جنگِ ستمبر اور چونڈہ محاذ

پاکستان کی تاریخ عزم و استقلال ،شجاعت اور بہادری کی عظیم داستانوں سے بھری پڑی ہے۔جس کو جان کردنیا انگشت بدنداں ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے۔قیامِ پاکستان کے حصول کی طویل تگ و دو سے لے کر بقائے پاکستان کے لئے دی جانے والی لازوال قربانیوں تک لکھا جانے والا تاریخ کا ایک ایک ورق اپنی مثال آپ ہے۔شجاعت و بہادری کی ایسی ہی ایک ناقابلِ فراموش داستان 6ستمبر 1965ء کو بھی صفحہ دہر کے سینے پر لکھی گئی۔جس میں جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی سے سرشار غیور پاکستانی قوم نے اپنی عظیم فوج کے شانہ بشانہ ہو کراُس وقت اپنے ملک کا دفاع کیا جب رات کے اندھیرے میں بزدل چور کی طرح بھارت نے ایک آسان ہدف سمجھتے ہوئے پاکستان پر حملہ کر دیا اور پاکستان جیسی مقدس دھرتی پر قبضہ کرنے کے ناپاک خواب دیکھنے لگا۔وہ یہ سوچ رہا تھا رات کے اندھیرے میں نیند کی آغوش میں آرام کرتی ہوئی اس قوم پر چپکے سے حملہ کریں گے اور صبح دنیا ان کی جرات کے رعب تلے دبی ہوئی ہو گی۔بھارتی عوام ان کی بہادری کے قصے چوکوں اور چوراہوں میں سنا سنا کرفتح کا جشن منائیں گے ۔جیسا کہ انڈین آرمی چیف جنرل جے این چوہدری نے (جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا اور اس نشے نے اس کی عقل کو مقفل کر دیا تھا )بھڑک لگائی تھی کہ ہم صبح کا ناشتہ لاہور جِم خانہ میں جا کر کریں گے اور شام کو فتح کا جشن مناتے ہوئے وہاں بیٹھ کر وہسکی پئیں گے۔لیکن بھارتی سورماؤں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کا مقابلہ جس قوم سے ہے وہ اپنی پاک دھرتی کے دیوانے ہیں۔جذبہ ایمان لہو کے ساتھ ساتھ ان کی رگوں میں دوڑ تا ہے اور ان کی ہر سانس سے جذبہ شہادت کی خوشبو آتی ہے۔یہ وہ قوم ہے جس کے سامنے دریا اپنا رُخ موڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں،پہاڑ اپنی ہیبت کھو دیتے ہیں،طوفان ان کے چٹانی حوصلوں کے معترف ہو جاتے ہیں۔یہ وہ قوم ہے جو موت سے بھی نہیں ڈرتی بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا ہنر رکھتی ہے۔جیسا کے بھارت کی طرف سے جنگ مسلّط ہونے کے وقت فیلڈ مارشل صدر ایوب خاں کے خطاب سے عیاں ہوا اور ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کیا گیا۔خطاب سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔"میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم۔پاکستان کی دس کروڑ عوام کی آزمایش کا وقت آ پہنچا ہے۔بھارتی فوج نے آج صبح سویرے لاہور کے محاذ پر پاکستانی علاقے پر حملہ کر دیا ہے۔پاکستان کی دس کروڑ عوام جن کے دلوں میں لا الہ الااﷲ محمد الرسول اﷲؐ کی صدا گونج رہی ہے ۔اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک بھارت کی توپیں ہمیشہ کے لئے خاموش نہ ہو جائیں ۔بھارتی حکمرانوں کو احساس نہیں کہ انہوں نے کس قوم سے ٹکر لی ہے۔دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے کمر کَس لیجیے،اس لئے کہ جس ابلیسی فتنے نے آپ کی سرحدوں پر سر اٹھایا ہے اس کا خاتمہ ہو کر رہے گا۔آگے بڑھیے اور دشمن سے ٹکرا جائیے۔اﷲ آپ کے ساتھ ہے۔پاکستان زندہ باد۔" جنگ عظیم دوم کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کی تقریر کے بعد یہ دوسری بڑی موثر ترین جنگی تقریر تھی جو ایوب خاں نے کی اور جسے سنتے ہی پوری قوم میں جذبے کی نئی روح پھونکی گئی۔(یہ تقریر بریگیڈئیراحمد شجاع پاشا نے لکھی تھی،جو صدر ایوب کے پرنسپل سیکرٹری ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ناول نگار بھی تھے۔ان کا ہجرت کے حوالے سے لکھا ہوا ایک ناول"وہاں بھی ایک گاؤں تھا" بہت مشہور ہوا ۔انہوں نے صدر ایوب کی لکھی ہوئی کتابFriends not Masters کا اردو میں "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" کے نام سے ترجمہ بھی کیا۔ ان الفاظ کا سننا تھا کہ بچے،بوڑھے ،جوان اور عورتیں اپنی لاٹھیاں، بھالے، معماری کے اوزار حتّیٰ کہ کھیتی باڑی کا سامان اٹھائے ہوئے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر پاکستانی سرحدی علاقوں کی طرف دوڑنے لگے تاکہ وطن عزیز کے دفاع میں اپنی فوج کا ہاتھ بٹا سکیں ۔ لیکن مقدس سرزمین کے عظیم فرزندوں اور غیور مجاہدوں نے انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ " ابھی آپ کی ضرورت نہیں ہے ۔" پاک فوج کے جوان جہاں سے گذرتے ،پاکستانی قوم ان کے ساتھ وطن عزیز پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے بے تاب نظر آتی اور جوان یہ کہتے ہوئے ان کے پاس سے گذرتے کہ "ماؤ ،پینو اﷲ دے سپرد کریو" اور ڈھیروں دعاؤں کی روحانی کمک لے کر دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک آلود کرنے کے لئے اپنے مورچے سنبھال لیتے۔ادھر صوفی تبسمؔ کا لکھا ہوا گیت "اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے" نور جہاں کی مترنم آواز میں فضاؤں میں گونجتا تو رگوں میں دوڑنے والے لہو میں وہ حرارت پیدا ہوتی جس کی شدت کے آگے کوئی دشمن ٹھہرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔پوری قوم میں جذبوں کایہ عالم تھا کہ مائیں اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے خود تیار کرکے بھیجتیں،بہنیں اپنے وِیروں کے سر پر اپنے ہاتھوں سے کفن باندھ کر پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے آمادہ کرتیں۔دشمن نے چونڈہ سیکٹر پر 3اطراف سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔پہلا منصوبہ،17(پونہ)ہارس پر مشتمل تھا۔جس نے نخنال،سبکوٹ اور خانپور سیداں کے راستے سے ہوتے ہوئے ٹھروہ منڈی ،ڈوگری ہریاں اور اس کے ساتھ ملحقہ دیہاتی علاقہ اپنے قبضے میں لینا تھا۔دوسرا منصوبہ جو 16کیولری اور 5/9 گورکھا پر مشتمل تھا ،جس نے رنگور،چاروہ،چوبارہ اور گڈگور سے ہوتے ہوئے خانانوالی ،پھلورا اور بعد ازاں چونڈہ پر قبضہ کر کے یہاں اپنی فوج کو متحد کر کے لاہور کی طرف پیش قدمی کرنا تھی۔تیسرا منصوبہ 43 موٹر انفنٹری بریگیڈ اور 2لانسرز پر مشتمل تھا ،اس نے سبز پیر اور مست پور کے راستے سے بھاگوال پر اپنا قبضہ جمانا تھا۔یہ مجموعی طور پر5 سے 6 میل طویل محاذ تھا جس پر یہاں بھارت پے در پے حملے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا لیکن الحمداﷲ ہماری 25 رجمنٹ کیولری کے شیر جوانوں نے تن تنہا انہیں پسپا کئے رکھا۔ چونڈہ محاذ پر انڈین آرمی کی نمبر 1 کور (جس میں اس کا پہلا بکتر بند ڈویژن 6، پہاری ڈویژن 14، انفنٹری ڈویژن اور 26 انفنٹری ڈویژن شامل تھے)نے بھرپور قوت کے ساتھ حملہ کیا تھا جس کا مرکزی ہدف چونڈہ تھا اور انڈین آرمی کی جنگی منصوبہ بندی کے مطابق 8 ستمبر کو اس پر قبضہ ہونا تھا۔اس علاقے میں کوئی نہر یا پل بھی نہیں تھا جو دشمن کے ٹینکوں کی سفری پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو سکتا۔لہذا اس بات کی افادیت کا خیال بھی دشمن کے ذہن میں تھا اور وہ اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہا تھا۔پاک آرمی کے شیر جوان بھی اسی خدشے کے پیش نظر ایسی حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے جس سے نا صرف دشمن کی پیش قدمی کو روکا جا سکے بلکہ انہیں پسپائی پر بھی مجبور کیا جا سکے۔گڈگور کے مقام پر ہماری 9FF (۹فرنٹئیر فورس)رجمنٹ نے انڈین آرمی کے چھکے چھڑا دیے ۔۱۱ ستمبر کو یہاں گھمسان کا رن پڑا۔یہاں نائیک کامل شاہ سمیت 13 جوانوں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا اورملک کا دفاع کرتے کرتے جام شہادت نوش فرمایا۔ان میں سپاہی محمد یونس نے جوانمردی کے وہ جوہر دکھائے کہ دشمن کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔اس بہادری کے اعتراف میں انہیں تمغہ جرات سے بھی نوازا گیا۔خانانوالی کے مقام پر پاکستانی قوم کے جس ہیرو نے ہمت و استقلال کی داستان رقم کی،ان کا نام میجر ضیاء الدین احمد عباسی شہید(ستارہ جرات) تھا۔پاک فوج کے نامور گائیڈ رسالہ کے جوان بھارتی گولوں کے آگے چٹان بن گئے اور اپنے آہنی سینوں پر یہ گولے کھاتے ہوئے جان ،جان آفریں کے سپرد کر گئے لیکن بھارتی سورماؤں کو آگے نہ بڑھنے دیا۔یہاں لیفٹیننٹ حسین شاہ (ستارہ جرات) اور لانس دفعدار محمد اسماعیل سمیت ۹ جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔(خانانوالی کے مقام پر جہاں یہ مدفن ہیں وہاں ان کی چھوٹی سے یادگار تعمیر کی گئی تھی،لیکن بعد میں اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔وہاں تک پہنچنے کا راستہ کچا اور انتہائی دشوار ہے۔مشکل سے پیدل چل کر وہاں تک پہنچنا پڑتا ہے۔حکومت اورپاک آرمی سے اپیل ہے کہ قوم کے اس محسن کی یادگار کی تزئین و آرائش کا اہتمام کرے)۔جب بھارتی فوج نے پھلورا سے چونڈہ کی طرف رخ کیا تو یہاں فرسٹ ایس پی فیلڈ رجمنٹ کے لیفٹیننٹ کرنل عبدالرحمن (ستارہ جرات) نے بھارتی ٹینکوں کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور ان کا غرور خاک میں ملا کر رکھ دیا۔آپ کا تعلق گجرات سے تھا۔آپ کے ساتھ جام شہادت پینے والوں میں حوالدار سلام کبیر (باریسال ، مشرقی پاکستان)،نائیک غلام محمد(جہلم) اورڈرائیور سید محمد (جہلم) تھے۔پھلورا چوک میں ان کی یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ جنگ کے دوران چونڈہ کو مکمل طور پر خالی کروا لیا گیا تھا اور پاک فوج کے جوانوں نے اپنے مورچے سنبھال لئے تھے۔چونڈہ کے وسط میں برکت کمہار کا ایک آوا تھا جو کافی اونچائی پر تھا(موجودہ دور میں وہاں لائیڈ بینک کی عمارت ہے)وہاں تک بھارتی فوج کا OP پہنچ چکا تھا جو پاک فوج کی نقل و حرکت سے بھارتی فوج کو آگاہ کرتا ۔ہمارے ایک جوان نے اس کو واصل جہنم کیا جس سے دشمن کو ملنے والی اطلاعات میں تعطل آ گیا۔چاروہ، چونڈہ سڑک پرگڈگور کے مقام پر انڈین آرمی نے مضبوط مورچہ بندی کر رکھی تھی اور وہاں اپنی پوزیشنز سنبھال کر ٹینکوں سے گولے داغ رہے تھے،اس محاذ پر میجر محمد احمد کا سکاڈرن بھی ہراول دستے میں شامل تھا۔ اس مرد آہن نے دشمن کو کئی گھنٹوں تک روکے رکھا اور ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا اور دلیری کی وہ مثالیں قائم کیں کہ تاریخ کے صفحات خود اس پر ناز کرتے ہیں اور زمانہ سن کر عش عش کر اٹھتا ہے۔آخرکار وہ ٹینک کا ایک گولہ لگنے سے شدید زخمی ہو گئے،ان کا جسم کافی حد تک جل چکا تھا مگر وہ میدان جنگ سے کسی بھی صورت ہٹنے پر آمادہ نہیں تھے لیکن پھر انہیں زبردستی واپس بھیجا گیا اور ان کی جگہ کیپٹن فرخ خان نے سنبھالی۔اس وقت تک ان کا سکارڈن دشمن کے 5 ٹینک تباہ کر چکا تھا جس سے دشمن حواس باختہ ہو گیا تھا۔اسی اثناء میں لانس دفعدار عطا محمد(تمغہ جرات) نے ایک ٹینک سے گولہ باری کرتے ہوئے دشمن کے 4 سنچورین ٹینک تباہ کر دیے۔اس سرفروشی اور بہادری کے عوض میدان جنگ میں ہی ان کی ترقی کے آرڈر جاری کر دیے گئے۔اس دوران میجر رضا خان اور میجر محمد حسین (ستارہ جرات)کا سکارڈن بھی مدد کو پہنچ گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شام ساڑھے پانچ بجے جب عموماً ٹینک واپس بلائے جاتے ہیں ،ایک بھرپور حتمی حملہ کیا جائے۔کیونکہ شدید ترین نقصان کے باوجود دشمن ابھی پسپا نہیں ہوا تھا۔اور اس کو پیچھے دھکیلنا اب نا گزیر ہو چکا تھا۔اس جنگی حکمت عملی نے دشمن کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں۔اِدھرچونڈہ میں دشمن کے ٹینکوں کا حملہ جب شدت اختیار کر گیا اور ان کی پیش قدمی کو روکنا محال ہو گیا تو پاک فوج نے سرفروشوں نے وہ تدبیر اختیار کی جس کے سامنے بڑے سے بڑے جذبے بھی خجل ہو جائیں،47 سال کے بعد بھی اس کو یاد کر کے دشمن کی روح میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ صرف اسلامی تاریخ ہی ایسی سرفروشی کی متحمل ہو سکتی ہے۔دشمن کے ٹینکوں کو روکنے کے لئے پاک فوج کے جوانوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر تباہ کرنے کا فیصلہ کیا،نیلگوں فلک جذبہ شہادت کا یہ عالم دیکھ رہا تھا کہ ایک بھی جوان ایسا نہیں تھا جو کترا رہا ہو بلکہ ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ سب سے پہلے وطن عزیز پر قربان ہونے کے لئے اس کا انتخاب کیا جائے۔اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قربانی کاوہ لازوال باب رقم ہونے والا ہے جوساری قوم کے ماتھے کا جھومر بن کر جگمگائے گا۔کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس وقت لا الہ الااﷲ محمد الرسول اﷲ ؐ کے مفہوم کی ایسی تشریح ہونے لگی ہے جس پر مسلم اُمّہ کو ناز ہو گا۔کیا پتہ تھا کہ جوانمردی کا ایسا معیار قائم ہونے جا رہا ہے جس کی تقلید کرتے ہوئے بڑے سے بڑے رستم ڈگمگا جائیں گے،سورماؤں کی ٹانگین کانپیں گی۔ پاک فوج کی ہیبت بھارتی سورماؤں کے اعصاب پر سوار ہونے والی تھی اور پھر تاریخ نے وہ روح پرور مناظر بھی دیکھے کہ ایک ایک کر کے دھرتی ماں کے سپوت فرضِ محبت ادا کرتے ہوئے تاریخ پاکستان میں اپنے لہو سے اپنا نام کندہ کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہوتے گئے۔ بھارت کی بزدل فوج اپنے ٹینکوں کے اس طرح پرخچے اڑتے دیکھ کر ایسا بوکھلائی کہ بھاگ کر جان بچانے کے سوا انہیں کوئی اور راستہ ہی سجھائی نہ دیا۔جلتے ہوئے ٹینک چھوڑ کر جان بچا کر بھاگنے والے گیدڑوں کا یہ حال تھا کہ انہوں نے بوٹ تک اتار دیے کہ بھاگنے میں آسانی رہے ۔بڑی بڑی بھڑکیں لگانے والے خود تماشا بن گئے۔ یہاں قابل تحسین بات یہ ہے کہ دشمن کے حملہ آور یہ ٹینک عام ٹینک نہیں تھے بلکہ سیاہ ہاتھی کے نام سے مشہور یہ اس وقت کی ان کی سب سے بڑی جنگی مشین تھی۔یہ بھارت کا 16کیولری سکارڈن تھا۔سنچورین رجمنٹ تھی اور پہلے انڈین آرمڈ ڈویژن کا حصہ تھی۔انڈین آرمی چیف جنرل جے این چوہدری کا تعلق بھی پہلے اسی رجمنٹ سے تھا۔اسے فخر ہند کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور اس دن فخر ہند کایہ خطاب پاک فوج کے عظیم سپاہیوں کے بوٹوں کے تلووں تلے روندا جا رہا تھا اور تقدیر پاس کھڑی مسکرا رہی تھی۔چونڈہ کو بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنا دیا گیا ۔اس جنگ عظیم کی مکمل داستان کا مفصل بیان ایک ہی جگہ پر کرنا ممکن نہیں ہے۔قدم قدم پر حریت سے سرشارجذبوں سے بھرپور داستان مورخ کی جنبشِ قلم کی منتظر نظر آتی ہے۔ 17 روز تک جاری رہنے والی یہ جنگ جو بھارت نے اپنی طاقت کے زعم باطل میں ہم پاکستانیوں پر مسلط کی تھی اب چونڈہ سے لے کر ہلواڑے تک؛قصور سے لے کر اٹھنور تک ؛ ہڈیارہ کے نالے سے لے کر کھیم کرن تک؛ بی آر بی نہر سے لے کر دوارکہ کے قلعے تک اورواہگہ سے لے کر جام نگر تک ان کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔اُس وقت اپنے بوٹ اتار کر جان بچا کر بھاگنے والی بھارتی فوج آج اپنے آپ کوذلّت سے بچانے کی غرض سے دنیا کے سامنے اپنی جیت کا جھوٹا شور مچانے کی کوشش کرتی ہے لیکن دنیا بھارت کی اس بد ترین شکست سے آگاہ ہے۔اور اپنے اس جھوٹ کی وجہ سے بھارت کو پوری دنیا کے سامنے اور ذیادہ ندامت و شرمندگی کا سامنا ہے۔ پاکستانی قوم ہر سال یہ دن ملّی جوش و جذبے سے منا کر اسی بات کا اعادہ کرتی ہے کہ ملک و قوم کی سا لمیت اور وقار پر نہ کوئی سمجھوتا کبھی کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی کیا جائے گا۔پاکستان زندہ باد،پاک فوج پائندہ باد

Awais Khalid
About the Author: Awais Khalid Read More Articles by Awais Khalid: 36 Articles with 34822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.