پاکستان کے سیاسی معاشی بلکہ ہر طرح کے حالات کے اثرات
جسطرح پورے ملک میں ہوتے ہیں اسی طرح آزاد کشمیر گلگت بلتستان میں بھی اپنا
رنگ دکھاتے ہیں وہاں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے
انتخابی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے تو یہاں بھی سب ہی جماعتوں کی قیادت
کارکنان اپنی اپنی قیادت جماعت کے حق میں پرجوش نظر آتے ہیں وہاں آئینی
قانونی عدالتی محازوں پر معرکہ آرائی کے نتیجے میں وزیر اعظم شاہد خاقان
عباسی کی نئی کابینہ کے اجلاس میں سب فیصلے طویل مشاورت کے ساتھ اتفاق رائے
سے کیئے گئے ہیں ،وزیر خارجہ بنانے سے لیکر قومی اقتصادی کونسل کی سربراہی
وزیر اعظم کو دینے تک پالیسی سمیت سابقہ فیصلو ں طریقے کار کی تبدیلی نے
ثابت کر دیا ہے نئی کابینہ حقیقت کا ادارک کر چکی ہے۔ نصف سو رکنی کابینہ
نے ہر ہفتے اجلاس منعقد کر نے کا فیصلہ کیا ہے جو سات آٹھ ماہ بعد انتخابی
میدان کو پیش نظر رکھنے کا آئینہ دار ہے۔ وقت بہت کم اور مقابلہ بہت شدید
ہو گا جس کا تعلق آزاد کشمیر گلگت بلتستان کی حکومتوں سے بھی ہے وہ اپنے
انتخابی منشور کے مطابق نئی حکومت سے کتنے کام نکلواتی ہیں یہاں وزیر اعظم
فاروق حیدر کی اسلام آباد پریس کانفرنس کے بعد جو ماحول گرم ہوا تھا سب ہی
اپوزیشن جماعتوں کی قیادت میں ماسوائے ایک جماعت معمول کے ردعمل کے سواء
بڑے ظرف ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تھا مگر جب وزیر اعظم اپنے قائد نواز شریف
کے ساتھ ریلی میں لاہور تک جاپہنچے اور اپنی پریس کانفرنس سے اٹھنے والے
دھواں کی چنگاریاں وہ خود ہی بنے ہوئے ہیں تو پھر اپوزیشن جماعتوں کی قیادت
پر بھی واجب ہو گیا تھا وہ بھی جوابی کاروائی کریں جس کا آغاز پیپلزپارٹی
کے سینئر لیڈر و قائد حزب اختلاف چوہدری یٰسین کی طرف سے وزیراعظم کے خلا ف
ان کے متنازعہ بیان کو اپنے حلف سے انحراف کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسمبلی
سیکرٹریٹ میں ریفرنس جمع کروادیا ہے ،یقیناًاس پر سپیکر شاہ غلام قادر وہی
فیصلہ کریں گے جو قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے نواز شریف کے خلا ف
ریفرنس پر کیا تھا ۔یہ اپوزیشن کی طرف سے اگلے اقدام کے پراسس کا حصہ ہے جس
کے بعد عدالتوں کا رخ کیا جائے گا اور یہاں بھی سیاسی اتار چڑھاؤ کے ساتھ
عدالتی قانونی کشمکش شروع ہو گی۔جس کے علاوہ اپوزیشن کے پاس کوئی چارہ نہیں
تھا کیا کریں وزیر اعظم یوم سیاہ کے جلسے میں بھی میں نہیں مانتا اور اغواء
جیسے تیر پھینکنے سے باز نہیں آتے جن کو کم از کم خالصتاََ کشمیر کاز کا
جلسہ اور اس میں سکول کے بچوں کی موجودگی کا تو احساس کرنا چاہئے تھا وہ
کیا کہہ رہے ہیں بہت تلاش و بچار کے بعد ان پرمنیر نیازی کا یہ شعر صادق
آتا ہے:
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہو ئے رہنا
ایک آگ سی شعلوں کی دہکائے ہوئے رہنا
انکی ایوان میں سپیشل سیٹوں پر اتحادی جماعت اسلامی کے سابق امیر
عبدالرشیدترابی نے قومی قیادت رہنماؤں سے متنازعہ ایشو کو بھول جانے کی
اپیل کی مگر دوسرے ہی دن ان کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے وزیر اعظم
پر قومی ملی مفاد و تحریک کشمیر کی پیٹ میں چھرا گھونپنے کا فتوہء لگا
دیا،چھرا گھونپنے کا کرب خالد ابراہیم ہی جانتے ہیں جو خوش قسمت ہیں آغاز
میں ہی اپوزیشن بینچوں میں جا بیٹھے ورنہ بہت سارے لوگ اس سیٹ اپ کے گھنٹہ
گھر کے گھنٹوں منٹوں سیکنڈوں کی طرف سے بھی عزت و تکریم کی جال میں وحشتوں
کا شکار چلے آرہے ہیں جنکو زہر آلود خنجر برچھیاں کہنا ان خنجر اور برچھیوں
کی بھی توہین ہو گی جو پیٹ پر وار کرتے ہیں ۔ قتل تو معاف ہو سکتا ہے مگر
کیا کوئی اپنے دشمنوں کو اپنے سامنے لانے والوں کو معاف کر سکتا ہے ایسا تو
ممکن نہیں ہے تو پھر کابینہ ، پارلیمانی پارٹی جماعتی تنظیموں کی بیشتر
ارکان کی خاموشی یہی کہتی ہے بطور منیر نیازی (مرحوم ) جنکی شاعری سے سینئر
وزیر چوہدری طارق فاروق بھی بہت محبت رکھتے ہیں ۔
محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی |