آج کل اخبارات کی سرخیاں ہوں ،ادارتی صفحہ ہو یا پھر کوئی
خصوصی ایڈیشن ہوہر صفحہ پر اس وقت سب سے زیادہ جو عنوان نظر آتا ہے وہ
روہنگیاں کے مسلمانوں کے خون آلود جسموں کی روداد،معصوم بچوں کی خون میں
لپٹی نعشیں ،بے گناہ خواتین کے جسد خاکی ،لاغر اور ناتواں جسم رکھنے والے
عمر رسیدہ مسلمانوں کے بے گوروکفن لاشے غرضیکہ بربریت کی انتہا تو یہاں تک
پہنچ گئی کہ اب ان لاشوں کے ساتھ ہونیوالی بے حرمتی کی تصاویر بھی ان گنت
تعداد میں سوشل میڈیا اور دیگرمیڈیا پر موجود ہیں نہ صرف تصاویر بلکہ ویڈیو
کلپس جو ہر بنی نوع انسان کے دل کو دہلا کر رکھ دیں ۔قیامت خیز مناظر دیکھ
کر الفاظ ہی نہیں کہ جن کے سہارے کوئی گفتگو کوئی اظہار افسوس یا اس
بربریتکی مذمت کی جائے ۔
قارئین……!! ماضی میں سنا کرتے تھے کہ مؤرخ نے لکھا ہے کہ ایک ایسا وقت بھی
گزرا ہے جب اس کرہ ارض پر بہت جابر حکمران وجود پذیر رہے ہیں اور انکی
بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی تاریخ کا تقابل آج تک کسی اور سے نہیں کیا
جا سکاتاریخ کے اوراق پر اپنے برے نقوش چھوڑنے والے یہ افراد آج بھی کبھی
چنگیز خان تو کبھی ہلاکوں خان تو کبھی دارا اور کبھی سکند اور کبھی نمرود
اور کبھی فرعون کے نام سے جانے جاتے ہیں اگر چہ یہ تو انجام کو پہنچ چکے
ہیں مگر ان کے ظلم اور بربریت کی تاریخ آج بھی اُسی طرح انکے مظالم بیان
کرتی ہے جس طرح ماضی میں بیان کیا کرتی تھی ۔انکے جانے کے بعد ایک سپر پاور
نے بھی کئی معصوموں کی جانوں سے اپنے مذموم مقاصد کیلئے کھیلا وہ بھی تاریخ
کا حصہ ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تاریخ ہمیشہ حقیقی آئینہ
ہے جو ہر کسی کودکھایا جاتا چاہے وہ دیکھنا چاہے یا نہ دیکھنا چاہے ۔
میری آج کی تحریر کا عنوان دراصل ایسے مسلمان بھائیوں کی داستان غم ہے کہ
جن پر ہونے والے مظالم نے ماضی کے تمام جابر حکمرانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے
ہمارے یہ مسلمان بھائی ا س وقت روہنگیا کے باسی ہیں اور یہ اس ملک کے باسی
ہے جہاں بدھ مت کی ایک تاریخ ہے ۔بدھ مت کی اس تاریخ کے روح رواں گوتم بدھ
کا احترام ساری دنیا اور ہر مذہب کرتا ہے کیونکہ وہ اس دنیا میں ایسا شخص
گزرا ہے جو تشدد کے سخت خلاف تھا اور انسانوں پر تشدد تو بہت دور کی بات ہے
وہ بے زبان جانوروں پربھی کسی قسم کے تشدد کا قائل نہیں تھا مگر بد قسمتی
کی بات ہے کہ آج اسی گوتم بدھ کے پیروکار اس وقت برما میں مسلمانوں پر جو
ظلم کر رہے ہیں اگر آج گوتم بدھ ان مظالم کو دیکھ لے تو وہ انکے افکار دیکھ
کر شاید اپنے ان پیروکاروں کی زندگی کا ہی خاتمہ کر دے کیونکہ ایک ایسا شخص
جس نے ساری زندگی عدم تشدد کی تعلیم دی ہو اور اسی کے پیروکار اٹھ کرتشدد
کو پروان چڑھا رہے ہوں تو یقینا اسکے پاس اسکے سوا کوئی حل نہیں ہوگا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق روہنگیا میں مسلمانوں کی کل آبادی22لاکھ سے زائد
تھی تاہم 1978سے لیکر اب تک کے انسانیت سوز تشدد کے باعث ایک اندازے کے
مطابق اب تک 10لاکھ سے زائد مسلمان یہاں سے ہجرت کر چکے ہیں اور اس وقت وہ
دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم ہیں جہاں انہیں مہاجر کی حیثیت سے پناہ دی
گئی ہے ۔سابق صدر ضیاء الحق نے بھی 1978میں برما کی جانب سے روہنگیا کے
مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ملٹری آپریشن کے بعد روہنگیا کے مسلمانوں کی
ایک بڑی تعداد کو کراچی کے شہر کورنگی میں آباد کیا تھا اور بعد میں ان کو
پاکستان کی شہریت دے دی گئی تھی ۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق روہنگیا
کے مسلمان یہاں پر صدیوں سے آباد ہیں مگر برما کا قانون انہیں اقلیت تسلیم
کرنے سے بھی انکاری ہے ۔روہنگیا کے مسلمانوں پر ایک جانب ریاست مظالم ڈھاتی
ہے تو دوسری جانب نان سٹیٹ ایکٹرز بھی اسکا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے
روہنگیائی مسلمانوں پر شدید تشدد کرتے ہیں اور انہیں گاجر مولی کی طرح شہید
کرتے ہیں ۔
قارئین……!! روہنگیا میں روزانہ درجنوں کے حساب سے نعشیں آج بھی گر رہی ہیں
مگر 57اسلامی ممالک جو اپنا وجود رکھتے ہیں جن کی اپنی اکانومی ہے
اپنادفاعی نظام ہے ان میں سے سوائے ترکی کے کسی نے اب تک لب کشائی نہیں کی
اس سے بڑھ کر بد قسمتی کی بات کیا ہوگی کہ ایک وقت تھا کہ مسلمان کا خون
زمین پر گرنے سے قبل کبھی صلاح الدین ایوبی تو کبھی سلطان محمود غزنوی جیسے
اسلام کے سپاہی پہنچ جاتے تھے مگر آج کے مسلمان کی غیرت اور آج کے مسلمان
کا جذبہ جہاد کہاں سو گیا ہے کہ 57اسلامی ممالک اپنی فوج رکھتے ہوئے بھی
ایک چھوٹی سی ریاست برما کے خلاف لب کشائی تک کرنے کی جسارت محسوس نہیں
کرتے جبکہ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی 35ممالک کا اسلامی اتحاد جو منظم فوج
پر مشتمل ہے کہاں کھو گیا ہے یہ روہنگیا کے مسلمان کس کے پاس فریاد لے کر
جائیں انکے ناحق خون کا بدلا کون ان کو لوٹائے گا ۔
ہیومن رائٹس واچ،انٹرنیشنل ہیومن رائٹس،ہیومن ڈویلپمنٹ ،ایشین ہیومن
ڈویلمنٹ،ہیومن رائٹ واچ صرف یہی نہیں بے شمار ایسی تنظیمیں جو دنیا بھر میں
مظلوم انسانوں کے دفاع اور انکے حقوق کی جنگ لڑنے کی دعویدار ہیں کیا انہیں
آج برما کے اندر کوئی انسانی حقوق نظر نہیں آتے کاش کہ ان تنظیموں کو بھی
کوئی پوچھنے والا ہوکہ آج آپکی انسانیت سے ہمدردی کدھر ہے ۔یہ وہی انسانی
حقوق کی تنظیمیں ہیں جو صرف مذہب اسلام کو بدنام کرنے کے حیلے بہانے
ڈھونڈتی ہیں اور ہمیشہ ایسے معاملات پر شورو غوغا کرتی ہیں جن سے مذہب
اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل سکے مگر آج انسانیت بدنام ہو رہی ہے مگر ان
کو اسکی فکر نہیں آج انسانیت بھی ان برما کے مسلمانوں کے آگے شرمندہ ہے اور
وہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میں شرمند ہوں اور حقوقِ انسانی کیلئے کام
کرنے والی یہ تنظیمیں آج کوئی احتجاج کرتی اور کوئی آہ بقا کرتی نظر نہیں
آتی یہ وہی تنظیمیں ہیں جنہوں نے ایک جانب سوڈان کے دوٹکڑے اس لئے کروائے
کہ وہاں عیسائی رہتے تھے ان سے کوئی پوچھے کہ کیا سوڈان میں ایسا ظلم کسی
نے دیکھا اور یہی نہیں انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کو صوبہ بنانے کی مہم بھی
انہی تنظیمو ں نے چلائی وجہ دونوں جگہ پر ایک ہی تھی کہ وہ مذہب اسلام کے
پیروکار نہیں تھے وہ یہود و ہنود کے پیروکار تھے ۔
قارئین……!!اقوام متحدہ جس کا قیام صرف اسلئے ممکن بنایا گیا تھا کہ بے بس
اور لاچار ملکوں کی مالی معاونت اور غاصبوں کے قبضے سے انہیں چھڑایا جائے
گا آج اسکے مقاصد کی لمبی تاریخ پر بھی نگاہ دوڑائیے کہ افغانستان میں ناحق
خون بہانے کا کیا مقصد تھاکیا یہ قیام امن کی کوشش تھی ،کویت اور عراق کی
جنگ کروا کر پھر کویت کے تمام کنوؤں پر قبضہ کرنا کیا قیام امن کی کوشش تھی
،خطہ عرب میں نام نہاد انقلاب کا نعرہ لگوا کر ان پر امن ملکوں کے پر امن
عوام کو آگ و خون میں نہلانا قیام امن کی کوشش تھی ۔جبکہ اسکے دوسری جانب
بھی جا کر دیکھیں کیا کشمیر میں کشمیریوں پر ہونے والا ظلم اقوام متحدہ کے
اتاشیوں کو نظر نہیں آتا،کیا فلسطین میں اسرائیل کی بربریت سوالیہ نشان
نہیں ہے ۔ ………………
قارئین سوال کس سے کریں ………………اپنے آپ سے یا ان نام نہاد صیہونی ایجنٹوں سے
جو دنیا بھر میں اسلام کے پیروکاروں کے خاتمے کیلئے ایک منظم لڑائی کا آغاز
کر چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ آج بھی خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں ہم صرف یہی
فرض سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کر دیں
اوریہی فرض سمجھتے ہیں کہ اس پر گفتگو کر لیں ……اگر آج ان صیہونی ہتھکنڈوں
کے خلاف اسلامی ممالک متحد ہو کر بر سر پیکار نہ ہوئے تو پھر اسکے بعد
پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہ جائے گا۔خدارا…………سوشل میڈیا کی دنیا سے نکل کر
اور پانامہ اور حقامہ کے مدار سے باہر آئیں اور بڑے کاز کیلئے جدوجہد
کریں۔کیا آپ کو سمند میں موجود لاشوں سے بھری روہنگیاں کے مسلمانوں کی
تصاویر تڑپاتی نہیں کیا ماؤں بہنوں کے بے سرو پا لاشوں کی عکاسی دیکھ کر
آپکی روح کانپ نہیں جاتی اور کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ جس طرح روہنگیاں کے
مسلمان بچے مولی گاجر کی طرح کاٹے جا رہے ہیں آپکے بچوں کو بھی حشر ویسا ہو
…………یقینا سب کا جواب ناں ہے …………تو پھر ارباب اقتدار اور عوام سبھی خوش کے
ناخن لیں ایسی تحریک شروع کریں کہ یہود و ہنود کی تمام سازشیں ملیا میٹ ہو
جائیں اوردنیا بھر کے مسلمانوں کو کفار کے غلبے سے آزاد کروایا جا سکے۔
آج وہی پاکستان جس نے دنیا میں سب سے پہلے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں
کامیابی حاصل کی اسکے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں اور اس کامیابی کو ناکامی
سے تشبیہ دی جا رہی ہے یقینا یہ وقت سوچنے اور کچھ کرنے کا ہے ۔ |