واہ ری قسمت

جب سابق صدر پرویز مشرف کو وطن سے باہر بھجوایا گیا۔تو بڑی پیجیدہ صورتحال تھی۔حکومت اور عدلیہ دونوں کی خواہش یہی تھی کہ اس آمر کو نشان عبر ت بنایا جائے۔مگر بے بسی دیکھیے کہ دونوں کو اپنی تمنا کے خلاف جانا پڑا۔سابق صدر کے بد ترین دور کو دیکھتے ہوئے۔حکومت انہیں کسی قسم کا ریلیف دینے پر آمادہ تھی نہ عدلیہ اپنے سر اس کی داد رسی کا الزام لینا چاہتی تھی۔ بڑی پیچیدہ صورتحال بنی رہی۔مہینوں یہ نظارہ دیکھا گیاکہ کہ وہ آمر حکومت کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھتاتو کبھی عدلیہ کا ایک حکم نامہ پانے کو اپنی واحد ترجیح بنالیتا۔دونوں طرف سے عدم توجہ پر وہ کسی شٹل کاک کی طرح کبھی ادھر اور کبھی ادھر لڑھکتارہا۔ ایک عدالت سابق صدر کی جانب سے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مستر د کرتی تو وہ دوسری کسی عدالت میں اپیل کردیتے۔اگر کسی عدالت نے سابق صدر کے حق میں فیصلہ سنابھی دیا۔تو حکومت اس فیصلے کے خلاف دوسری عدالت کا دورازہ کھٹکٹاتی نظر آئی۔یوں لگ رہاتھا۔نہ حکومت پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہے۔نہ عدالت یہ دھبہ اپنے چہرے پر لگانے کو تیارہے۔ اتنی سفارشیں اور مشقتیں خفیہ قوتوں کو شاید ہی کسی اور ایشو رپر درپیش رہی ہوں گی۔ مشرف کے دیس نکالے کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے انہیں بڑی تگ ودو کرنا پڑی۔جب بساط بر مزاحمت کے بعد حکومت اور عدلیہ کو ہاتھ اٹھانا پڑے تب مشرف باہر چلے گئے۔ایک آمر کو نکالنے والے تو جیت گئے مگر اب تک یہ قضیہ چل رہا ہے۔کہ اسے حکومت نے بھجوایا یا عدلیہ نے۔اب تک دونوں میں سے ایک فریق بھی اس طعنے کو اپنے سر لینے پر آمادہ نہیں ہورہا۔حکومت اسے ایک عدالتی فیصلے کے تحت اٹھایا گیا۔اقدام قرار دے رہی ہے۔جبکہ عدلیہ کا موقف ہے کہ ہم نے باہر بھجوانے کا حکم تو نہیں دیا تھا۔حکومت کو بس اتنا ہی کہا تھا۔کہ وہ چاہے تو نام ای سی ایل میں رکھے یا نکال دے۔اگر حکومت نے مشرف کو جانے دیا تواس میں عدلیہ پر الزام کیسا۔
عدلیہ اور حکومت کی ڈپلومیسی آج بھی دیکھی جارہی ہے۔اب بھی بعض معاملات میں نہ حکومت کھل کر سامنے آرہی ہے۔نہ عدلیہ کی طرف سے سنائے بعض فیصلوں پر عوام مطمئن ہوپارہی ہے۔لاہورہائی کورٹ کی جانب سے نوازشریف اور شاہدخاقان عباسی سمیت سولہ کے قریب لیگی رہنماؤں کے عدلیہ مخالف بیان نشر کرنے پر پابندی لگانے کی خبرآئی ہے۔کافی دنوں سے اس سلسلے میں میڈیا پر بحث مباحثے سننے کو مل رہے تھے۔اپوزیشن شور مچارہی تھی۔سابق وزیر اعظم نوازشریف فوج اور عدلیہ کے خلاف عوام میں اشتعال پھیلارہے ہیں۔انہیں اس کام سے باز رکھا جائے۔سابق وزیر اعظم اپنی ناہلی سے متعلق فیسلہ آنے سے متعلق اپنی پوزیشن کلیر کرنے کی کوشش کررہے تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے جے آئی ٹی او رپانچ رکنی بینچ سے متعلق اپناموقف بیان کیا۔ان کی اس کوشش پر اپوزیشن تحفظات رکھتی تھی۔اس ضمن میں میڈیا کے توست سے عدالتی اور عسکری حکام کوسٹینڈ لینے کی دعوت دی جارہی تھی۔اب باقاعدہ طور پرہائی کورٹ میں ایک درخواست دائرکردی گئی ہے۔جس کے بعد عدالت کی جانب سے چیئرمین پیمرہ۔اور شکایت سیل کو میڈیا قوانین پر عملدرامدی کا حکم۔اس سلسلے میں بارہ ستمبر تک رپورٹ طلب کرلی گئی۔ان افرادپر الزام لگایا گیا۔کہ نوازشریف کی اسلام آبادسے لاہور ریلی کے دوران عدلیہ سے متعلق تضحیک آمیز تقاریر کی گئیں۔یہ صریحا بغاوت کے ضمرے میں آتاہے۔آئین کے آرٹیکل دوسو چار کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔اسی طرح کی ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دی گئی ہے۔جس میں ریلی کے دوران جگہ جگہ سابق وزیر اعظم نوازشریف کے عدلیہ مخالف بیانا ت پر کاروائی کرنے کی استدعاکی گئی ہے۔

عدلیہ کی جانب سے سابق و موجودہ وزیر اعظم سمیت سولہ کے قریب افرادکے عدلیہ مخلاف بیانات کو نشرکرنے پر پابندی لگانے کے حکم پر حیرت ہورہی ہے۔سوال تو یہ ہے کہ آیا ان سولہ افرادکے علاوہ سبھی پر عدلیہ مخالف بیانا ت دینے پر کوئی پابندی نہیں؟ دوجے یہ کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گاکہ کون سی بات عدلیہ مخالف ہے۔اور کون سی عدلیہ مخلاف نہیں۔اگر عدلیہ نوازشریف یا کسی اور پر کسی بیان کے عدلیہ مخالف ہونے کے ثابت ہوجانے پر کسی کاروائی کا حکم جاری کرتی تو یہ ایک معمول کی بات ہوتی۔مگرمیڈیا میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سولہ افراد کے عدلیہ مخالف بیانات نشر کرنے پر پابندی لگائے جانے کی بات سامنے آئی۔جانے عدالت کی کسی کاروائی کی غلط تشریح سامنے آئی۔یا پھر ان سولہ افراد کے بیان نشر نہ کرنے کا حکم واقعی درست ہے۔یہ بالکل سابق صدر پرویز مشرف سے متعلق ای سی ایل سے نام خارچ کرنے سے متعلق فیصلے جیسی صورتحال ہے۔تب بھی عدلیہ نے نہ کھل کر یہ کہا کہ سابق صدر کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے۔اور نہ کھل کر یہ حکم دیاکہ ان کا نام ای سی ایل سے نہ نکالاجائے۔تب بھی ایسا فیصلہ آیا کہ اسے دونوں طرف لے جایا جاسکتاتھا۔اب بھی نوازشریف کے عدلیہ مخاف بیانات پر پابندی لگانے کے حکم نامے کو بھی دونوں طرف لے جایا جاسکتاہے۔قوم کے لیے یہ ایک غیر تسلی بخش صورتحال ہے۔جانے عدلیہ کی طرف سے آنے والے فیصلے دلوں کو کیوں نہیں چھوپاتے۔واہ ری قسمت مصلحتیں سچائیوں پر پردہ ڈال رہی ہیں۔اور ہم بے بس اور محض تماشی بن کر دیکھ اور سن رہے ہیں۔

 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.