منی لانڈررنگ کا شور کرنے والے حزبِ اختلاف کے ایک رہنما
جو خود بھی دودھ کے دھلے تو ہیں نہیں۔ مگر مگر مقبول ترین لوگوں اور سیاست
دانوں پر الزامات لگا کر سستی شہرت کے ذریعے اقتدار کی سیج پر بیٹھنے کا
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جمہوریت پر قابض ہونے کے خواب تو دیکھ رہے ہیں
مگر جونہ تو لفظ جمہوریت کے معنی جانتے ہیں اور نہ وہ خود جمہوریت کا تلفظ
صحیح طور پر ادا کرسکتے ہیں۔جو اپنے اندر کی پوری توانائیاں صرف کرتے ہوئے
اگر بغیر پوچے کے سامنے آجائے تو ’’ڈراکولا‘‘ کا منظر پیش کرتے ہیں۔وہ سر
براہِ پاکستان بننے کے خواہاں ہیں۔موصوف کرپشن کرپشن منی لانڈرنگ منی
لانڈرنگ کے نغمے ہر ایک کے سامنے دھراتے تھکتے نہیں ہیںآیئے دیکھتے ہیں کہ
وہ اپنے قول کے کتنے سچے اور کتنے پکے ہیں؟
ایگزیکٹ کے لوگوں سے کون ہے پاکستان بلکہ ساری دُنیا میں جو واقف نہیں
ہے؟جی ہاں یہ وہ ہی ادارا ہے جو دنیا کو جعلی ڈگریاں دے دے کر اربوں روپے
کماتا رہا اور دنیا سے سچائی اور میرٹ کا جنازہ نکالتا رہا تھا۔اس بوگس
ادارے نے امریکہ اور کینڈا تک ساری دنیا کے لوگوں کو چند سکوں کے عوض اعلیٰ
ترین علوم کی جعلی ڈگریاں فروخت کیں۔ ایگزیکٹ کے ان ننگِ وطن ننگِ قوم
لوگوں کے خلاف پاکستان میں پیسے کی ریل پیل کے پیشِ نظر بے پناہ سست روی کا
مظاہرہ کیا گیا۔مگر امریکہ میں جب وفاقی عدلیہ کے سامنے یہ معاملہ اس ط رح
آّیا کہ مئی 2015 میں جب پاکستانی حکام نے ایگزیکٹ کے مشکوف دفاتر پر چھاپے
مار کر بعض لوگوں کو گرفتار کر کے اس کے دفاتر سیل کئے تو حکام کو دھمکیوں
کے موصول ہونے پر اس کیس کو بغیر کسی انجام تک پہنچائے ہی بند کر دیا گیا
امریکہ میں اگزیکٹ کا ایک اہم کارندہ عمیر حامد جب فرار ہو کر پہنچا تو
وہاں کی پولیس نے اس کو دھر لیا اور تحقیقات کرنے پر جب اس کو ایگزیکٹ کے
اہم آرگن ہونے کی حیثیت سے اس پرمقدمہ چلا تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی
سامنے آگیا۔ عمیر حامد کے اس سنگین جرم کااہم کردار ہونے پر اسے 21ماہ قید
اور 60 کروڑ روپے جو اس کے امریکی بینک میں موجود تھے ۔بحقِ سرکار ضبط کر
لئے گئے جس سے ساری دنیا میں پاکستان کی سُبکی، بد نامی اور جگ ہنسائی ہوئی
ہے۔
جب پاکستان میں ایگزیٹ پر کاروائی ہو رہی تھی اور پیمرا نے حرام کی کمائی
سے قائم کئے جانے والے ایک چینل(بول) پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا
توپیمرا کے لوگوں کو باقاعدہ دھمکیاں دی گئیں۔ جب پیمرا نے دھکی آمیز ٹیپ
چلاوائی تو اس میں دھمکی دینے والے نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ مذکور
ہ چینل کو پانچ منٹ میں کھلوائیں ورنہ اس کاخمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا۔اس
کے خلاف جو سیاسی کھیل چل رہا ہے اس کو بند کریں ۔نواز شریف نے کل چلے جانا
ہے۔تم لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مت بنو ابھی چینل کو آپریٹ کرنے کی
کال دیں ،چینل پانچ منٹ میں چل جانا چاہئے۔پھر شکوہ نہ کرنا کہ زندگی سے
ہاتھ دھو بیٹھویا کسی گاڑی کے ٹکر سے تمہارے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائیں تو شکوہ
مت کرنا!
ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر زاہد جمیل جو ایگزیکٹ کے معاملات کو عدالت میں
کامیابی کے ساتھ آگے بڑھا رہے تھے۔ان کے خاندان کو بے حد و حساب دھمکیاں دی
گیءں حتیٰ کہ ان کے گھر پر بم حملہ بھی کیا گیا تاکہ وہ اس طاقتور اور حزبِ
مخالف کے سیاسی گروپ ایگزیکٹ کے خلاف کام کرنے سے رُک جائیں ۔زاہد جمیل کا
کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ کیس بہت طاقتور تھا۔ اس سے مضبوط کیس اور
بنایا نہیں جا سکتا تھا۔جب ہم اس کیس میں کام کر رہے تھے تو ایگزیکٹ کے کسی
کارندے کی بیل نہیں ہو سکی تھی۔ ڈھائی سال کا عرصہ گذر چکا ہے مگر ابھی تک
بین الاقوامی co-opration کے تحت ہماری جانب سے پہلا آرڈر تک منی لانڈرنگ
کا ایشو نہیں کیا جاسکا ہے۔اس مقدمے میں سے 61شہادتوں کو بھیdropکر دیا
ہے۔پاکستان میں عمیر کو بھی چیک نہیں کیا گیا تھا اور وہ آسانی کے ساتھ
پاکستان سے باہر نکل گیا جس کو امریکی عدالت سے بال آخر سزا ہوچکی ہے۔مجھے
بھی اندرونی طور پر ادارے کی جانب سے ایسی ہی ہدایت دی جا رہی تھی کہ اس
معاملے پر ہاتھ ہلکا رکھوں ۔انکا کہنا ہے کہ یہ بات میں تحریری طور پر کورٹ
کو بھی بتا چکا ہوں۔ان مضبوط سیاسی حمایت یافتہ لوگوں کو جب میں نے انکار
کیا تو مجھے ہر طرح کے تھریٹ دیئے گئے۔لہٰذا میں بھی اس کیس سے الگ ہو گیا۔
جب ہم نے کام چھوڑا تو ایگزیکٹ کے تمام لوگوں کو بیل آؤٹ کر دیا گیا۔ہمارے
بعد وکلا آتے جاتے رہے مگر ایف آئی اے نے بھی کاروائی صحیح طور پر نہیں
چلائی گئی۔2015 کے بعد سے منی لانڈرنگ تحقیقات روک دی گئیں۔
حقیقتاََ عدالتی کاروئی کے دوران جو کچھ پاکستان میں وکلاء کے ساتھ کیا گیا
وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی کہا نی نہیں ہے۔ایگزیکٹ کی فائل کھل جانے کے بعد
اس کے کارندوں کی جتنی بھی گرفتاریاں کی گئی تھیں ان سب کو بزور رہا کرالیا
گیا۔یہ معاملہ جس عدالت میں چلا اُس کے جج نے 50لاکھ روپے رشوت کی خطیر رقم
لے کر(جس کا موصوف جج نے ذاتی طور پر اعتراف بھی کر لیا تھا) ملزم کی بریت
کے آرڈر ایشو کر دیئے۔مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ جن عدالتوں میں بھی یہ
کیس لیجا یا گیاں خطر ناک دھمکیوں کے پیشِ نظر اُن عدالتوں کے ججز نے اس
مقدمے کو سننے سے انکار کر دیا۔وکلا کے دبھی خطر ناک دھمکیاں آڑے آتی رہیں
اور آڈیو کیس کا معاملہ بھی دبا دیا گیا اور پاکستان میں اس کیس کے مجرم
دندناتے پھر رہے ہیں۔جن کو ایک بین الاقوامی فنڈنگز پر چلنے والی ایک سیاسی
جماعت بھر پور طریقے پر سپورٹ کر رہی ہے۔اس ملک کے عوام کی بد قسمتی یہ ہے
کہ سیاست کے وہ بھیانک چہرے جو دن رات کرپش کرپشن منی لانڈرگ منی لانڈرنگ
کے راگ الاپتے نہیں تھکتے ہیں ۔ان کے لوگ اور اس جماعت کے بڑے رہنما
ایگزیکٹ کے نام بدلے ہوئے چینل ’’بیانوے‘‘پر آ آ کرقوم کو اپنے مخالف سیاسی
رہنماؤں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا درس دیتے ہوئے تھک نہیں رہے اور نام
نہاد سول سوسائٹی کے لوگ ان مکروہ چہروں کی جی بھر کے حمایت کرتے ہوئے
تھکتے نہیں۔ایگزیکٹلی یہ ہی لوگ پاکستان کے معاشرے کا سیاسی ناسور ہیں۔ |