فلسطین کا مقدمہ ،عمومی اصولوں اور پالیسیوں کی دستاویز

فلسطینی کی عوام پر اسرائیل کی جانب سے ظلم وتشدد کا سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اورہزاروں میڈیا رپورٹ بھی شائع ہوئیں ۔ جس میں اسرائیل کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم وتشددکے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ کو بھی ختم کرنے کا ذکر کیا جارہاہے اور اب بھی یہ سلسلے جاری ہے ۔اس حوالے سے چند روز قبل فلسطین کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونیوالی رپورٹ کا جس عنوان ’’عمومی اصولوں اور پالیسیوں کی دستاویز‘‘ ہے۔اس رپورٹ میں فلسطین کا مقدمہ مسلم دنیا کے سامنے رکھا گیا ہے ۔ فلسطین کا مقدمہ کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ فلسطین عرب فلسطینی عوام کی سرزمین ہے ۔ انھوں نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے ، وہ اسی سے تعلق رکھتے اور اسی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انھیں اس سے متعلق ابلاغ کا حق حاصل ہے ۔سرزمین فلسطین کو اسلام نے وقار عطا کیا تھا اور اس کا درجہ بلند کر دیا تھا۔ اسلام کی روح اور اقدار اس میں رچی بسی ہیں اور وہی اس کے دفاع اور تحفظ کے نظریے کی اساس مہیا کرتا ہے ۔فلسطین ان لوگوں کا نصب العین (کاز) ہے جنھیں دنیا نے بے یارو مدگارچھوڑ دیا ہے ۔ دنیا انھیں ان کے حقوق دلانے اور ان سے جو کچھ چھین لیا گیا تھا،اس کو لوٹانے میں بری طرح ناکام رہی ہے ۔فلسطینی عوام اپنی سرزمین پر دنیا کے بدترین قبضے کی شکل سے جنم لینے والے مسائل ومصائب کو جھیل رہے ہیں۔
فلسطین ایک ایسی سرزمین ہے جس پرایک نسل پرست ،انسانیت دشمن اور کالونیل صہیونی منصوبے نے غاصبانہ قبضہ کر لیا تھا ۔اس کی بنیاد ایک جھوٹے وعدے ( اعلان بالفور) پر طاقت اور جبرو استبداد پر رکھی گئی تھی۔
فلسطین مزاحمت کی علامت ہے اور اس کوآزادی کی تکمیل تک جاری رکھا جائے گا۔ جب تک ( فلسطینی مہاجرین کی ) واپسی کا مقصد حاصل نہیں کر لیا جاتا ، دارالحکومت بیت المقدس کے ساتھ ایک مکمل طور پر خود مختار ریاست قائم نہیں کر لی جاتی،اس وقت تک یہ مزاحمت جاری رہے گی۔
فلسطین کسی بھی گروہ ،جماعت یا تنظیم سے وابستہ فلسطینیوں کے درمیان ایک سچی شراکت داری ہے اور ان سب کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد ہے اوروہ آزادی کا حصول ہے ۔ فلسطین اْمہ کی روح اور اس کا مرکزی نصب العین ہے ۔ یہ انسانیت کی روح ہے اور اس کا جیتا جاگتا ضمیر ہے ۔
یہ دستاویز گہرے غور و خوض کے بعد مرتب کی گئی ہے اور اس پر ایک بھرپور اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ ایک تحریک کے طور پر ہم نے سطورِ زیریں میں پیش کیے گئے ویڑن کے نظریے اور عمل سے اتفاق کیا ہے ۔ یہ ویڑن ٹھوس بنیادوں اور مضبوط اصولوں پر استوار ہے ۔ یہ دستاویز ان مقاصد اور اہداف کو سامنے لاتی ہے جن کے ذریعے قومی اتحاد کا نفاذ کیا جا سکتا ہے ۔اس سے ہماری فلسطینی نصب العین کے بارے میں عمومی تفہیم ،بروئے کار لائے جانے والے کام کے اصول اور اس کی تشریح کے لیے لچک کی تحدیدات اجاگر ہوتی ہیں۔
تحریک
1۔ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) فلسطین کی قومی اسلامی آزادی اور مزاحمتی تحریک ہے ۔ اس کا مقصد فلسطین کو آزاد کرانا اور صہیونی منصوبے کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اس کی پہچان اسلام ہے ،اسی سے اس کے اصول ،مقاصد اور ذرائع اخذ کیے جاتے ہیں۔
فلسطین کی سرزمین
2 ۔ فلسطین کی سرزمین مشرق میں دریائے اردن سے مغرب میں بحر متوسط اور شمال میں راس الناقورہ سے جنوب میں ام الرشراش تک ہے ۔ یہ ایک باہم مربوط علاقائی یونٹ ہے ۔ یہ فلسطینی عوام کی سرزمین اور ان کا گھر ہے ۔
فلسطینی عوام کی اپنی ہی آبائی سرزمین سے جبری بے دخلی اور وہاں ایک صہیونی علاقے کا قیام،فلسطینیوں کے اپنی تمام سرزمین پر حق کو کالعدم نہیں کر دیتا ہے اور نہ اس طرح صہیونیوں کو اس پر غاصبانہ قبضہ جمانے کا حق حاصل ہو جاتا ہے ۔
3۔ فلسطین ایک عرب اسلامی سرزمین ہے ۔ یہ ایک مقدس سرزمین ہے اور اس کی ہر عرب اور مسلمان کے دل میں خصوصی جگہ ہے ۔
فلسطینی عوام
4 ۔ فلسطینی وہ عرب ہیں جو 1947ء تک فلسطین میں مقیم رہے تھے ۔ ہر وہ شخص فلسطینی ہے جس کو اس سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا یا وہ یہیں مقیم رہا تھا۔اس تاریخ کے بعد جو کوئی بھی فلسطینی عرب باپ کے ہاں پیدا ہوا، وہ فلسطینی ہے ۔ خواہ اس وقت وہ فلسطین کے اندر یا اس سے باہر رہ رہا ہے ۔
5۔ فلسطینی شناخت مصدقہ ہے اور وقت کی قید سے پاک ہے ۔ یہ نسلاً بعد نسل منتقل ہوئی ہے ۔ صہیونی قبضے اور اس کی بے دخلی کی پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینی عوام جن المیوں سے دوچار ہوئے ہیں، ان سے فلسطینیوں کی شناخت مٹ سکتی ہے اور نہ اس سے انکار کیاجا سکتا ہے ۔ ایک فلسطینی کو کسی دوسری قومیت کے حصول کے بعد اپنی قومی شناخت یا حقوق سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہیے ۔
6۔ فلسطینی عوام اپنے مذہب،ثقافت یاسیاسی وابستگی سے قطع نظر تمام فلسطینیوں ،فلسطین کے اندرون اور بیرون رہنے والے لوگوں پر مشتمل ایک اکائی ہیں۔
اسلام اور فلسطین
7 ۔ فلسطین عرب اورا سلامی اْمہ کے قلب میں واقع ہے اور اس کو خصوصی درجہ حاصل ہے ۔ فلسطین میں بیت المقدس ( یروشیلم ) آباد ہے ۔ اس کو اﷲ تعالیٰ نے خصوصی متبرک مقام عطا کر رکھا ہے ۔فلسطین ایک مقدس سرزمین ہے ۔اﷲ نے اس کو انسانیت کی نعمت سے نوازا ہے ۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام معراج ہے ۔ یہیں سے آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا تھا۔یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے ۔ یہاں ہزاروں انبیاء علیہم السلام ،صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اور مجاہدین آسودہ خاک ہیں۔ یہ ان لوگوں کی سرزمین ہے جنھوں نے بیت المقدس اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے دفاع اور تحفظ کا عزم کر رکھا ہے ۔ان کے اس عزم کو متزلزل نہیں کیا جا سکااور نہ کیا جا سکتا ہے ۔ان کے کٹڑ مخالفین بھی انھیں ڈرا دھمکا نہیں سکے ہیں۔ وہ اس وقت تک اپنے مشن کو جاری رکھیں گے جب تک اﷲ کا موعودہ وعدہ پورا نہیں ہو جاتا۔
8۔ اسلام اپنے متوازن صراط مستقیم اور جدت پسندانہ روح کی بدولت حماس کے لیے ایک جامع طرز ِحیات مہیا کرتا ہے اور یہ تمام ادوار اور ہر طرح کی جگہوں اور ہر طرح کے مقاصد کیلئے ایک بہترین لائحہ عمل ہے ۔ اسلام امن اور رواداری کا دین ہے ۔ یہ دوسرے مذاہب اور عقیدوں کے پیروکاروں کیلئے ایک چھتری مہیا کرتا ہے ۔ اس کے تحت وہ مکمل سلامتی اور تحفظ کے ساتھ اپنے عقائدپر عمل پیرا ہو سکتے ہیں۔ حماس اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ فلسطین بقائے باہمی ،رواداری اور تہذیبی جدت کا ہمیشہ سے نمونہ رہا ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔
9۔ حماس یہ یقین رکھتی ہے کہ اسلام کا آفاقی پیغام سچ ،انصاف ،آزادی اور وقار کی اقدارکا پاسدار ہے ۔ وہ ناانصافی کی تمام شکلوں کی ممانعت کرتا ہے ۔ وہ جابروں اور ظالموں کو مجرم ٹھہراتا ہے ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب ،نسل ،صنف یا قومیت سے ہو۔ اسلام مذہبی ،نسلی یا فرقہ وار انتہا پسندی اور تعصب کی تمام شکلوں کے خلاف ہے ۔ یہ دین اپنے پیروکاروں کوجارحیت کے مقابلے اور مقہوروں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہونے کی تعلیم دیتا ہے ۔ یہ اپنے پیروکاروں کو اپنی شناخت ، اپنی سرزمین ،اپنے لوگوں اور مقدس مقامات کے دفاع کے لیے قربانیاں دینے کا درس دیتا ہے ۔
القدس
10 ۔ القدس فلسطین کا دارالحکومت ہے ۔ اس کا مذہبی ، تاریخی اور تہذیبی مقام عربوں ،مسلمانوں اور پوری دنیا کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔اس کے اسلامی اور مسیحی مقدس مقامات فلسطینی عوام ،عرب اور اسلامی اْمہ کا خاص ورثہ ہیں۔ القدس کی ایک اینٹ سے بھی دستبردار ہوا جا سکتا ہے اور نہ اس کو چھوڑاجا سکتا ہے ۔القدس میں قابضین کی جانب سے شہر کو یہودیانے ، برسرزمین اس کی ہئیت کو تبدیل کرنے اور آباد کاروں کیلئے تعمیرات ایسے اقدامات کی بنیادی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ کالعدم ہے ۔
11۔ متبرک ومحترم مسجد الاقصیٰ پر خاص ہمارے عوام اور اْمہ کا حق ہے اور (صہیونی) قبضے کو اس پر کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ قبضے کی الاقصیٰ کو یہودیانے اور اس کو تقسیم کرنے کے لیے تمام سازشیں اور اقدامات غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔
مہاجرین اور واپسی کا حق
12۔ فلسطینی نصب العین اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک مقبوضہ سرزمین اور بے گھر کیے گئے لوگوں کا نصب العین ہے ۔ فلسطینی مہاجرین اور بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی ان کے گھروں کو واپسی ان کاانفرادی ، اجتماعی اور فطری حق ہے ۔ خواہ انھیں 1948ء میں فلسطینی سرزمین پر قبضے کے وقت بے دخل کیا گیا تھا یا 1967ء میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے نکالا گیا تھا۔ اس حق کی تمام مقدس قوانین کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں بھی تصدیق کی گئی ہے ۔ یہ ایک ناقابل تردید حق ہے اور اس سے فلسطینیوں ،عربوں یا عالمی برادری میں سے کوئی بھی فریق دستبردار نہیں ہو سکتا ہے ۔
13۔ حماس مہاجرین کی واپسی کے حق کوختم کرنے ، انھیں فلسطین سے باہر بسانے یا متبادل سرزمین پر بسانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتی ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیے جانے اور سرزمین پر قبضے کے نتیجے میں جن مصائب ومشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے ،اس کے ازالے کے طور پر انھیں معاوضے کی ادائی ان کاجائز حق ہے ۔یہ ان کی واپسی کے ساتھ انھیں ادا کیا جانا چاہیے ۔یہ معاوضہ انھیں ان کی واپسی پر ملے گا ،اس سے ان کی واپسی کے حق سے انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔
صہیونی منصوبہ
14۔ صہیونی منصوبہ نسلی ،جارحانہ ،نو آبادیاتی اور توسیع پسندانہ ہے ۔ یہ دوسروں کی املاک پر قبضے پر مبنی ہے ۔یہ فلسطینی عوام کیخلاف اور ان کی آزادی ،واپسی اور حق خود ارادی کے لیے امنگوں کے منافی ہے ۔ اسرائیلی ریاست صہیونی منصوبے کی آلہ کاراور اس کی جارحیت کی بنیاد ہے ۔
15 ۔ صہیونی منصوبہ صرف فلسطینی عوام ہی کو ہدف نہیں بناتا ہے بلکہ یہ عرب اور اسلامی اْمہ کا دشمن خاص ہے اور اس کی سلامتی اور مفادات کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے ۔یہ اْمہ کی اتحاد ،نشا ثانیہ اور آزادی کیلئے امنگوں کا بھی شد ومد سے مخالف ومعاند ہے اور اس کو درپیش مسائل کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ صہیونی منصوبہ عالمی سلامتی اور امن کے علاوہ بنی نوع انسان اور اس کے مفادات اور استحکام کیلئے بھی ایک خطرہ ہے ۔
16۔ حماس اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ اس کا تنازع صہیونی منصوبے سے ہے اور یہود سے ان کے مذہب کی بنیاد پر ہرگز بھی کوئی تنازع نہیں ہے ۔حماس یہودکیخلاف محض اس وجہ سے کوئی جدوجہد نہیں کر رہی ہے کہ وہ یہودی ہیں بلکہ وہ ان صہیونیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے جنھوں نے ارض فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ یہ صہیونیت ہی ہے جو مستقلاً یہودیت اور یہود کی شناخت کو اپنے نوآبادی منصوبے اور غیر قانونی ریاست سے جوڑ رہی ہے ۔
17۔ حماس کسی بھی انسان کے ساتھ قومیت ،مذہب یا فرقے کی بنیاد پر معاندانہ سلوک یا اس کے حقوق کو نقصان پہنچانے کے عمل کو مسترد کرتی ہے ۔ حماس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہودی مسئلہ ، یہود مخالف جذبات انگیزی اور یہود سے ناروا سلوک کی مظہریت کا تعلق بنیادی طور پر یورپ کی تاریخ سے ہے اور اس کا عربوں یا مسلمانوں کی تاریخ یا ان کے ورثے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ صہیونی تحریک ، جو مغربی طاقتوں کی مدد سے فلسطین پر قبضے میں کامیاب رہی تھی، نوآبادیاتی قبضے کی سب سے خطرناک شکل ہے ۔ یہ پہلے ہی دنیا سے نابود ہو چکی ہے اور فلسطین سے بھی اس کو ختم کیا جانا چاہیے ۔
قبضے اور سیاسی حل سے متعلق مؤقف
18۔ حماس درج ذیل اقدامات کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیتی ہے، اعلان بالفور ،برطانوی انتداب (مینڈیٹ) کی دستاویز، اقوام متحدہ کی فلسطین کو تقسیم کرنے کی قرارداد اور ان سب پر مبنی جو بھی قراردادیں اور اقدامات کیے گئے ہیں۔ ‘‘اسرائیل’’ کا قیام مکمل طور پر غیر قانونی اور فلسطینی عوام کے حقوق سے متصادم ہے ۔ یہ ان کے علاوہ اْمہ کی منشا ء کے بھی منافی ہے ۔ عالمی کنونشنوں میں جن انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ، یہ ان کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ان سب میں اہم حق خود ارادیت کا حق ہے ۔
19۔ صہیونی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ فلسطینی سرزمین کے ساتھ قبضے ، یہودی آبادکاروں کیلئے تعمیرات ،اس کو یہودیانے یا اس کی ہیئت میں تبدیلیوں یا حقائق کو مسخ کرنے سمیت جو کچھ بھی کیا گیا ہے ، وہ سب غیر قانونی ہے ۔حقوق کبھی ختم نہیں ہوتے ہیں۔
20۔ حماس اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ فلسطینی سرزمین کے کسی حصے پرکسی بھی سبب ، حالات اور دباؤکی بنا پرکوئی سمجھوتا کیا جائے گا او ر نہ اس کو قبول کیا جائے گا۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قبضہ کتنی زیادہ دیر تک برقرار رہتا ہے ۔حماس دریا سے سمندر تک فلسطین کی مکمل آزادی کے سوا کسی بھی متبادل حل کو مسترد کرتی ہے ۔تاہم صہیونی ریاست کے استرداداور فلسطینیوں کے کسی حق سے دستبردار ہوئے بغیر 4 جون 1967ء کی حدود کے اندر حماس ایک مکمل خود مختار اور آزادفلسطینی ریاست کے قیام پر غور کرے گی ۔ القدس اس کا دارالحکومت ہو گا ۔ وہ مہاجرین اور اپنے گھروں سے بے دخل کیے گئے فلسطینیوں کی قومی اتفاق رائے کے فارمولے کے مطابق واپسی کی حمایت کرتی ہے ۔
21 ۔ حماس اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ اوسلو معاہدہ اور اس کے ضمنی سمجھوتے بین الاقوامی قانون سے متصادم ہیں کیونکہ ان کی بنیاد پر ایسے وعدے وعید کیے گئے ہیں جو فلسطینی عوام کے حقوق سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ اس لیے تحریک ان تمام معاہدوں اور ان کے بطن سے برآمد ہونے والے تمام سمجھوتوں کو مسترد کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایسی ذمے داریاں جو ہمارے عوام کے مفادات کے منافی اوران کیلئے ضرررساں ہیں۔بالخصوص سکیورٹی کے شعبے میں روابط و تعاون کو وہ مسترد کرتی ہے ۔
22۔ حماس ان تمام سمجھوتوں ، اقدامات اور معاملہ کاری کے منصوبوں کوبھی مسترد کرتی ہے ،جن کا مقصد فلسطینی نصب العین اور ہمارے فلسطینی عوام کے حقوق کو نقصان پہنچانا ہے ۔ اس ضمن میں کوئی بھی موقف ،اقدام یا سیاسی پروگرام ان حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے ۔ وہ ان حقوق سے متصادم یا منافی بھی نہیں ہونا چاہیے ۔
23۔ حماس اس بات پر زور دیتی ہے کہ فلسطینی عوام سے انسانیت سوز سلوک ،ان کی زمین پر غاصبانہ قبضہ اور ان کی مادرگیتی سے بے دخلی امن نہیں کہلا سکتی۔ اس کی بنیاد پرتنازع کے کسی بھی حل سے امن کی راہ ہموار نہیں ہو گی۔ فلسطین کی آزادی کے لیے مزاحمت اور جہاد بدستور ایک جائز اور قانونی حق رہے گا ۔ یہ ہمارے عوام اور ہماری اْمہ کے تمام بیٹوں اور بیٹیوں پر ایک فرض اور ان کے لیے ایک اعزاز ہے ۔
مزاحمت اور آزادی
24۔ فلسطین کو آزاد کرانافلسطینی عوام کی بالخصوص اور عرب اور اسلامی اْمہ کی بالعموم ایک ذمے داری ہے ۔ یہ سچ اور انصاف کے اصولوں کے تحت ایک انسانی ذمے داری بھی ہے ۔ فلسطین کے لیے کام کرنے والی ایجنسیاں ،خواہ وہ قومی ،عرب ،اسلامی یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کررہی ہوں،انھیں مکمل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا چاہیے اورکسی باہمی تنازعے کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔
25۔ تمام ذرائع اور طریق ہائے کارکے ذریعے قبضے کی مزاحمت الہامی قوانین اور بین الاقوامی قانون واقدارکے تحت ایک جائز حق ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق اور اصولوں کے تحفظ کیلئے مسلح مزاحمت ہی ایک تزویراتی انتخاب رہ جاتی ہے ۔
26 ۔ حماس مزاحمت اور اس کے ہتھیاروں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتی ہے ۔ وہ اپنے عوام کے مزاحمت کے میکانزم اور ذرائع کو ترقی دینے کے حق کی حمایت کا اعادہ کرتی ہے ۔ کشیدگی میں اضافے یا کمی یا ذرائع اور طریق کار کو متنوع بنانے کے عمل سے مزاحمت کا انتظام تنازع کو سنبھالنے کے عمل کا ایک لازمی حصہ ہے مگر یہ انتظام مزاحمت کے اصولوں کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے ۔
فلسطین کا سیاسی نظام
27۔فلسطین کی حقیقی ریاست وہ ہے جس کو آزادکرا لیا گیا ہے ۔ فلسطین کی تمام قومی سرزمین پر دارالحکومت القدس کے ساتھ ایک مکمل خود مختارفلسطینی ریاست کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔
28۔ حماس اپنے فلسطینی تعلقات کو اثبات پسندی ، جمہوریت ، قومی شراکت داری ،دوسروں کو قبول کرنے اور مذاکرات پر استوار کرنے میں یقین رکھتی ہے اور اسی اصول کی پاسداری کر رہی ہے ۔ اس کا مقصدفلسطینی عوام کی صفوں میں اتحاد کو فروغ دینا اور قومی مقاصد کے حصول اور ان کی امنگوں کی تکمیل کے لیے مشترکہ اقدام ہے ۔
29۔ تنظیم آزادی فلسطین( پی ایل او ) فلسطین کے اندر اور باہر فلسطینی عوام کے لیے ایک قومی فریم ورک ہے ۔اس لیے اس کو برقرار رکھا جانا چاہیے ، اس کو جمہوری بنیادوں پر از سرنو استوار کیا جائے تاکہ اس میں فلسطینی عوام کی تمام جماعتوں ،تنظیموں اور دھڑوں کی اس انداز میں شمولیت ہو سکے کہ وہ فلسطینی حقوق کا تحفظ کرسکیں۔
30۔ حماس جمہوری اصولوں پر مبنی فلسطین کے قومی اداروں کی تعمیر کی ضرورت پر زوردیتی ہے ۔ اس میں سب سے نمایاں اور اہم آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ۔ ایسا عمل قومی شراکت داری پر مبنی اور ایک واضح پروگرام اور حکمت عملی پر مبنی ہونا چاہیے ۔اس میں مزاحمت کے حق سمیت تمام حقوق کی مکمل پاسداری ہونی چاہیے اوریہ فلسطینی عوام کی تمام امنگوں کو بھی پورا کرے ۔
31۔ حماس اس بات کا اعادہ کرتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا کردار فلسطینی عوام کی خدمت ، ان کی سلامتی ، حقوق اور قومی منصوبے کے تحفظ کے لیے ہونا چاہیے ۔
32۔ حماس فلسطین کی قومی فیصلہ سازی کی آزادی کو برقرار رکھنے پر زور دیتی ہے ۔ بیرونی قوتوں کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ حماس فلسطین کی صہیونی قبضے سے آزادی کی جدوجہد میں عرب اور مسلمانوں کی ذمے داری اور کردار پر بھی زور دیتی ہے ۔
33۔ فلسطینی معاشرہ اپنی معروف شخصیات ،زعماء،سول سوسائٹی کے اداروں ، نوجوانوں ، طلبہ ، ٹریڈ یونینسٹوں اور خواتین کے گروپوں سے بھرا پڑا ہے ۔ وہ تمام قومی مقاصد ،معاشرتی تعمیر وترقی، مزاحمت اور آزادی کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں۔
34 ۔ فلسطینی خواتین کاحال اور مستقبل کی تعمیر میں کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ فلسطینی تاریخ سازی کے عمل میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے ۔ ان کا مزاحمت ، آزادی اور سیاسی نظام کی تعمیر میں بھی بنیادی کردار ہے ۔
عرب اور اسلامی اْمہ
35۔ حماس اس بات میں یقین رکھتی ہے کہ فلسطینی ایشو عرب اور اسلامی اْمہ کا مرکزی نصب العین ہے ۔
36۔ حماس امت کے تمام تر متنوع عناصر کے باوجود اس کے اتحاد میں یقین رکھتی ہے ۔ وہ امت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے یا کسی قسم کے انتشار کا سبب بننے والے کسی بھی اقدام سے گریز کی ضرورت سے آگاہ ہے ۔
37۔ حماس ان تمام ریاستوں سے تعاون میں یقین رکھتی ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کرتی ہیں۔ وہ کسی بھی ملک کے داخلی امور میں مداخلت کی مخالفت کرتی ہے ۔ وہ مختلف ممالک میں برپا ہونے والے تنازعات میں خود کوالجھانے سے گریزپا ہے ۔ حماس دنیا کی مختلف ریاستوں بالخصوص عرب اور اسلامی ریاستوں سے راہ و رسم بڑھانے کی پالیسی اختیار کرتی ہے ۔ وہ ایک جانب فلسطینی نصب العین اور فلسطینی عوام کی احتیاجات اور دوسری جانب اْمہ کے مفادات ، مزاحمت اور سلامتی کی ضروریات کی اساس پر متوازن تعلقات کے قیام کی حامی ہے ۔
انسانی اور بین الاقوامی پہلو
38۔ فلسطینی ایشو کی بڑی انسانی اور بین الاقوامی جہتیں ہیں۔اس نصب العین کی حمایت اور پشتیبانی انسانی اور تہذیبی فریضہ ہے مگر اس کے لیے سچائی ، انصاف اور عمومی انسانی اقدار ایسی پیشگی شرائط درکار ہیں۔
39۔ قانونی اور انسانی نقطہ نظر سے فلسطین کی آزادی ایک جائز سرگرمی ہے ۔یہ اپنے دفاع کا عمل ہے اور یہ تمام لوگوں کے حق خور ارادیت کے فطری حق کا عملی اظہار ہے ۔
40۔ حماس دنیا کی اقوام اور لوگوں کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں تعاون ،انصاف ،آزادی اور لوگوں کی منشا ء کے احترام کی اقدارمیں یقین رکھتی ہے ۔
41۔ حماس فلسطینی عوام کے حقو ق کی حمایت کرنے والی ریاستوں ، تنظیموں اور اداروں کے مؤقف کا خیرمقدم کرتی ہے ۔ وہ فلسطینی نصب العین کی حمایت کرنے والے دنیا کے آزاد لوگوں کوسلام پیش کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ کسی بھی فریق کی جانب سے صہیونی ریاست کی حمایت یا اس کے جرائم اور فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کی پردہ پوشی کی کوششوں کی مذمت کرتی ہے اور وہ صہیونیت کے جنگی مجرموں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتی ہے ۔
42۔ حماس عرب اور اسلامی اْمہ پر بالادستی مسلط کرنے کی کوششوں کو بالکل اسی طرح مسترد کرتی ہے جس طرح وہ باقی دنیا کی اقوام اور عوام پرجبر و استبداد مسلط کرنے کی کوششوں کو مسترد کرتی ہے ۔ حماس دنیا میں کالونیل ازم ، قبضے ، امتیاز ، جبرواستبداد اور جارحیت کی تمام شکلوں کی مذمت کرتی ہے ۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201231 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.