زندہ قومیں ہمیشہ قواعدوضوابط کو جزوِایمانی سمجھتی
ہیں اور اُن کے فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔یہی ترقی یافتہ قوموں کی
رفعتوں کا راز ہے لیکن پاکستان میں قواعد وضوابط اگر ہیں بھی تو صرف پِسے
ہوئے طبقے کے لیے ، زورآوروں کے ہاں تو اِس نام کی کوئی شے پائی ہی نہیں
جاتی ۔ہمارے ہاں تقریباََ ہر ادارے میں میرٹ کی دھجیاں ہی بکھری نظر آتی
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ادارے کی کارکردگی ایسی نہیں جس پر سوالیہ نشان
نہ ہو۔
ہمارے لیے انتہائی محترم ادارہ عدلیہ ہے لیکن میاں نوازشریف کی نااہلی کے
بعد اِس پر بھی سوال اُٹھنے لگے اور عمومی تاثر یہی تھا کہ میاں نوازشریف
کی نااہلی کا فیصلہ میرٹ پر نہیں سیاست پر ہوا ۔وہ کیس جو کرپشن کی تحقیقات
سے شروع ہوا اُس میں کرپشن تو ’’ہَوا‘‘‘ ہوگئی اور باقی رہ گئی صرف سیاست
ہی سیاست ۔ اگر بات کرپشن کی ہوتی تو پھر پاناما لیکس میں شریف فیملی کے
علاوہ 450 نام اور بھی ہیں جن پر عدلیہ کی آنکھیں بھی بند ہیں اور انتظامیہ
کی بھی۔ جماعتِ اسلامی کرپشن کے خلاف ریلی نکال رہی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ
بھی بیکار پریکٹس ہوگی کیونکہ کرپشن کے مگرمچھوں کو نشانِ عبرت بنا دینے کی
باتیں تو ہم بچپن سے سُنتے آ رہے ہیں لیکن نتیجہ ہمیشہ’’ ڈھاک کے تین پات‘‘۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاناما ہنگامہ کا ڈرامہ بین الاقوامی سازش کے تحت
میاں نوازشریف کو سیاست سے ’’آؤٹ‘‘ کرنے کے لیے رچایا گیاتاکہ تیزی سے ترقی
کرتے پاکستان کو عشروں پیچھے دھکیل دیا جائے۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد کچھ لوگ عدلیہ کی پُشت پر کھڑے ہونے کا
دعویٰ کر رہے ہیں تو کچھ اِس تگ ودَو میں کہ عدلیہ کو اُن حدودوقیود کا
پابند کیا جائے جو آئین میں درج ہیں۔طُرفہ تماشہ یہ کہ وہ وکلاء جو کل تک
عدلیہ کی پُشت پر کھڑے میاں نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے ،آج
اُسی عدلیہ کے خلاف جلوس نکالتے ، دھرنے دیتے اور ایوانِ عدل کے گیٹ توڑتے
نظر آرہے ہیں۔ نیب نے شریف فیملی کو حاضری کے لیے تین دنوں میں تین نوٹسز
جاری کیے اور اب شریف فیملی کی عدم حاضری کی بنا پر دھڑادھڑ ریفرنسز تیار
کر رہی ہے ۔نیب کی اتنی تیزی اور تیز رفتاری پہلے کبھی دیکھی نہ سُنی۔ ہم
نے تو یہی دیکھا ہے کہ کرپشن کے کیسز سالہا سال تک نیب میں سڑتے رہے لیکن
کوئی پوچھنے والانہ تھا لیکن اب نیب ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے ۔پتہ نہیں
شریف خاندان کو ملکی سیاست سے بے دخل کرنے کی اتنی جلدی کِس کو ہے اور کیوں
ہے؟۔ کچھ لوگ اِس تیزرفتاری کو عدلیہ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور کچھ
لوگوں کے خیال میں اِس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں
کے مطابق یہ اُن ملک دشمن طاقتوں کی سازش ہے جو کسی بھی صورت میں سی پیک
منصوبہ کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ اُن کے خیال میں کپتان تو محض ایک
مہرہ ہے۔ تاریخ بڑی بے رحم ہے وہ اپنے اندرکچھ بھی چھپا کے نہیں رکھتی ،سب
کچھ اُگل دیتی ہے ۔عرصہ نہیں جب سب کھُل کر سامنے آ جائے گا لیکن اُس وقت
تک ملک کا کتنا نقصان ہو چکا ہوگا ؟ اِس کا ادراک سیاستدانوں کو ہے ، نہ
عدلیہ کو اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو۔ ہرکسی کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا
راگ، سبھی اپنے تئیں سچائی کے راستے پر۔ اگرپاکستان میں فیصلے میرٹ پر ہوتے
تو ہمیں یہ دِن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ربّ ِ کائنات نے تو اِس خطۂ ارض پر
اپنی نعمتوں کی بارش کر رکھی ہے لیکن شایدواقعی قائدؒ کی جیب کے سبھی سِکّے
کھوٹے ہیں۔
بات میرٹ کی ہو رہی ہے تو کوئی ہمیں بتائے کہ میرٹ ہے کہاں؟۔ ہم خادمِ اعلیٰ
کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور یہ بھی عین حقیقت کہ اُنہوں نے بہت سے
ترقیاتی منصوبے نہ صرف ریکارڈ مدت میں مکمل کروائے بلکہ بہت سی بچت بھی کی
لیکن کیا اُنہوں نے کبھی سوچا کہ مختلف محکموں میں بھرتیوں کے مواقع پر
میرٹ کا دھیان کِیاجاتا ہے؟۔ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ کسی بھی اعلیٰ پوسٹ
کے لیے قابلیت تو محض ایک بہانہ ہے ۔جس کے سَر پر ’’ہُما‘‘ بیٹھنا ہوتا ہے
،وہ تو پہلے ہی بیٹھ چکا ہوتا ہے اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ’’صاحب‘‘ کے
منظورِنظر۔ لوئرگریڈز کی بھرتی کے لیے پہلے ہی متعلقہ علاقوں کے ایم این
ایز اور ایم پی ایز کا کوٹہ مقرر کیا جا چکا ہوتا ہے، اخباری اشتہارات تو
محض بہانہ ہے۔ اگر میرٹ کی یوں ہی دھجیاں بکھیری جاتی رہیں تو پھر ایک پی
ایچ ڈی پولیس میں سپاہی ہی بھرتی ہوسکے گا ۔
میری نظر سے ایک اشتہار گزرا جس میں’’ رورل ہیلتھ سینٹر اور بیسک ہیلتھ
یونٹ‘‘ کے انچارج کے لیے’’ ڈسٹرکٹ منیجر ہیلتھ‘‘ کی اسامی کے لیے امیدواروں
سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں۔ ڈسٹرکٹ منیجر ہیلتھ کی ذمہ داری ہیلتھ
مینجمنٹ کرنا اور ضلع کے لگ بھگ 150 ڈاکٹرز کی سپروژن تھا۔ مطلوبہ قابلیت
دیکھ کر میرے چودہ طبق روشن ہو گئے کیونکہ مطلوبہ قابلیت کسی بھی مضمون میں
ایم اے کے ساتھ ایم بی اے یا ایم پی اے لکھا نظر آیا ۔ گویا بزنس
ایڈمنسٹریشن والا ہیلتھ منیجمنٹ کرے گا جو ہیلتھ کی الف بے سے بھی واقف
نہیں اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرز جنہوں نے ہیلتھ کے شعبے میں اپنی زندگی کے
قیمتی پانچ سال صرف کیے اور جو بلا شبہ ملک کی ’’کریم‘‘ ہیں ،وہ اُس ایم بی
اے کی نگرانی میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دیں گے۔ جب اِس قسم کی صورتِ حال
ہو تو پھر کسی ادارے سے سوفیصد کارکردگی کی توقع احمقوں کی جنت میں بسنے کے
مترادف ہے۔ ایسے ہی بے شمار ’’مزاحیہ‘‘ اشتہارات اخبارات کی زینت بنتے رہتے
ہیں جنہیں دیکھ کر سَر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ آخر خادمِ اعلیٰ نے اِس
طرف سے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟۔
خادمِ اعلیٰ تُرکی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ’’ہیلتھ ریفارمز‘‘ کے لیے
کوشاں ہیں جو بہت اچھا اقدام ہے لیکن اُنہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ترکی میں
سیکرٹری ہیلتھ سے لے کر نیچے تک سبھی ڈاکٹر حضرات ہیں جو اپنے شعبے کے ماہر
ہیں۔ اگر ترکی کے سسٹم کو پاکستان میں رائج کرنا مقصود ہے تو پھر ہماری
استدعا ہے کہ خادمِ اعلیٰ اِس کو بیوروکریسی پر نہ چھوڑیں بلکہ خود بھی کچھ
معلومات حاصل کر لیں کیونکہ بیوروکریٹس کے بچوں کو اگر چھینک بھی آ جائے تو
وہ اُنہیں لے کر لندن بھاگ جاتے ہیں ۔ اُنہیں بھلا قومی صحت سے کیا غرض۔
ویسے بھی پہلے ہی پاکستان میں لاکھوں ’’عطائی‘‘ قبرستانوں کو آباد کرنے میں
مگن ہیں اور اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت کا عطائیوں کے خلاف کریک
ڈاؤن کا اگر فائدہ ہوا تو صرف اُن لوگوں کو جنہیں چھاپے مارنے کے لیے مقرر
کیا گیا تھا کیوں کہ پہلے اُن کا بھتہ دَس ،بیس ہزار تک محدود تھا ،اب
لاکھوں تک پہنچ گیا ہے ۔کیا خادمِ اعلیٰ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اب پنجاب
میں کوئی عطائی نہیں؟۔ ہمیں خادمِ اعلیٰ کی کوششوں اور کاوشوں کا احساس بھی
ہے اور ادراک بھی لیکن معاملہ تو فی الحال ’’صاحب نے کھایا پیا کچھ نہیں
،گلاس توڑ ا، بارہ آنے‘‘ والا ہی ہے ۔ہماری انتھک وزیرِاعلیٰ میاں شہباز
شریف سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ میرٹ پر بھی تھوڑی سی توجہ فرمائیں۔ہم نے
تو صرف محکمہ صحت کا تھوڑا سا حوالہ دیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ ہر ادارے میں
میرٹ کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
|