وطن عزیزکاسیاسی ماحول آج کل انتہائی گرم ہے اور سیاسی
جماعتیں2018ء کے انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہیں ۔نئے سیاسی ماحول کے بدلتے
ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور عہدیداران نے بھی کمر کس لی ہے اور اب ایک
دوسرے پر الزامات کی جو بچھاڑ شروع ہونے والی ہے اسکی مثال شاید ماضی میں
پہلے کبھی ملی ہو گی۔ ہر بدلتے وقت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا طرز سیاست بھی
بدلتا جا رہا ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اب الزامات کی بجائے مثبت
تنقید کو اپنا شعار بنانا ہوگا کیونکہ غیر مہذب تنقید اوپر سے جب نیچے آتی
ہے تو پھر یہ تنقید لڑائی جھگڑوں کو جنم دیتی ہے اور یوں کئی گھروں کے چراغ
گل کر دیتی ہے ۔2018کے انتخابات سے قبل تمام سیاسی جماعتوں کو چاہئے کے
مہذب انداز اپنائیں اور نوجوانوں کے مستقبل سے اپنی سیاست کیلئے مت کھیلیں
اور انکے جذبات سے مت کھیلیں کیونکہ نوجوانوں کو غیر مہذب بنانا اور سیاسی
جماعتوں کے درمیان انتخابات کی جیت کیلئے ہر قسم کے حربوں کے ساتھ ساتھ
نوجوانوں کو اتنا جذباتی کرنا کہ وہ لڑائی جھگڑوں پر اتر آئیں یقینا
انتہائی غلط انداز سیاست ہے اسلئے وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں سے بندھے
ہاتھ التماس ہے کہ اپنا طرز سیاست تبدیل کریں اور اپنی سیاسی جماعتوں میں
حقیقی جمہوریت لائیں تاکہ کسی کی ناحق زندگی نہ چھیننے پائے ۔
قارئین……!!کسی بھی سیاسی جماعت کا قائد دراصل اس سیاسی جماعت کے پہلے صفحے
کا ٹائٹل ہوتا ہے یقینا وہی کتاب مارکیٹ میں زیادہ پذیرائی حاصل کرتی ہے جس
کا ٹائٹل اچھا ہو ٹائٹل کے الفاظ کا چناؤ اچھا ہو وگرنہ تو روزسینکڑوں
کتابیں مارکیٹ میں آتی ہیں شائع ہوتی ہیں مگر ان میں سے چند کتابیں ہی
مقبولیت حاصل کر پاتی ہیں اب ان کتابوں کی بھی دو اقسام ہیں کچھ کتابیں
اپنی اچھی اخلاقی صفات کے باعث مقبولیت حاصل کرتی ہیں اور کچھ کتابیں اپنی
بری اخلاقی صفات کے باعث مقبول ہوتی ہیں ۔
آپ سب میر ی اس بات پر بھی اتفاق کریں گے کہ اگر انتہائی اچھی اخلاقی صفات
پر مبنی کتاب نے پزیرائی حاصل کی ہو گی تو اس کا حلقہ احباب بھی ویسا ہی
ہوگا کیونکہ اسے وہی لوگ پسند کریں گے جو اچھی تہذیب کے قائل ہونگے یا اچھی
اخلاقی صفات کو پسند کرتے ہونگے یہی وجہ ہے کہ مذکورہ کتاب نے پذیرائی حاصل
کی ۔
اسی طرح دوسری جانب وہ کتاب جس کا ٹائٹل برائی کو جنم دیتا ہے اور جسکا
ٹائٹل بد اخلاقی کی روداد سنا رہا ہے اسے پسند کرنے والے بھی ویسے ہی کلچر
کے خواہاں ہونگے کیونکہ ایسی کتاب جس کا ٹائٹل اچھی اخلاقی صفات کی روداد
نہیں سنا رہا وہ عنوان سے ہی بتا رہا ہے کہ یہ کتاب ایسے قارئین کیلئے ہے
جو بد اخلاقی سیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب مقبول تو ہوئی مگر
ایسے قارئین میں جو بد اخلاق ہیں اور بد اخلاقی کو پسند کرتے ہیں ۔
قارئین……!! آج کا سیاسی کلچر دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا کلچر
جنم لے رہا ہے جس کلچر میں سوائے بد تمیزی اور بد تہذیبی کے سوا کچھ نظر
نہیں آتا آج کے سیاسی کلچر میں سب لیڈر ہیں اور عوام کوئی نہیں اگر آپ
باریک بینی کے بغیر ہی دیکھیں توگزشتہ چند سالوں کے دوران بد تمیز ی اور بد
تہذیبی انتہائی تیزی کے ساتھ آج تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور یقینا تاریخ کے
اوراق پر لکھی گئی تحریر کو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا اگر مٹایا جا سکتا تو
آج ہٹلر ،سکندر،دارا،نمرود سمیت کئی کو تاریخ سے مٹا دیا گیا ہوتا مگر یہ
انتہائی برے لوگ ہونے کے باوجود صدیوں بعد بھی تاریخ کے آئینے پر موجود ہیں
اور انکی تاریخ کو کوئی نہیں مٹا سکا۔
قارئین……!! تاریخ اس گھڑی کی طرح ہے جس کی سوئی کو کبھی آپ ریورس نہیں کر
سکتے اسلئے ضروری ہے کہ جب بھی کوئی فعل سر انجام دیں تو یہ یاد رکھیں کہ
یہ تاریخ کا حصہ بن کر رہے گا چاہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں اگر آپ اچھا فعل
سر انجام دیں گے تو تاریخ میں آپ کا نام اچھائی کرنیوالا اور اگر برا فعل
سر انجام دیں گے تو تاریخ آپ کو برا کہہ کر پکارے گی ۔
موجودہ سیاسی اقدار نے الفاظ کی ترتیب کو ایسا بدلا ہے کہ اب ہر گلی کوچے
میں الفاظ کی ترتیب ہی الٹ کر رہ گئی ہے ۔اب بڑھے چھوٹے اور چھوٹے بڑے لگنے
لگے ہیں ۔جو پہلے’’ جی‘‘ کہتے تھے اب ’’ہاں ‘‘کہتے ہیں ،جو پہلے ’’آپ‘‘
کہتے تھے اب ’’تو‘‘ تک پہنچ گئے جو پہلے ’’اُن‘‘کہتے تھے اب ’’وہ‘‘کے القاب
لگاتے نظر آتے ہیں یہ تو صرف ابتدائیہ الفاظ کی روداد سنا ئی ہے لیکن حقیقت
میں تو بات بہت آگے تک جا چکی ہے ۔قائد تو ایک ماڈل ہوتا ہے اُسے چاہئے کہ
وہ ایسی تاریخ بنائے کہ صدیوں تک لوگ اس کی تقلید کریں نہکہ ایسے افعال سر
انجام دے کہ اپنے آباؤ اجداد کی رقم کی گئی سنہری تاریخ اور سنہرے تہذیب و
تمدن کا گلا گھونٹ کرتاریخ کے اوراق کو سیاہ کرکے رکھ دے ۔
قارئین……!!اگر یہی نیا سیاسی کلچراس معاشرے میں سرائیت کرگیا تو پھروہ وقت
دور نہیں کہ لوگ ہماری اخلاقی روایات سے نفرت انگیزرویہ روا رکھیں گے اور
اس نئے سیاسی کلچر کو پروان چڑھانے والے آئندہ چند سالوں میں اسکی زد میں
آئیں گے اور پھر بہت مشکل ہو گا کہ وہ اس سے پیچھا چھڑا سکیں اور انہیں پھر
اپنے ان افعال پر افسوس ہی ہوگا وقت تو گزر چکا ہے وہ گزشتہ تاریخ کو بدل
تو نہیں سکتے مگر آئندہ کی اپنی تاریخ کو بہتر بنا سکتے ہیں اگر وہ چاہیں ۔
اس نئے سیاسی کلچر نے بچوں کے ہاتھوں سے قلم اور کتاب دور کر کے انہیں بد
تہذیب سیاست میں جھونک دیا ہے اور یقینا یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے آج کے
نوجوان کو چاہئے کہ وہ اپنی تعلیم کو مکمل کرنے پر توجہ دے یقینا علم کے
حصول کے بغیر کبھی ترقی اور فہم و تدبر ممکن نہیں اگر آپ ذہین فطین ہیں تو
بھی آپ کو حصول علم کی ضرورت ہے کیونکہ رنگ چاہے جتنے مرضی اچھے ہوں ایک
اچھا مصور ہی اچھی تصویر بنا سکتا ہے صرف کلر نہیں ہنر کا ہونا بھی ضروری
ہے اگر آپ اچھے آئیڈیازرکھتے ہیں تو اچھا مصور ہونے کیلئے آپ کو ہنرمندی کی
ضرورت ہے محض آئیڈیاز کی بنیاد پر آپ اچھی تصویر نگاری نہیں کر سکتے ۔
آج کے والدین کو بھی اپنے بچوں کی کردار سازی پر توجہ دینا چاہئے وگرنہ نیا
سیاسی کلچر انہیں لے ڈوبے گا اور انکی شب و روزکی محنت رائیگاں چلی جائے
گی۔اس امید پر اس تحریرکواختتام پزیر کرتا ہوں کہ شاید میری اس کاوش سے اس
تہذیبی تبدیلی میں کوئی بہتری آئے اورہم ’’باادب با مراد‘‘ ہو جائیں۔
میں نے دیکھا ہے بے پردگی میں الجھ کر ہم نے
اکثر اپنے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیئے
نئی تہذیب کی بے رخ بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیئے |