نااہلی کے فیصلہ پر نواز شریف نے عوامی عدالت سے رجوع
شاید اس یقین کے ساتھ کیا کہ عوام عدالتی فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار
کریں گے اور انہیں مظلومیت کا سرٹیفیکٹ مل جائے گا۔ مظلومیت کا سرٹیفیکٹ تو
نہ مل سکا لیکن یہ ضرور ہوا کہ نواز شریف اپنی جماعت اور حکومت پر اپنی
گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پارٹی اور حکومتی فیصلے ابھی تک نواز
شریف خود ہی کر رہے ہیں۔ اس امر میں سفر لاہور کا بہت عمل دخل ہے ورگرنہ
صورتحال مختلف ہوتی اور یہ بھی ممکن تھا پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ فوری شروع
ہوجاتی اور پارٹی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہوتی۔پارٹی کے اندر نوازشریف
نے اپنی مقبولیت ثابت کرکے بہت کچھ بچا لیا ہے۔یہاں تک تو نواز شریف کی
باتیں درست ہیں لیکن غم وغصے کی کیفیت میں انقلاب ، نظام بدلنے کے نعرے اور
مجھے کیوں نکالا کی گردان نے عوامی سطح پر نواز شریف کو مذاق بنا کر رکھ
دیا ہے۔ نواز شریف اپنے ذومعنی خطابات کے باعث طاہر القادری اور عمران خان
کی صف میں جا کھڑے ہوئے ہیں ۔ نواز شریف آج بھی اشرافیہ اور سرمایہ داروں
کے نمائندے ہیں اور کل بھی تھے۔کل تک موصوف نظام بچانے کیلئے مصروف جدوجہد
تھے ۔ طاہر القادری اور عمران خان کے دوہرے معیار اور ننگے تضادات نے انہیں
عوام میں بے توقیر کیا ہے۔ آج میاں نوازشریف نے بھی وہی راگنی شروع کردی ہے۔
میاں صاحب ملک قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ اس وقت ملک و قوم کو قیادت کی
ضرورت ہے۔ محترمہ بے نظر بھٹو کی شہادت کے بعد بطور قیادت آپ کا ہی نام
نامی آتا ہے۔ مگر آپ ملک و قوم کو قیادت دینے کی بجائے اپنے عزیز و اقارب
کو نوازتے رہے ہیں۔ حالات نے رخ بدلا ہے ۔ آپ نے پھر عوام سے رجوع کیا ہے ۔
عوام پہلے آپ کو آزما چکی ہے۔ اب کی بار اگر آپ سچائی پر کھڑے ہیں تو آپ کو
سچائی کا راستہ بھی اختیار کرنا ہوگا۔ اپنی سچائی کو ثابت بھی کرنا ہوگا۔
دلوں کے بھیت تو اﷲ جانتا ہے۔ آپ کے دل میں کیا ہے۔ حالات و واقعات اور
حادثات نے اگر کوئی تبدیلی پیدا کی ہے تو یہ ہوسکتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا
سکتا ہے کہ انسان ایک جیسا ہی رہتا ہے اور اس میں تبدیلیاں نہیں ہوتیں ہیں
۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جو پہلے ڈاکو اور چور تھے
لیکن وہ قطب بن گے۔ انسانی سوچ بدلتی ہے۔ امید ہے میاں صاحب بھی بدلے ہوں
گے۔ میاں صاحب سے پھر بھی سوال بنتا ہے ۔ میاں صاحب اگر سچ میں کچھ بدل گیا
ہے تو بڑا پن اختیار کریں ۔ ویسے بھی آپ بڑے لیڈر ہیں ۔ لیڈروں والی بات
کریں۔ ایکبار پھر سفر پر نکلیں ۔ اپنی ذات کیلئے نہیں ۔ قوم کیلئے نکلیں۔
پاکستان کیلئے نکلیں ۔ جمہوریت کے استحکام کیلئے نکلیں۔ پیپلزپارٹی سے بات
کریں ۔ اے این پی کو ساتھ لیں۔ ایم کیو ایم کا ہاتھ پکڑیں ۔ اپنی جماعت کی
صفیں درست کریں۔ پارٹی کی تشکیل نو کریں۔ تنظیم سازی پر توجہ دیں۔ مسلم لیگ
سے ن ہٹا کر حقیقی جمہوری پارٹی بنائیں۔ تھوڑی سی دولت پارٹی اور عوام پر
بھی خرچ کریں ۔ پھر آپ کا یہ مذاق نہیں بنایا جائیگا کہ مجھے کیوں نکالا ،
مجھے کیوں نکالا ۔ عوام حقیقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ آپ سچ میں
انقلاب بپا کر سکو گے۔ آپ حقیقت میں نظام بدل سیکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ
اس وقت آپ کے سوا دوسرا کوئی بھی نہیں ہے جو قیادت کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
آپ ناہل ہو کر بھی قیادت کے اہل ہو۔
چھوڑ دیں یہ نظر ثانی اپیلیں ۔ چھوڑ دیں عدالتی فیصلے کا رونا ۔ یہی وقت ہے
۔ مواقع بار بار نہیں ملتے ہیں ۔ کچھ ملک و قوم کیلئے کر گزریں۔ نئی تاریخ
رقم کرتے جائیں۔ نکلیں سفر جمہوریت کیلئے نکلیں۔ پھر نکلیں۔ |