عمران خان پر تنقید کرنے والوں کی فہرست میں ہمیشہ میرا
نام پیش پیش رہا ہے‘ غلط کو غلط کہنا اور صحیح کو صحیح ماننا کوئی
ناپسندیدہ عمل ہے اور نہ ہی کوئی نا قابلِ برداشت چیز ہے‘مسئلہ یہ نہیں کہ
میں کسی کو کتنا پسند یا نا پسند کرتا ہوں،بات یہ ہے کہ میرا کپتان ایک
جذباتی سیاستدان ہیں اور یہ مجھ سے ذیادہ انہیں خود علم ہے‘ صحیح اور غلط
کی نہیں صرف جذبات کی بات ہورہی ہے‘میں خود اس فلسفہ کو نہیں مانتا لیکن
جہاں تک علم ہے اور جتنا پڑھا ہے جذباتی لوگ اکثر دل کے سچے اور اچھے ہوتے
ہیں‘خان صاحب کے وہی جذباتی فیصلے جو مجھے لگتا ہے کہ غلط ہیں پر تنقید
کرنے سے مجھے کافر کے نام سے نہیں پکارا جاسکتا اور نہ ہی صوبائی
حکومت(خیبرپختونخوا)کے مثبت کاموں کی تعریف کرنے سے مجھے ایک سچے اور اچھے
مسلمان ہونے کی ڈگری نہیں ملتی‘میری نظر میں وہ ایک بہترین کپتان اور
کھلاڑی لیکن ایک جذباتی سیاستدان ہیں‘سیاست سے بالاتر ہو کرانہوں نے
پاکستان کیلئے بہت کچھ کیا ‘شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل یونیورسٹی اس
بات کا ثبوت ہے‘ میں دوسرے اچھے کاموں میں خان صاحب کو باقی سیاستدانوں پر
فوقیت دیتا ہوں لیکن سیاست کی میدان میرے لئے اُسکا مقام اتنا ہے جتنا
اُسکی نظر میں دوسرے سیاستدانوں کی ہیں۔
خان صاحب کو ایک بار وزیر اعظم بننے کا موقع دینا کیوں ضروری ہے پر کچھ
لکھنے سے پہلے اتنا ضرور کہوں گا کہ میں نہ تو خان صاحب کا سپوٹر ہوں اور
نہ ہی کبھی کسی سیاسی ایشو پر اُسکی تعریف کی ہے بلکہ کچھ دن پہلے سوشل
میڈیا پر سلیم صافی اور خان صاحب کے نام سے ایک پوسٹ کیا تھا جواسطرح تھاکہ
اگر میں کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ ہوں اور سمجھتا ہوں کہ میں اپنی ملک کے
وزیراعظم کو نااہل کرسکتا ہوں، مخالف پارٹی کے وزیروں کو گھر بھیج سکتا ہوں،
عدالتوں کو اپنی طاقت کے بل بوتے مجبور کر سکتا ہوں تو پھر میرے لئے یہ
کیسے ممکن ہے کہ ایک صحافی مجھ پر کوئی غلط الزام لگائے اور میں اُن کے
خلاف ایک کیس بھی دائر نہیں کرسکتا۔اُس صحافی کے کسی الزام کا جواب بھی
ثبوت کیساتھ نہیں دیں سکتا‘صرف اُس چینل سے بائیکاٹ کرنا، ورکرز کو اُس
چینل کیخلاف بھڑکانہ، اُس چینل کو غدار کہنا اور پھر مفادات کو مد نظر
رکھتے ہوئے اُسی چینل پر انٹرویو دینا قوم کو بے وقوف نہیں تو اور کیا بنا
رہے ہو؟اب اصل بات کی طرف آتا ہوں۔
پہلی بات کہ لوگ کہتے ہیں خان صاحب کے اردگرد کرپٹ ،ناتجربہ کار اورمطلبی
لوگ کھڑے ہیں اور اُن کے ہوتے ہوئے خان صاحب تبدیلی کیسے لا سکتا ہے، جو
ایسا سوچتے ہیں ان کیلئے ایک مثال یہ ہے کہ 1992ء ورلڈ کپ میں پاکستانی
کرکٹ ٹیم کے سارے کھلاڑی کلین نہیں تھے اور میں نے یہ بھی سُنا تھا کہ اُن
میں سے کئی کھلاڑی ایسے بھی تھے کہ اگر خان صاحب نے اُن پر سختی نہ کی ہوتی
تو ممکن تھا کہ وہ کسی میچ کو فیکس کر دیتے‘خان صاحب خود چاہتا تھا اور
کہتا تھا کہ ہم ورلڈ کپ جیت جائیں گے اور انہوں نے کر کے دکھایا‘یہ اس بات
کا ثبوت ہے کہ اگر خان صاحب خود تبدیلی لانا چاہتا ہے تو بے شک انہیں
کامیابی مل سکتی ہے۔
شوکت خانم ہسپتال بنانے کی باتیں جب شروع ہوگئی تو لوگ ہنستے تھے اور کہتے
تھے کہ یہ آدمی پاگل ہوگیا ہے کیونکہ اتنا بڑا ہسپتال بنانا کسی کے اختیار
میں نہیں ہے لیکن کپتان نے وہ بھی کر دکھایا اور واقعی اتنا بڑا منصوبہ
پایہ تکمیل تک پہنچانا کسی شیر دِل آدمی کا کام ہوسکتا ہے‘اس پوائینٹ سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کیلئے کوئی بھی مشکل کام سرانجام دینا مشکل نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا میں پہلے سے ہی پولیس کو قانون کے مخافظ نہیں بلکہ لُٹہرے
اور رشوت لینے والے سمجھے جاتے تھے‘ پولیس کی کوئی عزت نہیں تھی اور نہ ہی
وہ آزاد تھے‘جب 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو پہلی بار کسی صوبے
میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا تو انہوں نے سب پہلے پولیس کو سیاست اور
سیاستدانوں سے آزادی دلا دی اور پولیس کو وہ مقام دیاجو کسی کی وہم وگمان
میں بھی نہیں تھا‘اب اگر خان صاحب وزیراعظم بن گیا تو عین ممکن ہے کہ وہ
سارے ملک کے پولیس کو سیاستدانوں کی مداخلت سے آزادی دلا سکتا ہے‘ اگر
قانون نافذ کرنے والے اداروں کوآزادی دی جائے تو ملک میں آمن اور خوشحالی
آسکتی ہے۔
نومبر2013ء کی بات ہے جب پاکستان تحریک انصاف نے نیٹو سپلائی لائن بند کرنے
کا اعلان کیا اور انہوں نے نہ صرف اعلان کیا بلکہ بند کرکے بھی دکھایا‘ اب
اگر کوئی اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دے سکتا ہے تو خان صاحب کے بقول اگر
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آگئی تو ہم ڈرون حملے روک سکتے ہیں‘ پھریہ
بات بھی ٹھیک ہوسکتی ہے کیونکہ انہوں نے جماعت اسلامی سے ملکر نیٹو سپلائی
لائن بند کیا تھا۔
صرف یہی نہیں اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو خان صاحب کہتا ہے کہ میں
وزیراعظم بن کر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ‘ اب بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام
جو عمران خان سے تبدیلی کی امیدیں لگائی بھیٹے ہیں اور انہیں یہ لگتا ہے کہ
اگر خان صاحب وزیراعظم بن گیا تو ہماری معیشت ٹھیک ہوسکتی ہے، ملک میں اتنا
روزگار بڑھ سکتا ہے کہ باہر کے ملکوں سے لوگ یہاں نوکری ڈھونڈنے آئے
گی،ڈرون حملے روک سکتے ہیں،پولیس کا نظام ٹھیک ہوسکتا ہے، ادارے آزاد
ہوسکتے ہیں، دھاندلی ختم ہو سکتی ہے،لُٹہرے نگہبان بن سکتے ہیں،غریب کو
اپناحق مل سکتا ہے،بے سہاروں کو سہارا مل سکتا ہے تو پھر ہمیں اور کیا
چاہئے؟شائد کچھ نہیں لیکن۔۔۔۔۔۔اگر خان صاحب وزیراعظم بن گیااور اﷲ کرے بن
جائے اور انہوں نے ایسا نہیں کیا تو جتنا دُکھ درد اور مایوسی عوام میں
پھیلے گی کہ شائد اس پہلے کبھی پھیلی ہو کیونکہ ہماری عوام کو اس سے پہلے
کبھی کسی نے اتنے خواب نہیں دکھائے جتنا کہ خان صاحب نے دکھائے ہیں‘پھر
جیسا حشر یا جنتا نفرت آج کل کے سیاستدانوں سے لوگ کرتے ہیں خان صاحب سے
ایک سو گنا ہ ذیادہ کرینگے کیونکہ توقعات پر پورا نہ اُترنے کی صورت میں
عوام پاگل ہوجائینگے اور اگر ہماری عوام کسی سے محبت کر سکتی ہیں تو نفرت
اس سے کئی ذیادہ گنا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔اگر خان صاحب وزیراعظم
نہ بن سکا تو لوگوں کی دلوں میں ایک آرزو رہ جائے گی۔ |