23 اگست کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح چھے بجے امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف بیان دیا اور ڈو مور کا مطالبہ کیا۔بلکہ
انہوںنے پاکستانی کو دھمکیاں دی ہیں۔ ان کی دھمکی کے بعد پاکستانی حکومت،
پارلیمنٹ ، سینیٹ اور عسکری قیادت نے اس کی پر زور مذمت کی اور امریکہ کو
یاد دلایا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بےشمار قربانیاں دیں
ہیں، امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس کرنا چاہیے۔ یہ بات بالکل
ٹھیک ہے۔ موجودہ صورتحال میں یہی بیان دینا چاہیے اور امریکہ کو بتا دینا
چاہیے کہ پاکستان اس کی کوئی باجگزار ریاست نہیں ہے۔
ہمیں اس بات پر بہت خوشی ہے کہ پاکستانی سول اورعسکری قیادت نے اس معاملے
پر ایک واضح موقف اختیار کیا۔ لیکن اس بیان کے اگلے روز قومی سلامتی کے
اجلاس میں ایک بات کا اظہار کیا گیا کہ ’’ افغانستان کی جنگ پاکستان میں
نہیں لڑی جاسکتی۔‘‘ جب کہ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ’’ ہم امریکی جنگ لڑتے
رہے ہیں۔‘‘ دیر آید درست آید بالاخر پاکستانی سیاسی قیادت نے اس بات
کوواضح طور پر قبول کرلیا کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری یعنی پاکستان
کی جنگ نہیں ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا اعتراف کرنے میں
اتنی تاخیر کیوں کی؟ اور کیا اگر امریکہ پاکستان کو دھمکیاں نہیں دیتا تو
کیا اس وقت بھی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت اس بات کا اعتراف کرتی؟؟
جس بات کا اظہار سیاسی و عسکری قیادت نے آج کیا ہے، یہی بات سترہ سال سے
دینی و مذہبی جماعتیں کررہی ہیں۔ دینی جماعتیں افغانستان پر امریکی حملے کے
وقت سے یہ بات کررہی تھیں کہ یہ امریکی جنگ ہے جو پاکستان کے سر پر تھوپی
جارہی ہے اور پاکستان کو اس جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے، لیکن کمانڈو جنرل
(ر) پرویز مشرف ایک فون پر ڈھیر ہوگئے اور انہوںنے اس پرائی جنگ میں
پاکستان کو دھکیل دیا۔ اس جنگ میں حصہ لینے کے باعث پاکستان کو ناقابل
تلافی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں اور تاحال پاکستان اس کے نقصانات اٹھا رہا
ہے۔
اس جنگ میں حصہ لینے کے باعث دنیا بھر میں پاکستان کا تشخص مجروع ہوا،
پاکستانی پاسپورٹ کی توقیر دنیا بھر میں کم ہوئی۔ پاکستان کو ایک دہشت گرد
ریاست کے طور پر جانا گیا۔ ہماری مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، ہماری فوج
کو بھارت کے ساتھ ساتھ مغربی سرحدوں پر بھی نبرد آزما ہونا پڑا ، یہ جنگ
ہمارے ہزاروں محافظوں کو کھا گئی، ملک میں دہشت گردی کا طوفان آگیا۔ اربوں
روپوں کا نقصان ۔ اور یہ سب کچھ ہونے کے بعد بھی ہمارے ہاتھ میں کیا آیا؟
دھوکا دہی کے الزامات۔ ناقابل اعتبار ریاست کا خطاب۔ ڈو مور کے مطالبات اور
دھمکیاں۔ آج افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اس کے بر عکس بھارت
جس نے اس جنگ میں نہ تو امریکہ کا پاکستا ن کی طرح ساتھ دیا، نہ امریکہ کو
کوئی لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اور نہ ہی اپنے اڈے دئیے، وہ اس وقت امریکہ کا
چہیتا دوست ہے اور ہماری نسبت وہ آج افغانستان سے زیادہ قریب ہے اور
افغانستان بھی ہماری نسبت بھارت پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔
تو پھر کیا ثابت ہوا؟ ہمارے نزدیک یہ ثابت ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور
جنرل ضیا الحق کی افغان پالیسی بالکل درست تھی۔ اس پالیسی کے باعث ہماری
مغربی سرحدیں بھی محفوظ تھیں اور ملک دہشت گردی سے بھی پاک تھا۔ لیکن جنرل
مشرف کے افغان پالیسی پر یو ٹرن لینے کے بعد ہمارے ملک کا یہ حال ہوا
ہے۔بہر حال اب جب کہ پاکستان سیاسی و عسکری قیادت نے امریکہ کے سامنے سر
اٹھا ہی لیا ہے تو اس کو اٹھا ہی رہنے دیں، دوبارہ سر جھکانے کی ضرورت نہیں
ہے۔ امریکہ کو کہہ دیا جائے کہ ’’ بس بھائی بس زیادہ بات نہیں چیف صاب۔‘‘ |