حریت پسند قو میں اپنی تاریخ قلم کے بجائے نو ک شمشیر سے
رقم کرتی ہیں ان میں سیا سی داؤ پیچ کے بجائے ان کی رگو ں میں گردش کرنے
والا سرخ لہو کام آتا ہے ۔صدیو ں سے آزادی کی تحریک میں ایسی قربا نیو ں کے
سلسلے چلتے آرہے ہیں اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک کرہ ارض کا ہر انسا ن
آزا دی اور حریت کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہو جاتا ۔
اہل نظر کشمیر کو جنت نظیر بھی کہتے ہیں یہ خطہ چو دہویں کے چا ند کی طرح
ہے گز شتہ صدی کی تا ریخ گو اہ ہے کہ سر زمین کشمیر کے باسیو ں نے گلشن
کشمیر پر چھا ئی سونی خزاں کو بہا ر آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے کسی بھی
قربا نی سے دریخ نہیں کیا گیا ۔اس دئیے نے 13جو لائی 1931کو جن نو جو انو ں
سے دینی وملی حمیت کا مظا ہرہ کیا ان کی جلا ئی ہو ئی شمع سے اتنی شمع روشن
کیں انہی شمعوں نے آج سے 63سال پہلے اس منزل کے راہوں کے ایک قافلے نے دھیر
کو ٹ سے جنوب مشرق کی طرف دس میل کے فا صلے پر تقریباً سا ڑھے چھے ہزار فٹ
بلندی پر واقع ایک ٹیلہ جسے نیلہ بٹ کہتے ہیں اس عہد کے اعلان کے لئے منتخب
کیا مہا راجہ ہری سنگھ نے مسلما نا ن کشمیر کو ہند وستا ن کا غلام بنا نے
کے لئے جو سا زش کی ہے جس کی تکمیل کے لئے اس نے مجا ہدین کی اس سر زمین پر
ڈ وگرہ فو ج کے دستے مقبو ض کر دےئے جہا د کے لئے ڈوگرہ فو ج کا مقا بلہ
کیا جائے ۔یہ فیصلہ با رش کا پہلہ قطرہ ثا بت ہو ا جو نیلہ بٹ کے مقا م پر
سر فر و شو ں کے قا فلے کی قیا دت 23سا لہ نو جوا ن سردا ر عبدالقیو م خان
کر رہے تھے تحریک آزادی کشمیر میں اس جلسے کی اہمیت جس کی صدا رت سردا ر
عبدالقیو م خان نے کی آج اسی بارش کے پہلے قطرے نے پو رے کشمیر میں ایک جہا
د آزادی ک وایک نئی جلا بخشی ان خدمات کی وجہ سے سردا ر عبدالقیو م خان کو
مجا ہد اوّل کہا جا تا ہے ۔
نیلہ بٹ کے مقام پر ہو نے والا یہ جلسہ ایک تا ریخی حیثیت کا حامل ہے اس
میں اطراف و اکشا ف کے لو گو ں نے بھی شرکت کی اس جلسہ کی صدا رت پیر شمشا
د حسین مر حوم نے فر مائی سید مظفر حسین ،سردا ر عبدا لغفا ر خان ،سید صا
دق شاہ نے تقا ریر کیں اس جلسہ سے مجاہد اوّل سردار عبدالقیو م خان نے بھی
خطا ب کیا ۔ مجاہد اوّل سردار عبدالقیو م خان ا س تحریک آزادی کے روئے رواں
تھے ۔انہوں نے 1946ء میں فو جی ملازمت کو خیر آباد کہہ کر خو د کو تحریک
آزادی کشمیر کے لئے وقف کر دیا ان کے شب وروز اس کو شش میں گزرنے لگے کہ یہ
غلا می کا طو ق کس طرح گلے سے اتا ر پھینکا جائے جو تقد یر کی ستم ظریفی نے
مسلما نان کشمیر کے مقدر میں لکھی تھی ۔23اگست947 1ء کو بھی انہو ں نے تمام
مصلحتو ں کو با لائے طا ق اعلان کیا کہ مہا راجہ ہری سنگھ مسلما ن ہو جائے
اور کشمیر کا الحا ق پا کستا ن کے ساتھ کرے ورنہ اس کے خلا ف جہا د کیا
جائے گا ۔چنا نچہ اس کے بعد قرآن حکیم کو گواہ بنا ہ کر وہا ں پر خو د سب
سر فروشو ں نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ سردار عبدالقیو م خان کی قیا دت میں
جہا د میں بھر پو ر حصہ لیں گے اور کو ئی شخص یہا ں سے واپس نہیں جائے گا ۔
ان حا لات میں یہ جرات مند فیصلہ کیا اس کا اندازہ وہی لو گ لگا سکتے ہیں
جو یا اس دور میں مو جو د تھے یا جن کو تاریخ کا گہراشعور ہے ۔اس وقت میں
مہا راجہ کے خلاف بات کرنا بھی جرات مندانہ اقدام تھا چنا نچہ کھلم کھلا
اعلان بغا وت کا فیصلہ جرات مندانہ تھا ۔ایک مخلص اور درد بھرا دل رکھنے
والے مجا ہد اوّل کی آواز نے با رش کے پہلے قطرے کا کام کیا جو بیٹھا تھا
کھڑا ہو گیا جو کھڑ اتھا وہ چل پڑا جو چل رہا تھا دوڑ پڑا لو گو ں نے سینہ
تا ن کر اس صدا پر لبیک کہا اور دیکھتے دیکھتے سارے پو نچھ میں آزادی کے
متوالے مصروف جہا د مہا راجہ کے اقتدار کو ملیا میٹ کرنے لگے ۔
الغرض ساری ریا ست کے مسلما ن اپنے اپنے انداز میں شریک تھے اور قربا نیا ں
پیش کر رہے تھے انسانی فطرت یہ کہ وہ جس چیز کو یا د رکھتا ہے اسے بار بار
دہرا تا ہے یو م نیلا بٹ دراصل ہمیں جذ بوں کی اس عظمت قربا نیو ں کی اس
داستان فکر کی اور جذبہ ایمان کی یا د تا زہ کرتا ہے ۔ مجاہد اوّل سردار
عبدالقیو م خان نے اسلحہ کہ فراہمی کے لئے رات کی تا ریکی میں دریا ئے جہلم
کو عبور کیا اور مری کے علا قہ سے اسلحہ اور مسلما نو ں کی حمائیت حاصل
کرنے میں کامیا ب ہو ئے یہ بہت بڑی کامیا بی تھی کیو ں کہ ریا ستی ڈوگرہ
مہا راجہ نے کسی قسم کا اسلحہ رکھنے کی کب اجا زت دی تھی چنا نچہ بعد از
مشکلات یکم اکتو بر کو سردار عبدالقیوم خا ن اسلحہ لے کر واپس نیلہ بٹ
پہنچے اس میں دس تو ڑے دار بند وقیں شامل تھیں جو راجہ گل مجید خان کی کو
ششو ں سے میسر آسکیں اور خان عبدالقیو م خان نے صو بہ سرحد سے تین سو
بندوقیں فراہم کیں 2اکتو بر کو دھیر کوٹ تھا نہ سے بھی ہلہ بول کر اسلحہ حا
صل کیا گیا ۔
جہا د آزادی کا آغا ز تحصیل باغ سے ہو چکا تھا جس کا دائرہ کا ر پھیلتے
پھیلتے را ولا کوٹ ،پلندری ،کو ٹلی ،میر پو ر ،مظفرآباد ،گلگت تک پھیل گیا
ہر طرف نعرہ تکبیر کی گو نج میں آزادی کے متوالے داد سماعت دینے لگے پو لیس
اسٹیشن دھیر کوٹ سردار عبدالقیو م خان کی سربراہی میں جو حملہ کیا گیا اس
میں محمد لطیف خان شہید ہو ئے جن کا مزار دھیر کوٹ کے موڑ پر واقع ہے ۔
ہم سلام کرتے ہیں ان شہیدوں کو جن کا لہو آج بھی شفق بن کر آسمانوں کی زیست
بنا ہو اہے ہم کشمیری احسان مند ہیں ان مجاہدوں اور غا زیوں کے جنگی قربا
نیو ں کے طفیل ہم آج آزاد فزاؤں میں سانس لے رہے ہیں آج خطہ کشمیر آزاد
کشمیر کی صورت میں تحریک آزادی کے اس مجاہد کی خدمات سے منور ہوتا رہا ہے
۔تحریک کشمیر کے لئے مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان کے خاندان کی خدمات
کسی سے بھی پو شیدہ نہیں ہیں آ ج بھی ان کا سایہ شفقت کشمیری مسلمانو ں کو
جذ بہ حریت کو تقویت دیتا رہتا ہے ۔ مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان کے خا
ندان سردار عتیق احمدخان اور سردار عثمان علی خان اس کی ایک اہم کڑی ہیں ۔
|