کلبلاہٹ

رائٹ وے اور رونگ وے دونوں ہی منزل کی طرف جاتے ہیں۔اور دونوں ہی الگ الگ آسانیاں اور دشواریاں رکھتے ہیں۔سیدھے رستے میں منزل کے یقینی حصول کی ضمانت ہوتی ہے مگر یہ راستہ انتہائی اکتا دینے والا ہوتاہے۔بڑا لمبا اور بڑا تھکا دینے والا۔ہاں منزل اس راستے کا ثمر ضرور بن جاتی ہے۔دوسرا رستہ جو رو نگ وے کہلاتا ہے۔اس کا اپناایک رنگ ہے۔یہ سیدھا دادا اور پرکشش ہوتاہے۔ہزاروں میل کی منزل انتہائی قریب محسوس ہوتی ہے۔اب یہ اور بات ہے کہ اس راستے میں یکا یکی ایسی مزاحمتیں آجاتی ہیں۔جو منزل سے ہٹنے جانے والے راستے کی طرف موڑ دیتی ہیں۔پھر ادھر ادھر مڑتا گھومتا مسافر بھٹکتے بھٹکتے منزل سے کوسوں دور چلا جاتاہے۔سیدھے راستے پر منزل دور ہوتی ہے۔مگر مزاحمتیں کم۔رونگ وے پر منزل قریب دکھتی ہے۔مگر مزاحمتیں بہت زیادہ۔جب میر ظفراللہ جمالی کو وزارت عظمی ملی تو ان کا میرٹ صرف اور صرف ایک ایسا بے ضرر شخص ہونا تھا۔جو اختیارات سے بے نیاز ہو۔جسے دوسروں کو کچھ دینے میں مشکل نہ ہو۔جو ایک ایسی ربڑ سٹیمپ ہو۔جسے جب چاہے۔جو چاہے۔جہاں مرضی نصب کرسکے۔میر صاحب کے دور میں مرکزیت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ایک دو نہیں۔ملک میں متعدد حکومتیں کام کررہی تھی۔کبھی صدر پرویز مشرف کا کوئی حکم نامہ ان کے اصل حکمران ہونے کا پتا دیتا۔تو کبھی چوہدری شجاعت حسین بطور حکمران جماعت کے سربراہ کے اپنا سکہ منواتے نظر آئے۔کبھی ملک میں کسی کی حکومت نظر آتی کبھی کسی کی۔ہان کبھی کبار میر صاحب کی حکومت ہونے کا شبہ پڑتا۔انہیں عموما یوم آزادی اور یوم دفاع جیسے دنوں میں اچھا خاصہ پروٹوکول دے کر قوم کو احساس دلایا جاتاکہ اس کے وزیر اعظم کا نام میر ظفر اللہ جمالی ہے۔ میر صاحب اسی پر صابر و شاکر تھے۔جب انہیں ایک دن چپ چپاتے ایوان وزیر اعظم سے بے دخلی کردیا گیا۔تو ان کی کلبلاہٹ دیکھنے لائق تھی۔انہیں اس روزروزکے جھنجھٹ سے جان چھوٹنے کی خوشی تو تھی۔مگر یہ دکھ بھی ستاتارہاکہ آخر ان سے ایسی کون سی گستاخی سرزد ہوگئی کہ ان کو خدمت سے سبکدوش کردیاگیا۔

وقت جس تیزی سے گزررہاہے ایک بار پھر حالات مقتدر حلقوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا امکان بن رہاہے۔نوازشریف کی نااہلی کے بعد ان کی خالی نشست پر الیکشن کی تاریخ قریب آچکی۔اب قریبا ڈیڑھ ہفتہ باقی ہے۔ابھی تک سارے سروے اور سارے تجزیے اس بات پر متفق ہیں کہ اس الیکشن میں کوئی اپ سیٹ نہیں ہونے جارہا۔تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان صرف اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ ہارنے او رجیتنے والے کے درمیان ووٹو ں کا تناسب کیا ہوگا۔جیت ہار کا سوال ختم ہوچکا۔اب صرف ووٹ کے کچھ بڑھنے اور کچھ گھٹنے کی بات کی جارہی ہے۔عمران خاں کی جماعت سمجھتی ہے۔کہ عدالتی فیصلے کے بعد کلثوم نوازکے لیے جنرل الیکشن جیسا کمال دکھانا ممکن نہ ہوگا۔ان کو ملنے والے ووٹوں میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔دوسری طر ف اسی عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ن کے متوالے اپنا ووٹ بینک بڑھ جانے کا دعوی کررہے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ تحریک انصاف ایک پٹھو جماعت ثابت ہوگئی ہے۔اسے انقلابی جماعت سمجھنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے۔راشدہ یاسمین کو اب اتنے ووٹ نہیں مل پائیں گے۔جتنے وہ جنرل الیکشن میں حاصل کرپائیں۔حلقہ ایک سو بیس کے الیکشن سے متعلق دیگر جماعتیں بھی کچھ ایسے ہی گمان کررہی ہیں۔تیسری بری جماعت پیپلز پارٹی ہے۔مگر اس کا امیدوار بھی ایک کمزور امیدوار ہے۔اگر پی پی یہاں کسی مضبوط امیدوار کو نامزد کرتی تو شاید حالات مختلف ہوتے۔محترمہ کلثوم نوازکے مقابلے میں پی پی نے ایک کمزور امیدوار کا انتخاب کیا۔نوازشریف کی نااہلی کے بعد ان کی جماعت کو کھڈے لائن لگانے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے یہ حالات تسلی بخش نہیں۔اگر مسلم لیگ ن یہ انتخاب جیت لیتی ہے۔تو جو تھوڑی بہت بے چینی اس جماعت کے اندر کچھ لوگوں میں پائی جارہی ہے۔وہ بھی باقی نہ رہے گی۔پھر میاں صاحب عید کے بعد ایک بار پھر عوامی رابطہ مہم شروع کررہے ہیں۔دس ستمبر کو وہ ایبٹ آبادمیں ایک جلسہ سے خطاب کریں گے۔اس کے بعد وہ جنوبی پنجاب کا دورہ کررہے ہیں۔یہ گہما گہمی مسلم لیگ ن میں ایک نئی روح پھونک سکتی ہے۔مقتدر حلقوں کی جانب سے مائنس نواز فارمولہ کامیاب ہوتانظر نہیں آرہا۔مسلم لیگ ن ہی نہیں۔اپوزیشن میں بیٹھی بڑی پارٹیاں بھی اپنی تمام تر سرگرمیاں نوازشریف کو مدنظر رکھ کر ترتیب دے رہی ہیں۔ابھی تک کسی طرف سے بھی مائنس نوازشریف ٹائپ کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔جس سے ظاہر ہوکہ اب معاملات نوازشریف کی بجائے مسلم لیگ ن کے کسی دوسرے بڑے کے ساتھ طے کیے جارہے ہیں۔

انتظار ایک لمبا انتظار عمران خان جھلائے ہوئے ہیں۔شیخ رشید بوجھل ہوچکے۔ایک بار میر ظفر اللہ جمالی کلبلائے تھے۔کہ جانے کیا گستاخی ہوئی کہ خدمت کا صلہ نہ مل سکا۔آج نوازشریف ہٹاؤ کی خدمت پر مامورپورے کا پورا قافلہ جھلاہٹ کا شکار ہے۔جانے اس خدمت کا اینڈ کب ہوگا۔جانے کب اس بات کا اعلان کیا جائے گاکہ امتحان ختم ہوا۔اب تقسیم انعامات کی تقریب منعقد کی جائے گی۔اگر حلقہ ایک سو بیس کے نتائج پہلے جیسے ہوئے۔تو نوازشریف کی نااہلی کا مزا کرکرا ہوجائے گا۔کامیابی کا جو کریڈت خاں صاحب اور ہنموا لینا چاہ رہے ہیں۔مشکل سے مشکل ہوتاچلاجارہاہے۔میاں صاحب نے اگر اپنے مجھے کیوں نکالا پروگرام کا اگلا فیز شرو ع کردیا تو یہ ایک الگ مصیبت ہوگی۔خاں صاحب کو پچھلے معاوضے پر ایک نئی مشقت سے گزرنا ہوگا۔جانے ان کی جوابی عوامی تحریک کتنے مہینے چلتی رہے۔انتظار ایک لمبا انتظار خاں صاحب جھلائے ہوئے ہیں۔ان کے ہمنوا بوجھل اور تھکے تکھے سے۔ان کی کلبلاہٹ صاف ظاہر کررہی ہے کہ رائیٹ کی بجائے رونگ وے چننے کا انہیں کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123935 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.