سیاستدان برائے فروخت

 ہم نے کسی سے سنا کہ اپنے محلے کا فیکا آج کل بڑاہی پریشان ہے، دوایک محلہ داروں کی زبانی سننے پراشتیاق ابھرا کہ معلوم کیا جائے آخر ایسی کونسی آفت آن پڑی ہے جس کی بدولت فیکے جیسا بندہ بھی پریشان ہے ،صحافتی رگ پھڑکی اورہم نے دو ایک ایسے آوارہ مزاج کھوجیوں کے ذمہ لگادیا کہ وہ اس راز سے پردہ اٹھائیں۔ اگلا دن ہمارے لئے کئی حیرانیوں کاباعث بن گیا، صبح صبح مخبروں نے خبردی کہ فیکے کی پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ راتوں رات امیر ہونا اس کیلئے پریشانی کاباعث بن گیا ہے، اب اصل پریشانی یہ نہیں کہ اس کے پاس دولت آگئی بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ وہ اس کوخرچ کیسے کرے؟ اس نے کئی لوگوں کے سامنے مسئلہ رکھا کہ آخر وہ ایسا کونسا کاروبارکرے جس میں ایک لگانے پرپچا س ملیں اورپچا س کے بدلے ایک ہزار،کئی لوگوں نے ذہن لڑایا مگر کسی کا داؤ نہ چلا، کسی نے بیوپار کامشورہ دیا تو کسی نے دوسرے کاروبار کا ،مگرکسی کی بھی نہ چل سکا نہ بیوپار کامشورہ کام آیا نہ کاروبار کا ،اب یہ روٹین بن گئی کہ اندھیرا چھاتے ہی کئی مشیران فیکے کے گھر (جسے اب اس نے باقاعدہ ڈیرے کی شکل دیدی تھی) پہنچ جاتے ، ایک فیکے کے کان سے لگتا تو دوسرا انتظار میں کھڑاہوتا کہ کب اس کی باری آتی ہے۔ خیر کئی دن تک یہ ڈرامہ چلتا رہا لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہ آسکا۔اب تو باقاعدہ اس کے ڈیرے پر رونق میلہ لگنے لگا، چائے پانی ٹھنڈا سمیت سبھی کچھ موجودتھا لیکن فیکے کی پریشانی ختم ہونے کانام تک نہیں لے رہی تھی۔ مہینہ ڈیڑھ بعد پھر چہ مگوئیاں سنیں کہ آخرفیکے کے پاس دولت کتنی ہے جس کے بل بوتے پر وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے جس کے بدلے ایک سے پچاس اورپچاس سے ایک ہزارملیں۔ ایک دومشہور زمانہ ’’جہاز ‘‘ مشورہ دینے پہنچے مگر ناکامی ہوئی ،کئی ایک’’دل پشوری‘‘والے بھی تھے لیکن ان کا فراہم کردہ ’’حسن نوخیز‘‘ بھی فیکے کو مطمئن نہ کرسکا بڑھتے بڑھتے بات یہاں تک آن پہنچی کہ محلہ دار فیکے کو خبطی اور نجانے کیا کیا کہنے لگے، ان ساری باتوں سے ہم لاعلم تھے لیکن ہمارے آوارہ گرد کھوجیوں نے ایک ایک لمحے کی رپورٹ لینااپنافرض سمجھ کر ادھر ادھر تانکا جھانکی بھی نہ چھوڑی۔ اورپھر ہفتہ بھر کی محنت کے بعد ان کی رپورٹ ہمارے کانوں میں انڈیلی جانے لگی، کچھ واقعات سراسر غیر حقیقی لگے ہم ماننے کوتیارنہ تھے مثلاً․․․․․اچھا چھوڑئیے ان واقعات کا فیکے کی ذاتی زندگی سے تعلق تھا ، کئی رنگین کہانیاں بھی مخبروں نے سنائیں مگر ہماری دلچسپی کا اصل مرکز یہ تھا کہ آخر فیکے نے کونسا کاروبار کرنے کا سوچ لیا ہے، لیکن کھوجی ادھرادھر کی گھمن گھیریو ں میں ہماری مطلوبہ معلومات دینے سے قاصر تھے۔ ایک گھنٹہ کی طویل گفت وشنید کا نتیجہ یہ نکلا کہ فیکا تاحال کوئی کاروبار نہیں سوچ سکا۔

ہم اپنی مصروفیات میں شایدیہ بھول جاتے لیکن ایک دن قانون دان دوست کے ہاں کسی مشورے کیلئے جانا ہوا ، کچھ صحافتی امور درپیش تھے ان سے مشاورت جاری تھی کہ اچانک چھوٹے بچے نے آکرہمارے دوست کو اطلاع دی کہ فیکا ملنے آیا ہے ،خیر فیکا جونہی اندر آیا تو ہمارے دوست سے ملنے کے بعد ہماری جانب ہاتھ بڑھایا ، انتہائی نرم وملائم ہاتھ، ناک کے نیچے چھوٹی چھوٹی مونچھیں اوران مونچھوں کے اوپر بڑی سی ناک، آنکھیں کچھ اندر کی جانب دھنسی ہوئیں مگر ان کا ہونا نہ ہونا ظاہرا ًکچھ زیادہ فائدہ مند یوں نہ تھا کہ فیکے نے اندھیرے میں بھی کالی عینک چڑھائے رکھنے کوعادت بنالیا تھا۔یہ ہماری فیکے سے پہلی ملاقات تھی، فیکے نے حسب سابق اپناروناشروع کردیا ، کوئی مشورہ، کوئی صلاح، کوئی کاروبار بتاؤ، جوظاہراً قانونی ہی ہو ، ایک کے پچاس ملیں اورپچاس کے ایک ہزار ، ہمارا وہ قانون دان دوست نہایت خاموشی سے اس کی باتیں سن رہاتھا ، آخر میں بولا ’’یار فیکے میں جہاں تک تمہاری ڈیمانڈتک پہنچاہوں اسکے مطابق میرے ذہن میں کوئی ایسا کاروبار نہیں آرہا ، ہاں اپنے کام سے فارغ ہوکر کچھ سوچ کر تمہیں بتاؤں گا‘‘فیکا ابھی مایوسی کے عالم میں اٹھنا ہی چاہتاتھا کہ ہم نے دخل دینا مناسب سمجھا اور بولے ’’فیکے،ایک مشورہ میں دوں‘‘ طرح طرح کے مشوروں سے تنگ فیکے نے نہایت ہی خوفناک انداز میں ہمیں گھورا اوربولا ’’ہونہہ‘‘ اب اس ’’ہونہہ ‘‘ کامطلب ہاں تھا یا ناں، اسکی خبرنہیں،کافی دیر تک فیکے کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے پوچھا ’’تمہارے پاس سرمایہ کتنا ہے؟؟ ‘‘ فیکا بولا’’ یہ آپ کا درد سرنہیں ہے ، آپ کے پاس کوئی مشورہ ہے تو دو ورنہ میرا ٹائم ضائع نہ کرو‘ ‘ ہمیں اس جملے پرتوہین کا احساس ہوا لیکن پھر خود کوسنبھالتے ہوئے فیکے سے مخاطب ہوئے کہ ’’تم کوئی سیاستدان خریدلو‘‘ ۔ ابھی ہماری بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ کمرہ ’’ہاہاہاہاہاہا‘‘ قسم کے خوفناک قہقہوں سے گونج اٹھا، فیکے کافی دیر تک بے ہنگم انداز میں ہنستا رہا اورپھر بولا ’’اچھا چلو میں کوئی سیاستدان خریدلیتاہوں تو پھر کیابنے گا، کیا مجھے وہ سیاستدان وزیراعظم بنادیں گے‘‘ ہم نے جواب دیا ’’ بالکل تمہیں وہ سیاستدان وزیراعظم بناسکتے بشرطیکہ تم ایسے کئی ایک سیاستدان خریدلو جو جیتنے کی پوزیشن میں ہیں، یہ کاروبار صرف مقامی سطح پر نہیں بلکہ قومی سطح پرکرناہوگا‘‘ فیکے حیرت انگیز طورپر خوش ہوکربولا ’’اچھا اگر میں ایسے سیاسی گھوڑے خرید لیتاہوں تو پھر کیاہوگا‘‘ ۔ ’’ہونا کیا ہے؟ بس یہ خیال رکھنا کہ ان خریدے گئے گھوڑوں کوکوئی اورنہ خرید لے ‘‘ فیکا بولا ’’بادشاہو! اس کی فکر نہ کرو جب ہم گھوڑوں کوگھاس ہی اتنا ڈالیں گے اوران کی من پسند ’’اشیا ‘‘ لادیں گے تو پھر بھلا کیوں بدکنے لگے ‘‘ ہمیں سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ فیکا اب پٹڑی پر چڑھ چکا ہے‘اس نے فوراً ہی انگلیوں کی پوروں پر حلقوں کا انتخاب کرنا شروع کردیا کہ مظفر گڑھ میں فلاں،ملتان میں فلاں، ڈیرہ غازی خان میں فلاں ،لیہ ،بھکر ،میانوالی تو خیراپنے گھر کی بات ہے، یہ یہ یہ سب ملاکے کوئی پچاس ساٹھ تو بن ہی جائیں گے‘‘ ہم اور ہمارا وہ قانون دان دوست اس عجیب وغریب حساب کتاب پر انگشت بدنداں تھے کہ اچانک فیکے نے ہمیں دیکھا اوربولا ’’ بس اب ایک نئے وزیراعظم کی تیاری شروع کردو،ہاں فکر نہ کرو تم لوگوں کوبھی کوئی مشیر وزیر بنا ہی دونگا، تم لوگ کیا دانیالوں اورطلالوں سے کم ہو کیا‘‘ یہ کہتے ہی وہ اڑن چھوہوگیا۔ ہمارے قانون دان دوست نے بھپتی کسی ’’لگتاہے کہ ایک اورنوازشریف تیارہونے جارہاہے‘‘اس بھونڈے مذاق پر ہم بھلا کیاجواب دیتے سو اپنے گھر کی راہ لیتے ہوئے خودبھی سوچ رہے تھے کہ اگر خدانخواستہ فیکا وزیراعظم بن گیا تو کونسی وزارت ہمارے حصے میں آئے گی؟؟ مشورہ مفت ہے آپ بھی دے سکتے ہیں

 

Muhammad Saqlain Raza
About the Author: Muhammad Saqlain Raza Read More Articles by Muhammad Saqlain Raza: 23 Articles with 19690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.