گریٹ گیم

جب کوئی بڑا ٹاسک متعین کرلیا جائے تو اس کے حصول کے لیے منازل طے کی جاتی ہیں۔ان منازل میں کبھی کبھی دو قدم پیچھے ہٹ جانے کی حکمت عملی بھی شامل ہوتی ہے۔بظاہر یہی لگتاہے کہ کھیل ختم ہوچکا۔مگر جلد ہی پتہ لگتا ہے کہ یہ پسپائی سوچی سمجھی تھی۔اس کا مقصد بالمقابل کو عارضی دلاسہ دینا تھا۔ جلد ہی کوئی ایسا وار کردیا جاتا کہ پسپائی کی تلافی بھی ہوجاتی اور بالمقابل بھی ہمت ہارجاتا۔بھٹو مرحوم جب تک جیل میں رہے ضیا ء الحق کی طرف سے نوے دن کے اندر الیکشن کروانے کا بیان جاری کیا جاتارہا۔فوجی آمر نے اس سلسلے میں اپنی بھولی بھالی صورت اور مذہبی لگاؤ کو بھی کسی ضامن کے طور پر استعمال کیا۔لوگ نوے دن کے اندر انتخابات کے ہونے پر مکمل یقین رکھتے تھے۔پھر ہونی وارد ہوگئی۔خوش فہمیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا۔جس نے انتخابات کے بروقت انعقاد کو ناممکن بنادیا۔ہوا یوں کہ بھٹو کو جیل سے رہا کردیا گیا۔مقصد یہی تھاکہ وہ بھی دوسری جماعتوں کی طرح آنے والے الیکشن کی تیاری کرسکیں۔یہ رہائی جنرل ضیاء کی بے جا خود اعتمادی کے سبب ممکن ہوئی۔وہ بھٹو کو ایک مکمل طور پر قابو میں شخص تصور کرنے کی غلطی کرگئے۔بھٹو مرحوم کے دھواں دھار جلسوں اور الیکشن کمپیئن نے اس غلطی کا احساس دلایا۔دوسری جانب بھٹو صاحب بھی فوجی حکمران کو ماضی کا وہی چھوٹا موٹا جنرل سمجھنے کی بھول کر گئے۔وہ اب بھی ضیاء کو اپنی جیب کی گھڑی تصور کرتے ہوئے۔اپنے انتخابی جلسوں میں للکارنے لگے۔ آمر کو وہ دھمکیاں دیں کہ اسے نوے دن کے وعدے پر نظر ثانی کاسوچنے لگا۔دونوں طرف سے ایک دوسرے کو نشان عبرت بنانے کے اس کھیل کی انتہابھٹو کی پھانسی پر ہوئی۔جب تک پھانسی کاوقت نہیں آگیا۔دونوں طرف سے کھیل کے تمام پتے استعمال کیے گئے۔بیک ڈور چینلز اور مزاکرات بھی ہوتے رہے۔اور پلان بی بھی زیر غور رہے۔۱۲ اپریل کو جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تو اس بات کا فیصلہ ہوگیاکہ اب تک کی ساری تدبیریں اور بیک ڈور چینلز محض دکھاوا تھیں۔فوجی آمر نے بالاخر اپنا مقصد پاہی لیا۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کے صرف ایک کردار کو سزا ملی ہے۔ابھی دوسرے لوگوں کا احتساب ہونا باقی ہے۔انہوں نے ستمبر کے وسط میں کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ صرف صالح اور پارسا قیادت ہی ملک کا نظام بہتر بناسکتی ہے۔جو لوگ ملک پر قابض ہیں۔و ہ بگاڑ میں اضافہ تو کرسکتے ہیں۔ان سے بہتری کی امید لگانا فضول ہے۔جماعت اسلامی چوروں کا پیچھا کرتی رہے گی۔سراج الحق صاحب اس قافلے کا ایک لازمی جزو بن چکے ہیں جو نوازشریف کے خلاف چلائی جانے والی تحریک چلارہاہے۔جماعت اسلامی کی شمولیت زیادہ پرانی نہیں۔ابھی کل تک وہ لائن کے اس پار تھی۔جب یہ قافلہ اپنی اوائل کی منازل طے کررہا تھا۔تب سراج الحق اس سے لاتعلق تھے۔دھرنا اول کے ایام میں جماعت اسلامی کا کردارکچھ اور تھا۔قریبا غیر جانبدارانہ سا۔تب شاید سراج الحق اس دھرنے کوایک حادثاتی وقوعہ تصور کررہے تھے۔انہوں نے تب مصلح اور حب الوطن ہونے کا کردار ادار کرنے کی کوشش کی۔عمران خاں اور نوازشریف کے درمیان ثالثی کا کردار ادار کرنے کاراستہ اپنایا۔ یہ پرانی بات ہے۔جب یہ گریٹ گیم پانامہ فیز میں داخل ہوئی توسراج الحق تما م معاملہ سمجھ چکے تھے۔۔ انہوں نے لائن کے اس پار جانے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے بھانپ لیا کہ دھرنا اول کوئی اتفاقیہ معاملہ نہ تھا۔یہ تو لہو گرم رکھنے کے بہانوں میں سے ایک تھا۔شکار تو کچھ اور ہے۔مقاصد تو کچھ اور ہیں۔اب جماعت اسلامی دھرنے والوں کے ساتھ ہم آواز ہے۔اور اسے بھی صرف وہی لوگ چور نظرآنے لگے جنہیں چور کہنے کا فیصلہ کرلیا گیاہے۔ستمبر کے وسط میں وہ کرپشن کے خلاف ایک تحریک چلانے جارہی ہے۔یقینا کرپشن سے مراد انہی گنے چنے لوگوں کا گھیراؤ ہوگا۔

گریٹ گیم کاانجام کیا ہوگا۔اس کا سوال پتلیاں اپنے آقاؤں سے کرتی رہیں گیں۔مگر اس کا جواب انہیں جلد نہ مل سکے گا۔جب تک نوازشریف کا وجود ہے۔یہ گریٹ گیم کسی نہ کسی صورت جاری رہے گی۔ ان کا وجود کچھ لوگوں کے لیے بالکل ناقابل برداشت ہے۔مگر مجبوری کے سبب انہیں یہ کڑوا گھونٹ بھرنا پڑرہا ہے۔دوردورتک کوئی متبادل نہ ہونے کے سبب نوازشریف کو کھڈے لائن لگانے کا یارا نہیں ہورہا۔گریٹ گیم کے انجام کا کوئی دعوی کرے بھی توکیا گرے۔

 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.