امریکی سامراج سے چھٹکارا ضروری ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔

امریکی سامراج نے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی حکمت عملی ترتیب دے دی ہے، جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ ہے تو امریکی قوم کا صدر لیکن بنیادی طور پہ وہ امریکی کارپوریشنز کا ایک سیلز مین ہے جس نے پوری دنیا میں امریکی کمپنیوں کی پروڈکٹس کے لئے نئی منڈیوں کو تلاش کرنا ہے،نیز خام مال اور قدرتی وسائل تک مزید رسائی اور کنٹرول کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔یہ طے ہے کہ اب دنیا بھر میں جنگیں اور جنگی حکمت عملیاں صرف اور صرف معاشی وسائل تک رسائی اور قدرتی وسائل پہ کنٹرول کے لئے ہیں۔ امریکہ اس وقت دنیا بھر میں اپنی ٹیکنالوجی اور وسائل کے کنٹرول کے حوالے سے طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔امریکی جنگی اور معاشی استحصال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سامراجی تاریخ میں سب سے زیادہ قتل و غارت گری اور قوموں کو مفلوک الحال بنانے میں یہ سر فہرست رہا ہے۔ دنیا بھر کی اقوام کو اپنے زیر نگین کرنے کے لئے اقوام متحدہ کو تشکیل دینے اور پھر اسے اقوام کا استحصال کرنے کے لئے بھر پور طریقے سے استعمال کرنے میں اس کا کوئی مقابل نہیں۔منافقت اور ظلم و جبر کی انتہا یہ ہے کہ دنیا کی اقوام کو ایٹمی قوت بننے سے روکا اور خود بلا کسی روک ٹوک کے ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا۔ شرق و غرب تک امریکی افواج جہاں جہاں گئیں انہوں نے قتل و غارت گری اورقوموں کی عزت و عصمت کا تار تار کرنے کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ انسانیت کانپ جاتی ہے، قتل و غارت گری اور قوموں پہ چڑھائی کر کے انہیں نیست و نابود کرنے کی مثالیں عراق،افغانستان، شام، لیبیا اور افریقی ممالک ہیں جہاں زمینی وسائل پہ کنٹرول کے لئے ان اقوام کو جنگ میں جھونکا گیا اور ان پہ خطرناک ترین اسلحے کا بے دریغ استعمال کیا گیا،ان کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی،ان کے قومی اداروں کو تباہ کی گیا، ان کی قومی شناخت ختم کر دی گئی،ان اقوام میں قائم سیاسی اور معاشی نظاموں کو تباہ و برباد کر کے ان کے وسائل کو لوٹ لیا۔ عراق مڈل ایسٹ کا ایک مضبوط ملک تھا، جو بلکل یورپ جیسی ترقی کر رہا تھا، شام مضبوط ہو رہا تھا، لیبیا مضبوط ملک تھا،تباہ کر دئے گئے،افریقہ کے تمام چھوٹے ممالک صرف اس وجہ سے آپس میں لڑائی میں مصروف ہیں کہ امریکی سامراجی ایجنٹ وہاں یہ کام سر انجام دے رہے ہیں ایک طرف ان اقوام کو آپس میں گتھم گتھا کیا ہوا ہے تو دوسری طرف امریکی کمپنیوں نے ان کی ہیرے اور سونے کی کانوں میں اپنی نقب لگا رکھی ہے،عراق اور شام اور لیبیا کو تباہ کیا جا رہا ہے لیکن جہاں جہاں تیل اور گیس کی تنصیبات ہیں وہاں امن قائیم ہے اور امریکی کمپنیاں انتہائی تندہی سے ان وسائل پہ ہاتھ صاف کر رہی ہیں۔اب اس عالمی لوٹ کھسوٹ میں افغانستان کو بری طرح گھسیٹا گیا ہے۔

اگرجنوبی ایشیاء کا گذشہ تین چارعشروں کی تاریخ کا جائزہ لیں توامریکی سامراجی مفادات کا اس خطے میں سب سے بڑا محافظ ایران تھا،جہاں شاہ کی حکومت تھی، اور بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا دوسرا بڑا ہیڈ کوارٹر ایران میں تھا جہاں سے پورے ایشیاء کے اندر امریکی سامراجی مفادات کا تحفظ کیا جاتا تھا اور تمام سازشوں کا تانہ بانہ وہی سے بنا جاتا تھا، لیکن شاہ کے خلاف خمینی انقلاب نے اس خطے میں امریکی سامراجی سیاست میں انقلاب برپا کر دیا، انقلابیوں نے امریکی استحصالی کمپنیوں اور اور ان کی خفیہ ایجنسی کے نیٹ ورک کو ایران سے بے دخل کر دیا۔اور اس طرح امریکہ کا ایجنٹ شاہ اپنی بیگم کے ساتھ فرار ہوا اور اس کا انجام بھی وہی ہوا جو میر جعفر یا میر صادق کا ہوا کہ امریکہ نے اسے فرار کے بعد قبول نہیں کیا لہذا وہ جگہ جگہ در بدر پھرنے کے بعد انتہائی کسمپرسی میں ایک گمنام جگہ پہ مرا اور وہیں اسے خاموشی سے دفن کر دیا گیا،یہ ان امریکی سیاسی ایجنٹوں کے لئےعبرت کا مقام ہے جو اپنی اقوام کو امریکی مفادات کے حوالے کرتے ہیں اپنی اقوام سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کا انجام آخر ایسا عبرتناک ہوتا ہے۔

ایران سے بوریا بستر گول ہونے کے بعد اب امریکیوں کو ایک اور مضبوط ایجنٹ درکار تھا جو اپنے پورے ملک اور قوم کو امریکی مفادات کے تحت استعمال کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہو ،لہذا اس نے اس خطے کے دیگرممالک کا رخ کیا، انڈیا، روس، چین اس کے اثر سے اس وقت آزاد تھے، لہذا اس نے اس مقصد کے لئے پاکستان کا انتخاب کیا، یہ وہ پاکستان تھا جب ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو اس کو انتہائی عزت سے ایک سرکاری گیسٹ کے طور پہ شاندار استقبال کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا تھا، خود امریکی صدر نے ان کا استقبال کیا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی لہذا وہ اپنی مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھا، انہوں نے نہ صرف پروٹوکول دئیے بلکہ پاکستانی سول اور فوجی ارباب اختیار کو امریکی یاترہ کی ایسی لت ڈال دی کہ اب ہمارے حکمرانوں کے صبح و شام امریکہ ہی کی آشیر باد میں گذرتے تھے، جناب لیاقت علی خان کا وہ پہلا دورہ جو انہوں نے امریکہ سے شروع کیا اور پاکستان کو امریکی گود میں ڈالنے کا وہاں سے آغاز ہو گیا۔اور پھر رفتہ رفتہ "امداد" کے نام پہ قرضوں کا بوجھ لادا جانے لگا، ہمارے نااہل اور بکائو حکمران طبقات نے اس قوم کے ساتھ غداری کا آغاز اس وقت کیا جب انہوں نے اپنے قومی وسائل کے اندر رہتے ہوئے قومی معاشی پالیسی کے ذریعے اپنے پاوں پہ کھڑا کرنے کی بجائے انہوں نے نہ صرف اپنے ذاتی سیاسی اور مالی مفادات کے تحت اس ملک کو امریکی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھنا شروع کر دیا۔اس طرح قرضوں کو بوجھ لادا جانے لگا، حکمران خاندان اس قرضے کو لوٹتے رہے قوم کا بچہ بچہ مقروض ہوتا چلا گیا، نہ تعلیمی نظام میں بہتری آئی، نہ صحت کا نظام بہتر ہوا، نہ سیاسی استحکام ہوا اور نہ تجارت خسارے سے باہر نکلی، ہر شعبہ و ادارہ اپنی فرسودگی کا نوحہ پیٹتا رہا اور اب تو حالت ایسی ناگفتہ بہ ہے کہ سوائے ایک بے رحم انقلاب کے کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا۔

اس طرح جب فروری ۱۹۷۹ کو ایرانی انقلاب آیا تو امریکی خفیہ ایجنسی نے اپنا ٹھکانہ مکمل طور پہ پاکستان منتقل کر دیا، کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جو ان کے لئے ساز گار تھی اور وہ پہلے ہی سے پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر سیاسی حوالے سے کمزور کر چکے تھے،اب انہیں ایک ایسا حکمران چاہئے تھا جو ان بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے لہذا انہوں اس بد نصیب ملک کے لئے مارشل لاء کا انتخاب کیا اور ایک جمہوری وزیر اعظم کا تختہ الٹا کر جمہوری نظام کو تباہ کیا گیا اور ایک فوجی جنرل کو اگلے ایک عشرے تک استعمال کرنے کا منصوبہ بنا لیا، اسی دوران سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی {بظاہر یہ مداخلت کہا گیا}لیکن انہین باقاعدہ اس وقت کی افغان حکموت نے مداخلت کرنے کی دعوت دی تھی جس کا باقاعدہ ایک معاہدہ موجود تھا۔ اب چونکہ امریکی سی آئی اے پہلے ہی سے افغانستان میں مداخلت کا سلسلہ شروع کر چکی تھی لہذا اب امریکی سامراج نے ایک "اسلامی جہادی"کا روپ دھار لیا اور جناب جنرل صاحب اور پاکستانی قوم کے تمام وسائل اور افرادی قوت کو پوری قوت سے استعمال کر کے اس "جہاد"کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اب اس "اسلامی جہاد"'کو جو امریکی سی آئی اے نے"اسلام" کے نام پہ"سوشلزم""سرخ ریچھ" کے خلاف انجام دیا اور اس پہ بلین ڈالرز خرچ کر کے پایہ تکمیل تک پہنچایا اس میں نقصان صرف اور صرف اسلام کا،افغانی اور پاکستانی مسلمانوں کا ہوا،ان دونوں ممالک کے معاشرے سیاسی، معاشی، تہذیبی اعتبار سے تباہی وہ بربادی کا شکار ہوئے، تشدد و انتہا پسندی،منشیات فروشی اور دیگر جرائم نے معاشروں کا شیرازہ بکھیر دیا۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے مال بنایا، جائدادیں بنائیں اور قوم کا سودا کرتے رہے،کچھ اپنے انجام سے دوچار ہوئے اور کچھ ابھی بھی قومی غیرت کا سودا کرنے میں پیچھے نہیں۔

سوویت یونین کی شکست کے بعد امریکی سامراج نے مسلسل کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح وہاں مکمل کنٹرول کیا جائے اور اس کے لئے اپنے کاسہ لیس ایجنٹوں کے ذریعے کٹھ پتلی حکومت بنائی جائے لیکن وہ کئی دھائیوں کے بعد بھی شکست وریخت میں ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ جو"اسلامی جہادی کلچر"سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج نے ایجاد کیا تھا اب اس کے اپنے گلے پڑ گیا ہے،ایک طرف اس کے اپنے بنائے ہوئے دہشت گرد گروپ موجود ہیں جو اس کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں اور دوسری طرف اب وہ گروپ وجود میں آ چکے ہیں جو اس کے مفادات کے خلاف ہیں۔ اب دہشت گردی کے نام پہ جو گروپ موجود ہیں انہیں عالمی خفیہ ایجنسیاں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔یہی حال ہمارے خطے کا ہے،جہاں گوناگوں جہادی گروپس موجود ہیں جن کو ہر طرح کی امداد دے کر دہشت گردی کروائی جا رہی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکی سامراج کی مکمل نظر افغانی زمینی وسائل پہ ہے، خبریں آ رہی ہیں کہ امریکہ نے باقاعدہ ان وسائل میں سے اپنا حصہ مانگ لیا ہے۔ امریکی سامراجی کمپنیوں کی اس خطے کے حوالے سے نئی حکمت عملی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا ہے، ایک توسب سے بڑا چیلنج جو انہیں درپیش ہے وہ چین اور روس کے اس خطے میں بڑھتے ہوئے قدم ہیں، چین کی منڈیوں کی توسیع کو روکنے کے لئے اب امریکہ نے افغانستان میں اپنا اثر رسوخ مستقل اور مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے علاوہ اس خطے میں اب بھارت نے اپنے آپ کو مستقبل کے ایجنٹ کے طور پہ پیش کر دیا ہے،لہذا اب وہی ہو گا جو ماضی میں پاکستان کے ساتھ ہوا، اب بھارتی زمین، وسائل اور افرادی قوت امریکی مفادات کے تحت استعمال ہو گی،امریکی خفیہ اداروں کا گڑھ بھارت ہو گا، فوجی اڈے بنائے جائیں گے، چینی مفادات پہ حملے کئے جائیں گے، اور بھارتی معیشت کو تباہ و برباد کیا جائے گا، بھارتی سیاستدانوں اور دیگر طبقات میں اپنے ایجنٹ بنائے جائیں گے، بھارت کو اندرونی سازشوں میں ڈال کر کمزور کیا جائے گا، کیونکہ ایک کمزور بھارت ہی امریکی سامراجی مفادات کا بہتر طور پہ آلہ کار وہ سکتا ہے۔ افغانستان کی جنگ میں بھارت ملوث ہو چکا ہے،اور خاص طور پہ امریکی سی آئی اے بجائے خود اپنے وسائل برو ئے کار لا کر پاکستان کو کمزور کرے بلکہ وہ بھارتی اور افغانی ایجنسیوں سے یہ کام کروا رہی ہے،اس حوالے سے سرحدی علاقوں میں پاکستان کے خلاف سرگرم تمام دہشت گروپس، بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد گروپس تمام کو ان ہی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔اب وہ گروپس جو ان کو پاکستانی افواج ختم کر رہی ہیں،ان کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو اس لئے تسلیم نہیں کیا جا رہا کیونکہ وہ تو امریکی اور بھارتی خرچے پہ کام کر رہے ہیں۔اب امریکی خواہش ہے کہ پاکستانی افواج ان گروپوں کے خلاف مریں جو کہ امریکی سامراجی مفادات کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔اور اسی طرح بھارتی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی افواج ان گروپس کے خلاف ایکشن لے جو ان کے مفادات کے خلاف ہیں۔

اب سورتحال یہ ہے کہ چین نے اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات اور چین کی پاکستانی سمندروں تک رسائی اب امریکی سامراج کے لئے ناقابل برداشت ہو رہی ہے۔ بھارت ایک بغل بچے کی طرح امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کے خلاف ایک کھلی جنگ میں ملوث ہے۔

امریکی سامراج کی تازہ ترین حکمت عملی افغانستان کو اب مزید خون و خرابے سے دوچار کرے گی، امریکی فوجی بھی مریں گے اور افغانی بھی۔پاکستان کو زبردستی اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش ہو رہی ہے،اس پہ دباو بڑھایا جا رہا ہے،اندرونی طور پہ دہشت گردی کروا کر اور سیاسی اور معاشی سطح پہ بدترین ذلت سے ہمکنار کیا جا رہا ہے۔

در اصل معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ اس کی ذمہ داری سیاسی اور فوجی حکمرانوں پہ عائد ہوتی ہے،اگر اب بھی پاکستان کی سالمیت کو بچانا ہے تو اسے معاشی طور پہ امریکی سامراجی اداروں اور کمپنیوں سے آزاد کرنا پڑے گا۔ خدارا ریاستی اداروں کو خودکفالت کی طرف آنے کی حکمت عملی بنانا چاہئے،قرضوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے انقلابی بنیادوں پہ کام کرنا چاہئے، قومی خزانے کو چوری کر کے بیرون ملک بینکوں میں جمع شدہ سرمایے کو واپس لانے کے لئے چوروں کی نشاندہی ہو، چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے یا جماعت سے ہو ،انہیں فوراً گرفتار کیا جائے،اور اس سرمایے سے امریکی اداروں کے قرضے لٹائیں جائیں، اور مزید کسی بھی قسم کی امداد یا قرضہ امریکہ سے نہ لینے کے لئے باقاعدہ قانون بنایا جائے۔وقتی طور پہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا کر، تمام حکمران طبقات،افسران، بیورو کریٹس اور فوجی ارباب اختیار اپنی عیاشیوں اور آسائشوں اور مراعات کو ختم کریں۔ایک غریب قوم اور غریب ملک کے طور پہ اپنی معاشی خوشحالی اور معاشی خود کفالت کے لئے کمر بستہ ہو جائیں، اس ملک کے کروڑوں لوگ اگرچہ غریب ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ہمہ وقت ہم قدم ہوں گے، ہماری قوم میں جذبہ حب الوطنی کسی بھی قوم سے کم نہیں قربانی کا حوصلہ ہے۔ خدارا اپنے آپ کو امریکی سامراجی معاشی شکنجے سے آزاد کریں،اس سے ہماری سیاست اور خارجہ پالیسی آزاد ہو جائے گی،جب تک ہم اپنی معیشت کو مضبوط نہیں کر لیتے،دنیا کا کوئی بھی ملک ہمیں باعزت حیثیت نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔۔اس وقت صورتحال ایسی ہی مڈل ایسٹ سے کے کر دنیا بھر کی اقوام کے سامنے کہیں بھی ہماری کوئی حیثیت نہیں،نہ تعلیم میں،نہ صحت میں، نہ صنعت میں، نہ تجارت میں،نہ سیاست میں، نہ کلچر میں،کچھ تو ہو جس پہ دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں۔اےحکمرانو ۔۔۔۔ کروڑوں انسانوں کو ذلیل نہ کرو۔۔۔۔۔۔اگر تمہارے پاس اختیار ہے تو اس کا درست استعمال کرو۔۔۔۔وگرنہ یاد رکھو یہ اختیار چھننے میں دیر نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔اب بھی وقت ہے اس ملک کے نظام کو ٹھیک کر لو۔۔۔۔وگرنہ انقلاب کے لئے تیار ہو جاو۔۔۔۔۔اب یہ قوم مزید ذلت نہیں سہہ سکتی۔۔۔۔امریکی سامراج کے اثر سے نکلنے کے راستہ صرف اور صرف معاشی خودکفالت اور اس کے دئیے گئے قرضوں سے نجات ہے اور آئندہ کے لئے امریکی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں پہ پاکستان میں پابندی ہی سے ہماری آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔



 

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136312 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More