سیدنا ابراہیم؈ اللہ کے برگزیدہ اورجلیل القدرنبی ورسول
ہیں جنہیں اللہ نےاپنی خلت سے نوازا، جن پر اپنا صحیفہ نازل فرمایا،جنہیں
اپنے رب کی رضا جوئی کی خاطر اس دار فانی کے اندر بے شمار امتحانات اور
آزمائشوں سے گزرنا پڑا،اور قدم قدم پر جانثاری و فداکاری اور تسلیم ورضا
کا مظاہرہ کرنا پڑا۔غرض ان کی پوری زندگی استقامت دین کے لیے پیش کی جانے
والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اس برگزیدہ نبی نے محض اپنے رب کی رضاجوئی
اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیےہوش ربا آگ کی اذیت کو برداشت کرنا گوارہ کر
لیااور عظمت دین و عقیدۂ توحید کی سربلندی کی خاطرعزم و استقلال کے ساتھ
ثابت قدم رہے اس صبر و رضا پر آگ کے لیے اللہ کا حکم آیاکہ﴿يَا
نَارُكُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ﴾ اے آگ ! تو ٹھنڈی
اورابراہیم کے لیے سلامتی والی بن جا۔(انبیاء: ۶۹)اسی آیت کی ترجمانی شاعر
مشرق علامہ اقبال نے کیاخوب کی ہے
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
اہل علم فرماتے ہیں اللہ تعالی کا یہ حکم ’’بردا و سلاما‘‘ ’’ٹھنڈی کے ساتھ
سلامتی والی ‘‘ اس بات کی طرف اشارہ اور ایک بہت بڑا معجزہ بھی ہے کہ اگر
وہ آگ ٹھنڈی کے ساتھ سلامتی والی نہ ہوتی تو اس کی ٹھنڈک بھی ابراہیم؈ کو
نقصان پہنچا سکتی تھی اس پر اللہ نے اپنے خلیل کو دشمنوں کی اس عظیم سازش
اور چال سے بچا لیا اور ابراہیم؈ آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اس کی دہکتی
ہوئی آگ میں کود کرکے اپنے جزبۂ ایمان کی تکمیل فرمائی اور اللہ کے بہت
بڑے امتحان میں پورے اترے ۔
اسی طرح بڑھاپے کی عمر میں پہنچنے کے بعد اللہ نے ایک مرتبہ آپ کو پھر
آزمایا اورصغر سنی میں بے حد تمناؤں ،آرزؤں اور دعاؤں کے بعد پیدا
ہونے والے اکلوتے فرزند ارجمند کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر چھوڑ
دینے کا حکم صادر فرمایا اور ایک مدت کے بعد اسی اکلوتے لاڈلے کو اپنی راہ
میں قربان کرنے کا حکم دیا چنانچہ وہ دونوں باپ اوربیٹے اللہ کے اس فرمان
پر آمنا وصدقنا کہتے ہوئے رب کی رضا جوئی کی خاطر قربانی کرنے اور قربان
ہونے کے لیے تیار ہوگئے یہی وجہ ہے کہ اطاعت شعار و فرما نبردار بیٹا اپنے
والد محترم کے سامنے اپنے جبین نیاز کو خم کرتے ہوئے گویا ہواکہ ،﴿يَا
أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ
الصَّابِرِينَ﴾اے ابا جان !آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اللہ
مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔(الصافات:۱۰۲ )چنانچہ رب کے حکم کی
تعمیل میں ایک بوڑھا باپ اپنے جواں سال بیٹے کے حلقوم پر چھری رکھ کر اللہ
کے نام پرچلادیتا ہے لیکن چھری ہے کہ اپنا کام نہیں کررہی ہے ،پھر آسمان
سےفرمان آتاہےکہ ﴿ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي
الْمُحْسِنِينَ﴾اے ابراہیم! یقینا تونے اپنے خواب کو سچ کردکھایا بے شک ہم
نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ۔(الصافات: ۱۰۵)اس طرح اللہ کے
خلیل سیدنا ابراہیم اپنے اس عظیم الشان اور مشکل ترین امتحان و آزمائش
میں پورے اترے اور رب ذوالجلال نے جنت سے ان کے لاڈلے بیٹے سیدنا اسماعیل
ذبیح اللہ کےبدلے میں ایک دنبہ بھیج کر اپنی راہ میں قربان کرنے کا حکم دیا
۔اللہ رب العالمین کوابراہیم خلیل اللہ کی یہ عظیم اور یادگار قربانی کی
سنت اتنی پسند آئی کہ اسے بعد میں آنے والی تمام آسمانی مذاہب کے لیے
مسنون قرار دے دیا چنانچہ سیدنا ابراہیم و اسماعیل کی اس سنت مبارکہ
کوزندہ کرنے کے لیے ہر سال ذی الحجہ کے مہینہ میں دسویں ذی الحج(یوم النحر)
سے لیکر (ایام تشریق) ’تیرہویں ذی الحج‘تک پوری دنیا میں مسلمان اپنے
جانوروں کو اللہ کی راہ میںبڑے جوش وخروش کے ساتھ ذبح کرتے ہیںجس کے متعلق
کتب احادیث میں مروی کہ نبی کائنات ﷺ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ان
قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت
ابراہیم کی سنت ہے ۔اسی اہمیت کے پیش نظر نبی کریم ﷺ جب تک مدینہ منورہ میں
با حیات رہے ہر سال قربانی کرتے اور اس سنت پر عمل پیرا رہے اور اپنے صحابہ
کو بھی عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے رہے اور استطاعت کے باوجود قربانی نہ
کرنے والوںکے متعلق فرمایاکہ’’من وجد سعة لان يصحي فلم يضح فلا يقربن
مصلانا‘‘جسے قربانی کرنے کی طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو اسے چاہئے کہ
وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ در اصل قربانی اس عظیم الشان سنت ابراہیمی
کو زندہ کرنے اور اس یادگار لمحے کو ہمیشہ اپنے قلوب و اذہان کے اندر پیوست
کرنے لیے کی جاتی ہے جسے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے
کی تھی ۔انبیائے کرام کی قربانی میں امت کے لیے یہ پیغام پنہا ںہےکہ اے
مسلمانو! تم ان حسین ایام میں اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرکےاپنے جد امجد کی
سنت کو زندہ کرو،اور اگر تم اپنے رب کی رضا مندی چاہتے ہو تو اپنا مال ہی
نہیں بلکہ وقت اور جان بھی اس کے راستے میںقربان کرنے کے لیے تیار رہو ،اور
اگر دنیاوی اسباب و وسائل کے بالمقابل اخروی کامیابی و کامرانی اور رب کی
رضا جوئی چاہتے ہو تو ایثار وقربانی اور اطاعت و وفاکی راہوںپر گامزن رہو
اور اگر اپنے مالک حقیقی کی بے پایہ رحمتوں، خصوصی عنایتوںکے خواہش مند ہو
تو اس کے ہر حکم واشارہ پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہو اور یہ
بات اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ یہ قربانی جسے ہم ہر سال اللہ کی راہ میں
اپنی حیثیت کے مطابق کرتے ہیںجس کے گوشت ، پوست سے خود بھی مستفید ہوتے اور
اپنے اہل خانہ و احباب کو بھی مستفید کرتے ہیں یہ اس کا مقصد حقیقی نہیں ہے
بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ہم اس قربانی کو ایک عبادت سمجھ کر کریں اور
سیدنا ابراہیم واسماعیل ونبی کریم کی سنت سمجھ کر انجام دیں ۔ اس لیے کہ
ہمارے ان ذبح کئے گئے جانوروںکے گوشت اور خون تو اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتے
، بلکہ اس کے خون تو زمین پر گر کر بہہ جاتے ہیں اور گوشت ہم کھا لیتے ہیں
تو اللہ کو ہماری ان قربانیوں سے کیا ملا؟ تو اس کا سیدھا اور آسان سا
جواب یہ ہے کہ ہمارے مالک حقیقی کو ہمارا تقوی اور پرہیز گاری پہنچتا ہے ،
وہ ہمارے نیتوں اور قلوب و اذہان کو دیکھتا ہے کہ ہم نے اپنی قربانی کس نیت
سے کی ہے ، ہمارا مقصد ریا کاری و مکاری ، شہرت ونمود ہے آیا رب کی رضا
مندی۔۔!
اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي
وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ اے نبی ! آپ کہہ
دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا
مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ۔(انعام: ۱۶۲) اور
دوسری جگہ فرمایا :﴿لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا
وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾ اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت
نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیز گاری پہنچتی
ہے۔(الحج : ۳۷)
ایک مسلمان و مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی بھی یہی ہے کہ اس کا مالک
حقیقی اس سے راضی و خوش ہوجائےاوراسے اس کا تقرب حاصل ہوجائے ۔
دعا ہے کہ مولیٰ عشرہ ذی الحج کےان مبارک ایام میں کئے گئےہمارے تمام اعمال
حسنہ خصوصا حج و عمرہ اور قربانیوں کو شرف قبولیت سے نواز۔ آمین!
|