پاکستانی پرچم کشمیر میں

پرچم کسی بھی ملک کے وقار ، ملت کی پہچان ہوتا ہے ۔ جب کسی ملک کا پرچم کسی جگہ لہرایا جاتا ہے تو اس کا مطلب اس ملک و قوم کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔لیکن کشمیر میں جب پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے تو وہ وہ فقط پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ کشمیری اپنے پاکستانی ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔بھارتی افواج کی جانب سے کرفیو کے باوجودپاکستان کے۷۰ ویں یومِ آزادی کے موقع پر یہ سبز ہلالی پرچم مقبوضہ کشمیر کے طول و عرض میں لہرایا گیا ۔پرچم لہرانے والوں میں نہ صرف مرد حضرات بلکہ عورتوں کی تنظیم دختران ِ ملت کی جانب سے بھی پاکستان کا پرچم لہرایا گیا ، پاکستان کا قومی ترانہ پڑھا گیا، پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئی اور اس عزم کی تائید کی گئی کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے ۔دوسری جانب بھارت کے یوم ِ آزادی کو یوم ِ سیاہ کے طور پر منایا گیا۔

آزاد کشمیر میں پہلی بار سبز ہلالی پرچم ۱۴ اگست۱۹۴۸ء کو سردار شاہپال خان ساکن ٹھلی جو کہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا اس نے پلندری کے مقام پر پاکستانی پرچم لہرایا ۔ یہ پرچم جامع مسجد پلندری کے بالمقابل ایک عمارت پر لہرایا گیا تھا ۔ سکول اور کالج کے طالب علموں نے اس پرچم کو سلامی دی اور کشمیر بنے گا پاکستا ن کے نعرے لگائے ۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں پہلی بار سبز ہلالی پرچم ۱۹۴۷ء میں ڈمہ ڈولا کے مقام پر لہرایا گیا ۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کی ریلیوں ، جلسے جلسوں میں پاکستان کے پرچم کا لہرایا جانا صرف عقیدت نہیں بلکہ کشمیریوں کے پاکستانی ہونے اور ان کے دلوں میں پاکستان کے الحاق کی خواہش کاغماز ہے ۔ جب کوئی حریت لیڈر اپنی جان خالق ِ حقیقی کے سپرد کرتے ہوئے شہادے کے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اس کے جسدِ خاکی کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا جاتا ہے جو کہ اقوام ِ عالم کو ایک پیغام ہے کہ کشمیری پاکستان کا حصہ ہیں اور پاکستان سے محبت ان کے دلوں میں جاگزین ہے ۔ ان کشمیری مجاہدین کے نماز جنازہ میں بھی پاکستانی پرچم ایک خاص حصہ ہوتے ہیں جو کہ بھارت کے لیے پیغام ہے کہ بھارتی افواج کے ظلم و ستم نے کشمیریوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت میں کمی کی بجائے اضافہ کیا ہے ۔

مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی افواج ان کشمیریوں کو خصوصی ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہیں جو پاکستا ن کا پرچم عوامی اجتماعات میں لہراتے ہیں یا جو احتجاجی جلسوں میں بھارت خلاف بینر تھامے ہوتے ہیں بھارتی افواج کے ظلم کا حدف بنتے ہیں ۔ ان کے خلاف مقد مات درج کیے جاتے ہیں اور ا ن کے خلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے ۔حال ہی میں بھارت نے حریت لیڈٖر کی شہادت کے موقع ، بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں سیاہ جھنڈوں کے ساتھ پاکستانی جھنڈے بھی لہرائے گئے ۔ بھارتی افواج نے جھنڈوں کو لوگوں سے چھین لیا اور جنھوں نے جھنڈے لہرانے کی جرات کی تھی انھیں زدوکوب کیا گیا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشمیر کے بیشتر حصوں میں کرفیو لگا کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا گیا ۔ کم و بیش ہر احتجاجی جلوس میں اس طرح کے واقعات عام ہیں ۔۲۰۱۶ ء کے بعد بھارت کے ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہو چکا ہے ۔ یہاں تک کہ بھارتی کی جانب سے پلیٹ گنوں کے استعمال نے ان گنت مسلمانوں کی آنکھیں چھین لیں ۔ ان گنت بیٹیوں کی عزتیں لوٹی گئی لیکن یہ ظلم و ستم کشمیریوں کی تحریک آزادی کو کمزور نہیں کر سکا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہو ا۔ ۱۹۸۹ء کے بعد سے آج تک کم و بیش ۶۸۰۰۰ کے قریب افراد شہید کیے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ تحریک آزادی کے جلوسوں اور ریلیوں میں بھارت کے پرچم اور بھارتی حکمرانوں کے پتلوں کو نظر آتش کرکے بھارت کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کثمیر یوں کے دلوں میں بھارت کے لیے نفرت کے علاوہ کچھ نہیں ۔ بھارت اپنے تمام تر مظالم کے باوجود کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت نکالنے سے قاصر رہا ہے ۔ بھارت تحریک آزادی کو ظلم و ستم کی بنیاد پر دبانے میں بھی ناکام رہا ہے ۔
کشمیریوں کا پاکستانی پرچم لہرانا ، اس پرچم میں اپنے شہدا کو لپیٹ کر قبر میں اتارنا اس بات کا غماز ہے کہ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔پاکستان کشمیری بھائیوں کے اس جذبے کی قدر کرتے ہوئے ان کی اصولی جنگ میں مدد جاری رکھے گا

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 148807 views i write what i feel .. View More