسے لوگوں کو ہر حال میں نشان عبرت بنادیا جاتاہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.