شہید پولیس اہلکار کے قاتل کی بابت سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

قانون کے طالب علموں ججز اور عام قارئین کے لیے بعض مقدمات کے محرکات کافی دلچسپی کے حامل ہوتے ہیں ایسے مقدمات کی تفصیلات سے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ جات میں جو آبزرویشن دی جاتی ہیں وہ ایسی رہنمائی مہیا کرتی ہیں کہ جس سے کسی بھی فوج داری مقدمے کے حوالے سے ٹرائل کیے جانے کے مختلف پہلوؤوں پر غور و غوض کی بدولت قانون کی طالب علموں کو ایک خاص ڈائریکشن میں کیس کی تیاری میں مدد فراہم ہوجاتی ہے۔ سزائے موت کے کیس میں ایف آئی آر کا وقوعے کے کتنے دیر کے بعد اندراج ، ایف آر اندراج کروانے والے شخص کی اہمیت، ایف آئی کیمطابق وقوعہ میں جو اسلحہ استعمال ہوا اُس کی ریکوری اور بعد ازاں فرانزک لیبارٹری میں سے ٹسٹ رپورٹ کا کیا جانا کہجو اس وقوعہ میں استعمال ہو کیا وہی تھا جو کہ موقعہ پر ملا اور اُس کا پھر فرانزک ٹسٹ ہوا۔۔ اِسی طرح نامزد ملزمان کا جو رول کیس میں بنتا ہے وہ کس نوعت کا ہے کیا وہ مخصوص رول ہے یااُس میں کوئی شک و شبہ ہے۔ کیس میں اہم بات ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ گواہان کی کوئی ملزم کے ساتھ دُشمنی تو نہیں یا گواہوں کا ملزم کے خلاف بیان دینے کے حوالے سے کوئی مفاد تو نہیں۔سپریم کورٹ 2016SCMR-28 کے مطابق شرافت علی ملزم نے سپریم کورٹ میں اپنی سزا کے خلاف اپیل کی۔ یہ کیس باغبان پورہ تھانہ لاہور میں بمطابق پی پی سی 332,351,324,302 ,34,186 بمعہ ۔7 ۔اے ٹی ائے درج ہوا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے اپنے فیصلے مورخہ 19-8-2005میں ملزم شرافت اور دوسرئے ملزمان کو سزائیں سُنادیں۔درخواست گزار شرافت علی کو سزائے موت اور پچاس ہزار روپے جرمانہ اور عدم ادئیگی جرمانہ کی صورت میں دو ماہ مزید قید کی سزا ہوگی۔ ملزم شرافت علی کو 7(b) آف اے ٹی اے کے تحت بھی سزا سُنائی گئی جو کہ دس سال قید اور دس ہزار روپے جرمانہ تھی اور عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں مزید دو ماہ قید کی سزا بھگتنا ہو گی۔ ملزمان نے ہائی کورٹ میں اپیل کی لیکن ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کی دی جانے والی سزا کو برقرار رکھا۔کیس کے حقائق جو ہائی کورٹ کے فیصلے میں بیان کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ ایف آئی ار کا شکایت کنندہ تھانہ باغبان پورہ کے ایس ایچ او ناصر مشتاق کا کہناتھا کہ وہ اپنے ساتھی اہلکاروں کے ساتھ چوک باسی بندر روڈ پر موجود تھا کہ مخبر سے اطلاع ملی کہ اشتہاری شرافت علی اور اُسکا بھائی آصف علی اپنے گھر میں اِس وقت موجود ہیں۔پولیس پارٹی کے ساتھ ایس ایچ او نے گھر پر ریڈکیا تو دونوں ملزمان اور اُن کا باپ سیف علی بھی وہیں موجود تھا۔پولیس پارٹی کو دیکھتے ہی ملزمان نے للکارا مارا اور شرافت علی نے اپنے تکیے کے نیچے سے تیس بور کا موزر نکال لیا اور فائرنگ کرتے ہوئے ایک کمرئے کے اندر چلا گیا اور آصف علی اور سیف علی بھی فائرنگ کرتے ہوئے اُسی کمرئے میں چلے گئے۔ سیف علی بارہ بور کی بندوق لیکر گھر کی چھت پر چڑھ گیا اور فائرنگ کرنے لگا۔اِسی دوران شرافت علی کی جانب سے کی گئی فائرنگ کانسٹیبل ذ والفقار علی کے پیٹ میں لگی کیونکہ وہ آگے بڑھ کر شرافت علی کو گرفتار کرنے لگا تھا۔ذولفقار علی کانسٹیبل زمین پر گر گیا اُسے اور دیگر زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں ذوالفقار علی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوگیا۔ ملزم شرافت علی کو بھی جسم کے مختلف حصوں میں زخم لگے۔ تمام تینوں ملزمان بمعہ اسلحہ موقعہ پر گرفتار کر لیے گئے۔ ساڑھے پانچ بجے یہ وقوعہ ہوا اور چھ بجے ایس ایچ او نے ایف آر درج کروا دی ۔ عدالت نے ملزم شرافت کے وکیل ا ور ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل کے کیس کی بابت دلائل سُنے ہیں۔شرافت علی جو کہ اشتہاری ہے اُس کی گرفتاری کے لیے پولیس نے ریڈ کیا تھاجس میں ذوالفقار علی کانسٹیبل وفات پا گیا۔ وقوعہ کے مقام پر جو اسلحہ ملا اُسکا فرانزک ٹسٹ بھی کروایا گیا جس کی رپورٹ میں ثابت ہوگیا کہ یہ وہی اسلحہ ہے جو وقوعہ میں استعمال ہوا۔ پانچ پولیس اہلکار بطور گواہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے۔ اِن گواہان پر بہت لمبی چوڑ ی جرح کی گئی لیکن یہ گواہان اپنی بات پرقائم رہے۔ گواہان کی شرافت علی سے کوئی دُشمنی نہ تھی۔ کہ وہ اُسے کسی جھوٹے مقدمے میں پھنسواتے۔ ایف آئی آر بھی فوری طور پر درج ہوئی اور ایف آر میں کردار بھی سپیسیفک / مخصوص تھا۔ایف آئی آر کا درج ہونا جھوٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پراسکیوشن نے اپنا کیس ثابت کیا ہے۔ اِس لیے یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ ایسے تمام واقعات جن میں کراس فائرنگ ہوتی ہے یا ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پولیس جس طرح ریڈ کرتی ہے تو اِس طرح کے واقعات پولیس کو پیش آتے ہینب اور سماج دُشمن جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لیے پولیس کے اہلکاروں افسران کو جام شہادت نوش کرنا پڑتا ہے۔

اَس مقدمہ میں جو اہم نکات قانون کے طالبعلموں کے لیے ہیں وہ یہ کہ ملزم پہلے سے ہی کئی مقدمات میں اشتہاری تھا،ملزم نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی۔ ملزم نے ایک پولیس اہلکار کا دوران ریڈ قتل کیا۔ملزم کے ساتھ مقتول کی تو دُشمنی نہ تھی مقتول چونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارئے کا ملازم تھا اور وہ اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا۔ گواہان مقدمہ کی ملزم شرافت علی کے ساتھ کوئی ذاتی رنجش تو نہ تھی۔گواہان نے جرح کے جوابات تسلی بخش دئیے۔ یوں ایک ایسا ملزم جس نے قانون کے رکھوالے کو قتل کیا ہہوریکارڈ یافتہ ہو۔ کسی قسم کی رعایت کا مستحق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ٹر ائل کورٹ اور ہائی کورٹ والی سزا کو برقرار رکھا۔
 

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 431449 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More