منتوں، مرادوں سے پاؤں بھاری کیا ہوئے ہر طرف شادمانیاں
بکھرنے لگیں، ساسو ماں نے چہرے سے سرد مہری کا غلاف اتار پھینکا۔ بحر سکوت
میں مستغرق شریک حیات کے لب ریڈیو پاکستان بن گئے۔ اوہ۔۔ یہ وزنی چیزیں نہ
اٹھاؤ،، دیکھو اپنا خیال رکھا کرو۔ اور ہاں کچھ کھایا پیا بھی کرو،، دودھ
میں ڈبکیاں لگاتے بادام بھی پیش خدمت کئے جانے لگے، سکھیاں بھی میٹھی میٹھی
سرگوشیاں کرنے لگیں، روزبروز بھاری ہوتی کوکھ کے بھار سے لاپروا، پہروں
اپنی ہاتھوں کی ریکھاؤں میں کھو کھو جاتی خاص طور پہ اس لکیر میں جو چوڑیاں
بیچنے والی نے آٹے کی دو تھالیاں لے کے بتائی تھی۔ اور جس دن اس کے پہلو
میں درد کی شدت سے ہلکی سی پھڑک ہوئی تھی تو رات گئے آنے والے شوہر کو کتنا
خوش ہو کے بتایا تھا۔ آخر آ گیا وہ دن جس کے انتظار میں مہینوں بیت گئے تھے۔
درد و کرب کی معراج شاید یہی تھی کہ جب اس کی چیخ اس کے حلق میں اٹک گئی
اور اس کے کانوں میں نومولود کی چیخ پڑتے ہی سانسیں واپس آ گئیں۔ ایک بار
تو اسے لگا کہ قبر کی تاریکیوں سے ہو کے لوٹی ہے۔ بس یہ وہ لمحہ تھا جس نے
صدیوں کی تھکن کو مات دی ہو۔ بحث و تمحیص کے بعد نام چنا گیا حامد۔۔
شیر خوارگی کی لوریوں سے توتلی گویائی تک کے مراحل کو الفاظ میں سمیٹنے سے
راقم تو قاصر ہے لیکن وہ مامتا ہی بتا سکتی ہے جس کو چوس چوس کر حامد نے
ماما کا لفظ الاپنا شروع کیا۔ لرزتی ٹانگوں پہ کھڑے ہونے سے لے کر پہلا قدم
اٹھانے کے نتیجے میں پوپلے چہرے کے بدلتے رنگوں کو آیات کی طرح اپنی
یادداشتوں کے غلاف میں رکھتی اول الاولین معلمہ کے دل کے غنچے پھولوں کے
شگوفوں کی طرح کھلتے رہے جیسے جیسے اس نونہال کی پرورش میں لمحہ بہ لمحہ
گھائل ہوتی رہی۔
ہڈیوں کی خستگیوں سے پختگیوں تک کے بچپن سے لڑکپن کے ادوار دل کی ایک ایک
دھڑکن سے نکلتے الحفیظ ،، الامان کے ورود کی پناہوں میں منزل شباب کی راہوں
پہ گامزن تھے۔ 10 اگست کا دن گزرا۔ رات بھیگ چکی تھی اچانک ماں کی آنکھ
کھلی کسی انجانے خوف سے سہمی نے لائٹ جلا کے دیکھا تو حامد بالکل سیدھا بے
سدھ سو رہا تھا۔ اﷲ جانے کونسے واہمے سے دل جھرجھری لیتا کانپ اٹھا کہ فورا
بیٹے کو کروٹ دلائی اور جوش مادرری سے پگھلتے دل کی شفقاتی حس کی تسکین میں
پیشانی پہ بوسہ دے ڈالا۔ صبح ضد کر کے سفید لباس پہننے والا بیٹا اپنے ہم
جولیوں کی ایسی ٹولی کے ہمراہ چل نکلا جن کو سیاست کے داؤ پیچ کی سوجھ بوجھ
تو کیا شاید یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ سڑک پہ لگے جمگھٹے کے مقاصد میں کیا
پنہاں تھا۔ لالہ موسیٰ کی شاہراہ کے اطراف میں کھڑے تماشبین امرا اور وزرا
کی امارتوں کی نمائش کرتی پر تعیش، چمکیلی گاڑیوں کی دمدماہٹ، شور کی
آلودگی کے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتی لاؤڈ سپیکرز کی دھمدھماہٹ،
زناٹے بھرتی ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں کی گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، رعب و دبدبے
کی دھاک بٹھاتی متکبر شخصیات کی چمچماہٹ کا نظارہ کرنے میں مصروف عمل تھے
کہ 265 اسلام آباد نمبری سیاہ گاڑی حامد کے پاؤں پہ چڑھ دوڑی،، چیخوں کی
صدائیں بلند ہوئیں ،، رکو ، رکو ،، رکو ،، لیکن مجال ہے جو خنجر قاتل نے
ذرہ بھی سستی کی ہو۔ گھمنڈی سماعتوں پہ جوں تک نہ رینگی اور پچھلے ٹائر بھی
گردن کی نازک ہڈیوں کو کچلتے آگے بڑھ گئے۔ مصنفہ، ادیبہ محترمہ صبا ممتاز
بانو نے کیا خوب پوسٹ لگائی
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر
تڑپتے حامد کو راہگیروں کی مدد سے تاخیر سے ہسپتال پہنچایا گیا کیونکہ نا
اہل کی نا اہلی کی وجہ سے سڑکیں بند تھیں ، قافلے میں موجود ایمبولینسز اور
ڈاکٹرز شاید انسانیت کے مسیحا نہیں بلکہ بربریت کے علمبردار تھے۔
اپنے قدموں پہ چل کے جانے والے سفید پوش کو جب چار کاندھوں نے گھر کے صحن
میں اتارا تو گلابی خون میں رنگین میت پہ مامتا کیسے کرلائی۔ اولاد رکھنے
والے سمجھ سکتے ہیں۔ کہرام بپا ہوا۔ دادی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا
گیا، کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو، ماتم کدے میں چیختے بین قیامت کا
غضب ڈھانے لگے۔ قسمت ماری مامتا کی گریہ زدہ زاریوں، درد انسانیت کی
ہچکیوں، نوحہ غم کرتی سسکاریوں، کلمات افسوس و حسرت ہائے وائے کی صداؤں سے
کراہتی آہوں میں منوں مٹی کے ڈھیر تلے حامد دفن ہو گیا-
جب بے ہنگم لشکر کے رہبر کو خبر پہنچائی گئی تو فسطائیت کے نشے میں سرشار
مداری نے ننھے مقتول کو جمہوریت کا پہلا شہید قرار دے کر راہ فرار اختیار
کی لیکن جنازے میں شرکت کی زحمت کسی سیاسی شخصیت سے نہ ہو سکی۔
تواریخ عالم کے سراغرسانوں کا کھوج بتاتا ہے کہ خطہ ارض ایران پہ حکومت عدل
و انصاف کی وہ داغ بیل ڈالی کہ آسمان دنیا پہ آج بھی قوس قزح کی طرح دمکتا
نام نوشیرواں عادل کا ہے۔ دوران شکار ایک دن مذکورہ بادشاہ کے ترکش سے
نکلنے والا تیر ناگاہ ایک نو دمیدہ جوان کے سینے میں جا پیوست ہوا۔ جس سے
برموقع اس کی موت واقع ہو گئی۔ عدل نوشیروانی دور امتحاں میں آ کھڑا ہوا۔
سب کی نگاہیں مخزن انصاف پہ آ ساکت ہوئیں۔ ادھر ایک سن رسیدہ سر کی چاندیاں
کھولے بیٹے کی میت پر بین کر رہی تھی۔ نوشیرواں کے حکم پر خزانچی نے رائج
الوقت سکوں سے بھری گٹھڑی حاضر کی۔ نیام سے آزاد کردہ ایک تلوار کو طشتری
میں رکھا اور جا کر دونوں کو زخمی مامتا کے قدموں میں رکھ دیا۔ سر جھکائے
بادشاہ مقتول کی ماں کے سامنے گویا ہوا کہ خطا کے نتیجے میں چلنے والے تیر
سے واقع ہونے والی موت کا ذمہ دار حاضر ہے چاہو تو خون بہا لے لو چاہو تو
سر تن سے جدا کر دو۔ نالہ و فریاد کرتی بوڑھی کے جھریاں زدہ چہرے پہ آثار
طمانیت ابھرے اور بادشاہ سلامت کو معافی مل گئی-
نوشیرواں کا تیر بھی بھول چوک میں لگا تھا۔ اس نے تو فریاد کناں مامتا کے
زخموں پہ مرہم رکھ کر ایک مثال قائم کر دی تھی۔۔ آج کے زمام اقتدار و
اختیار سنبھالنے والوں میں ہے کوئی اخلاقی جرات؟؟ ہے کوئی لالہ موسیٰ کے
محلہ رحمت آباد کی اجڑی گود کی مالکہ کے رستے زخموں کی مسیحائی کرنے والا؟؟
سیاسی سکورنگ میں جمشید دستی کی صفائی میں وکیل کھڑا کرنے والی جماعت میں
سے ہے کوئی داد رسی کروانے والا؟؟
انصاف کی دل برداشتگی پہ آنسو ضرور بہاؤ لیکن معصوموں کے خون کی ندیاں مت
بہاؤ۔ ابھی تک کسی نے یہ جاننے کی کوشش تک نہیں کی مقامی ایم این اے کس قدر
دباؤ ڈال رہا ہے پسماندگان پر۔
آپ اہل ہو یا نا اہل؟؟ لیکن گر آپ اپنے آپ کو اہل ثابت کرنا چاہتے ہو تو
دہرا دو نوشیرواں کی تاریخ اور اس کالی گاڑی کے سوار متکبر قاتل کو لے آؤ
سامنے جس کے خون آلود ہاتھوں پر دستانے چڑھانے کے لئے آپ کی مرضی یا بغیر
مرضی سے ایک ایم این اے زخم خوردہ بابا کو مسلسل ستا رہا ہے۔
گیدڑ کی شامت آتی ہے تو شہر کو بھاگتا ہے، یہ تو سن رکھا تھا لیکن شیر کی
شامت پہ اس کو پہلی بار شہر کی طرف دوڑتا دیکھا-
قارئین کرام۔ ہم ہی پاگل اور جاہل ہیں کہ قانون ساز اسمبلی کے سالوں اعظم
وزیر رہنے والے کے گلے میں جب آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ کا ہار پہنایا گیا
تو لمحاتی توقف کے بغیر فیصلے کی قبولیت کا باقاعدہ اعلان کرنے والا آج کسی
شعبدہ باز کی طرح جی ٹی روڈ کے ہر چوراہے پہ ناٹک لگا ئے لوگوں سے پوچھ رہا
تھا کیا آپ کو فیصلہ قبول ہے ؟؟
ظالموں ، جابروں، یزیدوں، ہلاکوؤں، چنگیزوں کے جبر و استبداد کی کہانیاں تو
پڑھی ہونگی لیکن ظلم و ستم رقم کرتی داستاں کا مشاہدہ کرنا ہو تو شریفوں کی
قاتل ریلی کی وڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، کسی نے ان کی نام نہاد شرافت کا دم
بھرنا ہو تو حامد کی ماں کے پھٹے کلیجے کو بھی یاد ضرور رکھے جس ماں نے
حامد کو مانگتے ہوئیمانی ہوئی منتیں مرادیں بھی ابھی پوری نہیں کی تھیں۔
انصاف کے دعویدار منصفین کی خاموشی بھی ایک سوال اٹھاتی ہے کہ بڑی گردنوں
کو پکڑنے کے اعلان کرنے والو اپنے کئے گئے فیصلوں کی لاج بھی پوری طرح رکھ
لو تو آنے والے زمانے کے قارئین کو بھی انصاف کی تاریخ میں آپ کا نام جلی
حروف میں لکھا ملے گا۔
عدلیہ کے خلاف اعلانیہ لشکر کشی کرنے والے ایک غریب رکشا ڈرائیور کے بیٹے
کو دندناتی گاڑیوں کے نیچے مسلتے گزر جاتے ہیں، تو نہ اہانت عدالت لگتی ہے
نہ بالا عدالت اس پہ سوموٹو لے سکتی ہے۔۔ یہ ایک سراپا سوال ہے
من قتل نفسا فقد قتل الناس جمیعا
جس نے ایک انسان کو مارا سارے انسانوں ( انسانیت ) کو قتل کر دیا
نوجوانوں کے تاریک مستقبل کو اپنی نااہلی سے مربوط کرنے والے قراؤن مقدس کے
اس ارشاد گرامی کو بھی ذرہ ضرورر تلاوت فرما لیں
|