سیاسی چورن
دہشتگردی یقینا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے اقوام عالم کو متحد و
یکجا ہوکر مشترکہ مگر ذمہ دارانہ و غیر جانبدارانہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے
کیونکہ نہ تو کوئی مذہب دہشتگردی کا سرخیل ہے اور نہ ہی کوئی ایک قوم
بالخصوص دہشتگردوں کا شکار و نشانہ بن رہی ہے بلکہ دہشتگردی کی حماقت و
حیوانیت کے جراثیم ہر مذہب کے افراد میں موجود ہیں اور تقریباً ہر قوم ہی
دہشتگردی کے سانحات و غم کا بوجھ سہنے پر مجبور ہے۔ بارسلونا میں ہونے والی
دہشتگردانہ کاروائی دہشتگردی کی افسوسناک واردات ضرور ہے مگر یہ پہلا واقعہ
نہیں ہے اس سے قبل یورپی یونین کا ہیڈ کوارٹر برسلز بھی دہشتگردی کے کرب کو
سہہ چکا ہے جبکہ یورپ ‘ یوکے اور یو ایس کی کئی ریاستیں ‘ ان کے دارالحکومت
اور کئی بڑے شہر دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں یہی نہیں ایشیائی ممالک میں تو
دہشتگردی کی وارداتیں تسلسل بن چکی ہیں اور افغانستان ‘ پاکستان ‘ ایران ‘
بنگلہ دیش‘ سری لنکا وغیرہ مسلسل دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں۔
بھارت نے سری لنکا کو کمزور کرنے کیلئے تامل ٹائیگرز کے ذریعے اور امریکہ
نے ویتنام میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے ویتنامی جہادیوں کے قتل
عام کیلئے خود کش دھماکوں کے ذریعے دہشتگردی کی جو بنیاد رکھی تھی وہ دنیا
بھر میں پھیل چکی ہے اور بھارت و امریکہ سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اور
کوئی بھی قوم اب دہشتگردی سے محفوظ نہیں ہے اسلئے اگر ہم نے دہشتگردی کی
وجوہات کو تلاش کرکے ان کا سد باب کرنے کی بجائے دہشتگردی کو مسلک ‘ مذہب
اور فرقوںو گروہوں سے جوڑ کر محض نفرتوں کو جنم و فروغ دینے کی روایت ‘
پالیسی اور حکمت عملی جاری رکھی تو پھر پر امن ‘ خوشحال اور ترقی یافتہ
مستقبل کے حوالے سے ہمارے تمام تر تصورات پانی پر بنی تصویر ثابت ہونگے اور
دہشتگردی کا معمولی سا کنکر ہر بار اس تصویر کو دھندلانے کا باعث بنتا رہے
گا۔ اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام عالم متحد و یکجا ہوکر سب سے پہلے
دہشتگردی کی وجہ ‘ پھر بنیاد تلاش کریں اور اس کے بعد اس کے شاخیں چھانٹنے
کی بجائے دہشتگردی کے شجر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مشترکہ حکمت عملی
تشکیل دیکر اس کی جڑوں پر کاری وار کیا جائے ۔
تاریخ ‘ ماضی اور حا ل کا اگر بغور و عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح
ہوتی ہے کہ دنیا کے جن خطوں میں بھی افراد ‘ طبقات ‘ گروہوں اور اقوام
پرمظالم ڈھائے گئے ‘ ان کی حق تلفی کی گئی ‘ انہیں لوٹا گیا اور ان کا
انسانی ‘ مذہبی ‘ اخلاقی ‘ آئینی ‘ قانونی اور تہذیبی استحصا ل کیا گیا ہے
ان خطوں میں ایسے مایوسی و محرومی نے جنم لیا جس کے اظہار پر ریاستی یا
عالمی قدغن و جبر عسکریت پسندی اور ریاستی طاقت کیخلاف بغاوت کا باعث جسے
استحصالی مقتدر طبقات نے بغاوت کا نام دیا تو مایس محروم طبقات میں اسے
تحریک آزادی اور جہاد کا نام دیا گیا اور جہاں عسکریت پسندی کیلئے منظم
ماحول میسر نہیں آسکا وہاں انفرادی دہشتگردی نے جنم لیاجو بعد ازاں مفاد
پرست طبقات کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر منظم دہشتگردی کا روپ دھار گئی اور
اب عالمی دہشگردی کے سانچہ میں ڈھلتی جارہی ہے !
عالمی دہشتگردی سے انسانیت اور عالم انسانیت کو محفوظ رکھنے کیلئے ضروری ہے
کہ ایسی عالمی اخلاقیات ترتیب دی جائے جس میں انسانوں کو رنگ ‘ نسل ‘ مذہب
‘ مسلک ‘ ملک ‘ زبان ‘ ذات اور علاقہ سے تولنے کی بجائے اس کی صلاحیتوں ‘
کردار ‘ افعال ‘ اعمال ‘تعلیم ‘ تجربہ ‘ لیاقت ‘ قابلیت اور دانش کے مطابق
اس کا احترا م کیا جائے اور استحصال و ناانصافی کا خاتمہ کرنے کیلئے کرپشن
‘ رشوت اور سفارش کا کلچرکے خاتمہ کیلئے مشترکہ ومتفقہ اور مکمل طور پر
غیرع جانبدارانہ ایسا عالمی میرٹ نظام رائج کیا جائے جس کی پابندی ہر ریاست
پر لازم ہو جبکہ ایک دنیا بھر کیلئے عالمی مساواتی نظام رائج کرکے عالمی
مانیٹرنگ فورم کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دنیا کے تمام ممالک
میں طاقتور اور کمزور طبقات یکساں حقوق کے حامل ہوں‘ ہر ریاست کے ہر شہری
کو اپنے ملک میں یکساں آئینی ‘ قانونی ‘ انسانی ‘سیاسی ‘ سماجی ‘ معاشی اور
معاشرتی حقوق حاصل ہوں اور کوئی معاشرہ ‘ آئین ‘ قانون ‘ حکمران ‘ جاگیردار
و سرمایہ دار اس کے ان حقوق کو غصب نہیں کرسکے !
اس عالمی حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن معاشروں اور ممالک
میں کرپشن عام ہے ‘ انصاف و مساوات کا خون کیا جارہا ہے ‘ بالادست طبقات ‘
محکوم و کمزور افراد کی حق تلفی کیساتھ انہیں انسانی حقوق سے محروم کرکے
مذہبی ‘ اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی دھجیاں اڑارہے ہیں ان معاشروںریاست کی
اصطلاح میں مایوس اور محروم طبقات میں اپنے نظام و ریاست کیخلاف نفرت پنپ
رہی ہے اور جہاں جہاں اس نفرت کو منظم ماحول میسر آرہا ہے دنیا کے ہر اس
خطے میں ریاست کی اصطلاح میں بغاوت یا عسکریت پسندی جبکہ محروم و مظلوم
طبقات کی اصطلاح میں آزادی و حقوق کی جنگ جاری ہے جبکہ جن خطوں میں مظلوم و
محروم طبقات کی مقتدر و طاقتور طبقات کیخلاف نفرت کو منظم ماحول نہیں مل
پایا وہاں دہشتگردانہ کاروائیاں جاری ہیں جبکہ مظلوم طبقات کی بے سمت
دہشتگردی کو اسلحہ ساز ممالک اور عالمی سرمایہ داری سے وابستہ افراد نے بڑی
چالاکی و ہوشیاری سے اپنے آتشیں پراڈکٹ کی فروخت کیلئے استعمال کرکے
دہشتگردی کو منظم قالب میں ڈھال دیا ہے اور اب دہشتگردی علاقائی حدود و
قیود سے نکل کر عالمی مسئلہ بن چکی ہے جس کی وجہ دنیا کی سب سے زیادہ منافغ
بخش اسلحہ کی صنعت ہے جس پر چند مخصوص ممالک اور طبقات کی اجارہ داری ہے
اور یہی ممالک و طبقات در اصل دہشتگردی کے سرپرست ‘ سہولت کار ‘ معاونین
اور عالم انسانی و انسانیت کے دشمن ہیں اسلئے دہشتگردی سے نجات کیلئے سب سے
پہلے اسلحہ کی صنعت کاری کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے ۔
استحصال ‘ ناانصافی ‘ مظالم ‘ جبر ‘ حق تلفی اور کرپشن کی کوکھ سے جنم لینے
والے احساس مایوسی و محرومی کے باعث شروع ہونے والی علاقائی دہشتگری کو
عالمی سرمایہ داری اور اسلحہ کی صنعت کاری سے وابستہ ممالک و طبقات کے
مفادات نے عالمی دہشتگردی میں تبدیل کردیا ہے اور بھارتی ہٹ دھرمی سے سری
لنکا جبکہ امریکی مہربانی سے ویتنام سے شروع ہونے والی دہشتگردی کا عذاب
عراق ‘ ایران ‘ پاکستان ‘ افغانستان ‘ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک کو نشانہ
بنانے کے بعد اب خوشحال و مہذب اقوام کی سر زمین یورپ ‘امریکہ وبرطانیہ تک
پہنچادیا ہے اور اگر دہشتگردی کے اس تبدیل ہوتے ہوئے رخ کے مستقبل خطرات کو
بھانپتے ہوئے اقوام عالم نے اس کی بنیادوں پر وار کرنے اور اسلحہ ساز صنعت
سے وابستہ دہشتگردی کے خالقوں مالکوں کیخلاف عالمی اتحاد بناکر ان کا سر
کچلنے کی بجائے دہشتگردی پر مذہب کا لیبل لگاکر اسے اسلام اور مسلمانوں
کیخلاف کاروائی کی بنیاد بنانے کی احمقانہ روش و راویت جاری رکھی تو پھر
دہشتگردی کا ناسور دنیا کے امن کو پوری طرح نگل جائے گا اور پر امن ممالک
واقوام اپنے تحفظ کیلئے سعودی عرب کی طرح اسلحہ ساز ممالک اور طبقات کی
باجگزاری پر مجبور ہوں گی اور دنیا جانتی ہے کہ اسلحہ کی صنعت اور
دہشتگردوں کی سرپرستی کے ذریعے دنیا پر امن مستقبل کا امن نگل کر اقوام
عالم کو اپنا باجگزار بنانے کی سازش کے ٹرائیکا میں کون سے تین ممالک شامل
ہیں ! ٭٭٭
|