جنگ کسی بھی مسئلے کاحل نہیں(آخری قسط)

۱۰جولائی۲۰۱۵ءکوپاکستان چین اور روس کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے دفاعی اتحاد میں شامل ہوچکا ہے جبکہ دوسری طرف تمام تر جنگوں کے باجود حیران کن انداز میں پاک فوج نے اپنی طاقت بڑھائی جس نے پاکستان کوبھرپوراعتمادسے سرشارکیاہے۔نائن الیون کے وقت بش نے جب پاکستان پر حملے کی دہمکی دی تھی اس وقت پاکستان کے پاس آپشنز محدود تھے۔ ہماری میزائل رینج محض چند سو کلو میٹر تک تھی۔ چین اس وقت نہ اتنی بڑی معاشی طاقت بنا تھا نہ اس کی دفاعی طاقت کی یہ حالت تھی۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات خراب تھے اور اس وقت امریکا اپنے جوبن پر تھا ۔ افغان اور عراق جنگ کی رسوائی کاسامنابھی نہیں ہواتھا لیکن اب زمینی حقائق میں زمین آسمان کافرق آچکاہے۔اب جہاں پاکستان کاتیمورمیزائل۱۷ہزار کلومیٹرکی پرواز کر سکتا ہے جو براہ راست واشنگٹن ڈی سی، نیویارک اور پینٹاگان کو نشانہ بنا سکتا ہے وہاں ابدالی بیلسٹک میزائل ایک ہی وقت میں بھارت اور اسرائیل کے درجن سے زائدٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خطے میں موجود تمام امریکن فورسز اور ان کے اڈے پاکستانی میزائلوں کے براہ راست نشانے پر ہیں جہاں ان کے پاس کوئی میزائل ڈیفنس شیلڈ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکانے پاکستانی میزائل ٹیکنالوجی کی صلاحیت کومحدود کرنے کابھی مطالبہ کیا ہے۔
جب امریکا نے ریڈار پر نظر نہ آنے والےسٹیلتھ ہیلی کاپٹروں سے دنیا کو ڈرایا تو پاکستان نے جہاں حتف (۷بابر) میزائل کا تجربہ کیا جو سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل ہے اور ریڈار پر نظر نہیں آتا وہی اس نے چین سے جے۳۱سٹیلتھ فائٹر جہازوں کےایک بیڑہ کے ساتھ اس کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی ہے۔ امریکا نے غالبا ًٹنگسٹن کاربائٹ (دنیا کی سخت ترین دھات )سے بنے ٹینک اتارکر عراقی افواج کوحیران کردیاجس پرعراقی افواج کے تمام ہتھیارغیر موثرثابت ہوئے تھے،پاک فوج کے انجینئرز نے جواباًتھوڑے ہی عرصے میں اسی دھات کے ایسے گولے بنالیے جوان امریکن ٹینکوں کوتباہ کرسکتے ہیں۔ امریکا نے پاکستان کوڈرون ٹیکنالوجی دینے سے انکارکیاتوپاکستان نے اگلے ایک سال میں براق نامی اپنے ڈرون تیارکرلیےجونہایت درستگی کے ساتھ دشمن کو نشانہ بھی بناسکتے ہیں۔ امریکانے پاکستان سے ایف سولہ طیاروں کی قیمت وصول کرنے کے باوجود معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طیارے دیئے نہ ہی رقم واپس کی توپاکستان نے اپنے وفاداردوست چین کے تعاون سے نہ صرف اس سے کہیں بہتر''جے تھنڈر ''تیارکرلیابلکہ دنیاکے کئی ممالک کوفروخت بھی کررہاہے۔حال ہی میں پاکستان نے جدیدترین ٹیکنالوجی سے مزین مزیدپچاس ''جے ایف۱۷''فائٹر طیارے خریدکراپنی فضائی قوت کو مزیدمضبوط کرلیاہے۔
ٹرمپ شائد اس کو کوئی ریسلنگ کا نقلی میچ سمجھ رہا ہے۔چاہے انڈیا سے جتنی مرضی پینگیں بڑھالے، اس کواندازہ ہی نہیں پاکستان کے بغیراس خطے میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔آج تک امریکانے دنیابھرمیں حملے کیے لیکن اس کی اپنی عوام ہزاروں میل دوربیٹھ کرچین کی بانسری بجاتی رہی لیکن اگر پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی توان شاءاللہ امریکی عوام اورخواص براہ راست اس جنگ کامزہ چھکیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی تقریرمیں جس(دس ارب ڈالر کی امداد)کاطعنہ دیاہے،اس سے کہیں زیادہ توہر سال صرف سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں ہاں البتہ پاکستان کے پاس شواہد ہیں کہ امریکانے ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کی ہے جس نے پاکستان کوکم ازکم پچاس ارب ڈالرکا نقصان پہنچایاہے اور مجموعی طورپراس پرائی جنگ میں ہمیں اب تک ستر ہزار سے زائدجانی قربانیوں کے ساتھ ایک سوبیس ارب ڈالرسے زائدکانقصان پہنچ چکاہے اوراب وقت آگیاہے کہ پاکستان اس کا تاوان طلب کرے۔

پاکستان فورا ًشنگھائی تعاون تنظیم میں شامل اہم ترین شق"مشترکہ دفاع "کو ایکسرسائز کرے جس کے مطابق پاکستان پرحملہ روس اورچین پرحملہ تصورہو گا۔ پاکستان روس اور چین کے ساتھ ملکر " دہشت گردی " کی ایک عالمی تعریف وضع کرنے کی کوشش کرے تاکہ اصل دہشت گردوں کا تعین ہوسکے اور جنگ آزادی اوردہشتگردی میں فرق واضح ہو سکے۔ حکومت پاکستان اعلان کرے کہ پاکستان میں کوئی ڈرون داخل ہوا تونہ صرف گرایاجائے گابلکہ جوابی حملہ بھی کیاجائے گا۔

ٹرمپ کی حالیہ تقریرکے جواب میں یقیناً قومی سلامتی کادو طویل اجلاس منعقد ہو چکے ہیں جس کے جواب میں پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے دورہ امریکامؤخرکردیاہے اور پاکستان نے اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور خصوصی نمائندہ برائے پاک افغان" الیسی ویلز"کامتوقع دورہ بھی مؤخر کر دیاہے تاکہ اپنے قریبی دوستوں روس اورچین سے مشاورت مکمل ہوسکے۔ اب فوری طورپر پاکستان کوفوراًشنگھائی تعاون تنظیم کی اہم ترین شق''مشترکہ دفاع'' کو ایکسرسائز کرناچاہئے تاکہ کسی بھی متوقع حملے کوپاکستان،روس اورچین پر حملہ تصور کیاجائے اور''دہشتگردی''کی عالمی تعریف بھی وضع کی جائے تاکہ اصل دہشت گردوں کاتعین کیاجاسکے،جنگ آزادی اوردہشتگردی میں فرق واضح کیاجائے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق کشمیرمیں جاری آزادی کی جدوجہد اوراقوام عالم کی طرف سے کئے گئے حق خودارادیت کے وعدے کےحصول میں ان کی مددکی جائے۔جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے تو جب تک امریکی کٹھ پتلی حکومت افغانستان میں براجمان ہے اورامریکی فوج وہاں تعینات ہے،افغانی اس کے خلاف برسرپیکاررہیں گے کہ یہ افغانیوں کابنیادی حق ہے کہ وہ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کریں۔امریکایہ کیوں بھول گیاہے کہ اس نے بھی اپنی تاریخ میں انگلینڈسے آزادی کیلئے یہی کچھ کیاتھا۔صہیونی اورہندولابی کے ساتھ ساتھ امریکاکویہ واضح پیغام دیناہوگاکہ امریکاپاکستان کوفتح کرنے کاموقع ضائع کر چکا،اب کچھ نہیں ہوسکتا۔جنگ کسی بھی مسئلے کاحل نہیں اورزمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے بالآخرمذاکرات کی میزپرہی آناہوگا۔جب دولاکھ کے قریب نیٹو فورسزمل کرافغانستان میں فتح حاصل نہ کرسکیں تواب نیٹو کی مددکے بغیر چند ہزارامریکی آکرکون ساتیرمارلیں گے؟جب کراچی سے خیبرتک بکھرے ہوئے کوئی لاکھ کے قریب ٹی ٹی پی،بی ایل اے،القاعدہ اورایم کیوایم کے دہشتگردمل کر پاکستان کوکمزورنہ کرسکے تواب ان کے بچ جانے والے چند سو کارندے کیا کر لیں گے؟ ضربِ عضب اورردّالفسادکے جاری آپریشنزمیں کامیابیاں اورقربانیاں اس بات کی دلیل ہیں کہ پاکستان تاقیامت،تاابدقائم رہے گا،ان شاءاللہ!

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390369 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.